انڈیا، چین سرحدی تنازع: لداخ کے معاملے پر لیہ کے مقامی کیا کہتے ہیں؟


لیہ

لیہ سے گلوان وادی تقریبا 160 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لیکن یہاں پراسرار خاموشی پھیلی ہے

انڈیا کے ہمالیائی خطے لداخ کے شہر لیہ میں ایک پراسرار خاموشی ہے۔ لداخ کے مقامی لوگوں میں اُس وقت سے ایک قسم کی بے چینی اور بے یقینی پائی جا رہی ہے جب وادی گلوان میں چین کے ساتھ جھڑپوں میں 20 انڈین فوجی ہلاک ہوگئے ہیں۔

صرف چند افراد ہی سڑکوں پر نظر آتے ہیں جبکہ عام طور پر سال کے اس وقت یہ جگہ دنیا بھر کے سیاحوں سے بھری ہوا کرتی تھیں۔

لیہ میں بہت کم آبادی ہے اور یہاں ایک مربع کلومیٹر میں صرف تین افراد کی آبادی کی کثافت ہے تاہم 21 جون تک یہاں کورونا کے 212 مثبت کیسز تھے۔

لداخ میں انڈیا اور چین کے مابین ہونے والے تصادم نے خطے میں پہلے سے موجود خدشات میں مزید اضافہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’بالاکوٹ پر بڑھ چڑھ کر بولنے والے لداخ پر کیوں خاموش ہیں‘

انڈیا اور چین کے درمیان لداخ کے محاذ پر کیا ہو رہا ہے؟

انڈیا چین سرحدی تنازع: ’خانہ بدوشوں کو چراگاہیں چِھن جانے کا ڈر‘

جمعرات کے روز لیہ میں ایک بودھ مذہب کے ماننے والے گروپ لداخ بودھ ایسوسی ایشن نے لائن آف ایکچول کنٹرول پر ہلاک ہونے والے فوجیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے مارچ کرنے کی کوشش کی لیکن کووڈ 19 کی پابندی کی وجہ سے حکام نے انھیں مارچ کرنے سے روک دیا۔

وادی گلوان اور پینگونگ خطہ کی طرف جانے والی تمام سڑکیں میڈیا سمیت بیرونی افراد کے لیے بند کر دی گئی ہیں۔

لیہ میں حکام کا کہنا ہے کہ نقل و حرکت پر پابندیاں صرف کورونا وائرس کی وجہ سے ہیں۔ لیکن لیہ کے بی جے پی صدر ڈورجی آنگچوک نے بی بی سی کو بتایا کہ میڈیا کو آگے کے علاقوں کا سفر کرنے سے صرف اس لیے باز رکھا جا رہا ہے تاکہ قیاس آرائیوں کو روکا جا سکے۔

لیہ کے بیشتر مقامی لوگوں کو وادی گلوان کی حقیقی صورتحال سے آگاہی نہیں ہے جو کہ یہاں سے صرف تقریبا 160 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔

انڈیا کی جانب لائن آف ایکچول کنٹرول کے اطراف کے علاقوں کے آس پاس مواصلاتی لائنیں گذشتہ کچھ ہفتوں سے معطل ہیں۔

مودی کے بیان کے بعد کنفیوژن، غم و غصہ

اب جبکہ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ ‘ہمارے علاقے میں کسی نے در اندازی نہیں کی ہے’ تو ان کے اس بیان پرلداخ اور انڈیا کے دوسرے حصوں میں سوالات کیے جا رہے ہیں۔

وادی گلووان سے متصل ڈربوک سے تعلق رکھنے والے سابق کونسلر نامگیال ڈربوک 15 دن پہلے ہی اپنے گاؤں سے لیہ واپس آئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ‘اگر ان (چینی باشندوں) نے ہمارے علاقے میں دراندازی نہیں کی ہے تو پھر اتنی فوج کی تعیناتی کیوں ہے؟’

انھوں نے مزید کہا: ‘وزیر اعظم مودی یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہاں کوئی دراندازی نہیں ہوئی لیکن ہم سب گاؤں والے جانتے ہیں کہ دراندازی ہوئی ہے۔ اگر آپ وادی گلوان پر نگاہ ڈالیں تو پہلے ہم اپنے گھوڑوں کو وہاں کی چراگاہ میں چرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیتے تھے لیکن اب وہاں چینیوں کا کنٹرول ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟’

بی جے پی کے لیہ کے صدر مسٹر آنگچوک کا کہنا ہے کہ ‘دونوں فوجیں ایل اے سی کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے اطراف میں گشت کرتی ہیں۔ اب چونکہ ایل اے سی کی حد بندی نہیں ہے لہذا بعض اوقات ہماری فوجیں ان کی طرف چلی جاتی ہیں یا کبھی وہ ہماری طرف چلے آتے ہیں۔ اور اسی وقت دونوں فوج آمنے سامنے آجاتی ہیں اور بعض اوقات جھڑپیں ہوتی ہیں۔ اور اس بار بھی ایل اے سی پر جھڑپیں ہوئیں لیکن چینی فوج نے ہمارے علاقے میں کوئی دخل اندازی نہیں کی۔’

سنہ 1999 کی کارگل جنگ میں پاکستان کے خلاف لڑنے والے ریٹائرڈ انڈین فوجی کرنل سونم وانگچک کہتے ہیں: ‘ہم نے گلوان میں 20 لڑکوں کو کھو دیا جس کا مطلب ہے کہ وہاں تنازع تھا یا تصادم ہوا ورنہ آپ ان لوگوں کو کیسے کھو دو گے۔ آپ ان کے علاقے میں نہیں گھس رہے ہو یا وہ آپ کے علاقے میں داخل ہو رہے ہیں اسی لیے یہ جھڑپیں ہوئیں۔’

وزیر اعظم کے بیان پر جب غم و غصہ اور کنفیوژن پیدا ہوا تو وزیر اعظم کے دفتر نے اگلے ہی روز اس کی وضاحت جاری کی جس میں کہا گیا:

‘آل پارٹی میٹنگ کو بتایا گیا کہ چینی ایل اے سی پر بہت بڑی تعداد میں آگئے تھے اور انڈیا کا ردعمل اسی کے حساب سے تھا۔’

اس میں مزید کہا گیا کہ ‘جہاں تک ایل اے سی پر حد سے تجاوز کرنے کے معاملے ہے تو اس بابت یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ 15 جون کو گلوان میں تشدد اس لیے ہوا تھا کہ چینی فریق ایل اے سی کے پار ڈھانچے کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور وہ اس سے باز آنے کے لیے تیار نہیں تھے۔’

مقامی لوگوں کو معاش، مواصلات سے محروم ہونے کا خدشہ

ایل اے سی کے آس پاس رہنے والے بیشتر افراد کا گزر بسر مویشیوں پر منحصر ہیں اور چینی مداخلت نے انھیں اپنی چراگاہیں کھو دینے سے بے چین کردیا ہے۔

نامگیال ڈربوک نے کہا: ‘چین کئی سالوں سے ہماری زمینوں پر تجاوزات قائم کر رہا ہے اور ہم چانگ تھانگ کے خانہ بدوشوں نے ہمیشہ حکام کے سامنے یہ بات اٹھائی ہے لیکن کسی نے بھی ہماری بات نہیں سنی اور اب ہمیں پریشانی ہو رہی ہے۔’

یہاں کے ہر خطے کی نمائندگی منتخب اراکین کے ذریعہ کی جاتی ہے جنھیں کونسلر کہتے ہیں اور ان منتخب اراکین کی کونسل کو لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل، لیہ (ایل اے ایچ ڈی سی) کہا جاتا ہے۔

خطے میں ہونے والے تمام ترقیاتی کاموں کی ذمہ داری ایل اے ایچ ڈی سی کی ہے۔

بی بی سی کو ایک خط ملا جسے گلوان اور پینگونگ علاقوں کے کونسلروں نے لکھا تھا۔ 19 جون کے تحریر کردہ خط میں لداخ کے ڈویژنل کمشنر کو مخاطب کیا گیا تھا اور اس میں خطے میں مواصلاتی سہولیات کی بحالی کی درخواست کی گئی تھی۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ‘انڈیا چین بارڈر پر جاری کشیدگی کے پیش نظر پورے خطے میں ٹیلی مواصلات کی سہولیات کو اچانک ختم کردیا گیا ہے۔’

کونسلروں نے مزید لکھا: ‘بی ایس این ایل (سرکاری کمپنی) موبائل سہولیات گذشتہ 20 دنوں سے معطل ہے جس کی وجہ سے اطراف کے لگ بھگ 17 گاؤں کو مواصلاتی بلیک آؤٹ کا سامنا ہے۔’

خط

یہ خط 19 جون کو تحریر کیا گیا تھا

کونسلرز نے مزید لکھا کہ کووڈ 19 کے وبائی مرض کے دوران رابطے کی اشد ضرورت ہے اور طلبا کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ وہ آن لائن کلاسز میں شامل نہیں ہو سکتے ہیں۔

خطے میں 20 دنوں بعد اب بھی مواصلات بدستور معطل ہے۔

لداخ کے ڈویژنل کمشنر مسٹر سوگت بسواس نے بی بی سی کو بتایا: ‘میں نے یہ بات فوج کے ساتھ اٹھائی ہے۔ وہ اب بھی اس پر غور کررہے ہیں۔’

انھوں نے مزید کہا: ‘سرحدی علاقوں میں مواصلات بی ایس این ایل کے ذریعہ فراہم کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ لائن بنیادی طور پر فوج کے کنٹرول میں ہے۔ لہذا یہ میرے دائرہ اختیار میں نہیں تاہم میں فوج کے ساتھ رابطے میں ہوں۔’

علی حود جارج سنہ 1962 کی انڈیا چین جنگ میں لڑنے والے سابق فوجی ہیں اور وہ لداخ سے تعلق رکھنے والے مقامی باشندے ہیں۔

جارج کا سب سے چھوٹا بیٹا بھی انڈین فوج میں ہے اور وہ پینگونگ خطے میں تعینات ہے۔ یہ خطہ بھی انڈیا اور چین کے درمیان ایک اور فلیش پوائنٹ ہے۔

جارج نے کہا: ‘میرا بیٹے کو دونوں افواج کے آمنے سامنے آنے کے فورا بعد ہی اس خطے میں تعینات کر دیا گیا تھا۔ میں ابھی تک اس سے بات نہیں کر سکا کیوں کہ اب تک وہاں کوئی مواصلاتی نظام نہیں ہے۔’

مقامی تاجر سیرنگ نامگیال کا کہنا ہے کہ وہ راشنوں کے لیے لیہ کا دورہ کرنے والے وادی گلوان اور پینگونگ جھیل کے کچھ لوگوں سے ملے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ‘انھوں نے کچھ سامان خریدنے کے لیے دیہاتوں سے سفر کیا تھا، انھوں نے مجھے بتایا کہ شیوک سے ڈربوک تک بڑی تعداد میں فوج کو تعینات کیا گیا ہے، وہاں توپ خانہ بھی دیکھا گیا ہے۔’

لداخ

بلندی پر جنگ

انڈین لڑاکا طیارے کئی دنوں سے پورے لیہ شہر میں پرواز کرتے ہوئے دیکھے جارہے ہیں اور 20 انڈین فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سے انڈیا کی طرف سے فوجیوں کی تعیناتی میں اضافے کی بھی اطلاعات ہیں۔

خطے میں مقامی لوگ کسی بھی صورتحال کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔

نامگیال دربوک نے کہا: ‘ہم نے لداخ میں جنگ جیسی بہت ساری صورت حال دیکھی ہے اور ہم ہمیشہ اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اگر آپ وادی گلوان پر نظر ڈالیں تو اس وقت میرے علاقے کے لگ بھگ 400 سے 500 مقامی پورٹرز اور مزدور انڈین فوج کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔’

انڈیا اور پاکستان کے درمیان سنہ 1999 کی کرگل جنگ کے دوران لداخ بھر کے عام شہریوں نے فوج سے رضاکارانہ طور رسد کی فراہمی میں مدد کی کیونکہ بیشتر فوجی چوکیاں ایسی پہاڑی چوٹیوں پر تھین جہاں سڑک نہیں جاتی۔

لیہ کے ایک مقامی صحافی نثار احمد بھی اسی طرح کے ایک رضاکار گروپ کا حصہ تھے۔

وہ کہتے ہیں: ‘یہ 25 افراد کا گروپ تھا، ہم رضاکاروں کی حیثیت سے فوج کی مدد کرنے گئے تھے۔ جب جنگ چھڑ گئی تو ہم کرگل میں بلندی پر واقع فوجی چوکیوں پر راشن اور گولہ بارود لے کر جاتے تھے۔’

انھوں نے مزید کہا: ‘ہر گاؤں اور برادری والے اپنے جوانوں کو فرنٹ لائن پر لڑنے والی فوجیوں کی مدد کے لیے بھیجا کرتے تھے۔’

انڈیا اور چین کے مابین ایل اے سی دریاؤں، برفیلی چوٹیوں، پہاڑوں سے ہو کر گزرتی ہے۔ یہ زیادہ تر اونچائی والا علاقہ ہے جو اکثر سطح سمندر سے 14000 فیٹ کی بلند پر واقع ہے۔

ایسے بلند خطوں میں لڑنے کے لیے خصوصی جنگی مہارت کی ضرورت ہے۔ خطے میں فوج کے کسی بھی اہلکار کو تعینات کرنے سے پہلے انھیں اونچائی کے ماحول سے پوری طرح مانوس ہونا پڑے گا اور یہ تربیت تین مرحلوں میں مختلف بلندیوں پر ہوتی ہے۔

ایک بار جب وہ اس ماحول سے مانوس ہوجاتے ہیں تو پھر فوجیوں کو ایک ماہ تک انڈکشن کی تربیت سے گزرنا پڑتا ہے اور اس کے بعد ہی ان کی تعیناتی کی جاتی ہے۔

اس قسم کے بلند مقامات پر چھوٹی موٹی جنگ کا تجربہ رکھنے والے کرنل سونم کہتے ہیں: ‘اگر جنگ میدانوں میں ہوتی ہے تو ٹینکوں سے لے کر مسلح کاروں تک جنگی سازوسامان وسیع تر ہوتے ہیں لیکن یہاں پہاڑوں پر میرے خیال میں پیدل فوج کا کردار بہت اہم ہو جاتا ہے کیونکہ توپ خانے اور جنگ کے مختلف اجزاء کا اثر بھی اس بلندی پر بہت کم ہوجاتا ہے۔’

لداخ کی بلندی پر ہوا پتلی ہے۔،فضا خشک ہے، بلند سطح کی بیماریوں کے زیادہ خدشات ہیں لہذا اس کے لیے جسم کو تیار کرنا پڑتا ہے۔

کرنل سونم کا کہنا ہے کہ ‘سطح سمندر سے زیادہ بلندی پر لڑی جانے والی جنگ آپ کی توانائیاں ختم کردیتی ہے اور ہتھیاروں کی تاثیر بھی کم ہو جاتی ہے۔ ہیلی کاپٹروں کی بوجھ اٹھانے کی صلاحیت میں بھی کمی واقع ہوتی ہے پھر آپ کو پہاڑوں پر نقل و حرکت کے لیے خصوصی سامان کی ضرورت ہوتی ہے۔’

جنگ کے تجربہ کار فوجی الیہود جارج نے بتایا: ‘ہم چین سے 1962 کی جنگ اس لیے ہارے کہ ہم جنگ کے لیے تیار نہیں تھے اور ہمارے پاس اتنے ہتھیار اور افرادی قوت بھی نہیں تھی۔’

انھوں نے مزید کہا: ‘یہ بدقسمتی ہے کہ 20 انڈین فوجی ہلاک ہوئے اور اس کا مجھے افسوس ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ انڈیا اپنے موقف کو دہرائے ورنہ چین اس طرح کی مداخلت کرتا رہے گا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32568 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp