پاگل خانہ


پرانی کہانی ہے کہ کسی بادشاہ کے دربار میں ایک نجومی حاضر ہو کر یہ پیش گوئی کرتا ہے کہ اس ریاست کے حدود میں عنقریب بارش متوقع ہے۔ مگر جو بھی اس بارش کے پانی کو پیئے گا وہ پاگل ہو جائے گا۔ نجومی اس متوقع بارش سے پہلے کی چند نشانیاں بتا کر دربار سے رخصت ہوتا ہے۔ بادشاہ مذکورہ پیش گوئی سے فکر مند ہوجاتا ہے اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے اپنے وزیر سے رائے طلب کرتا ہے کہ کس طرح سے رعایا کو پاگل ہونے سے بچا یا جائے؟

وزیر چند لمحے خاموش رہنے کے بعد عرض کرتا ہے کہ بادشاہ سلامت! آپ کو علم ہے کہ دیگر استعمال سمیت پینے کے پانی کے لئے بھی عام و خاص ہم سب کا انحصار بارش کی ذخیرہ شدہ پانی پر ہے۔ ہمارے پاس کوئی ایسا متبادل ذریعہ یا طریقۂ کار نہیں کہ جس سے ہم دیگر ذرائع سے تمام رعایا کے لئے پانی کا انتظام کر سکیں۔ وزیر مزید کہتا ہے کہ اگر نجومی کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی تو رعایا کا پاگل ہونا طے ہے! البتہ ہمیں خواص کی فکر کرنی چاہیے۔

اور خاص میں سر فہرست صرف ہم دو بندے یعنی آپ باد شاہ سلامت اور پھر میں ہوں۔ اور دو بندوں کے لئے پینے کا پانی محفوظ کرنا مشکل کام نہیں۔ بادشاہ وزیر کے اس مشورے سے مطمئن ہوجاتا ہے۔ چند دنوں بعد نجومی کی بتائی ہوئی نشانیاں نمودار ہوجاتی ہیں۔ وزیر اپنے اوربادشاہ کے لئے پانی کا وافر مقدار میں ذخیرہ کرلیتا ہے تاکہ وہ پاگل ہونے سے بچ سکیں۔ کچھ ہی دنوں میں بادل برسنے لگتے ہیں۔ بارش ختم ہونے کے بعد جب رعایا یہ پانی پینے لگتی ہے تو نجومی کی کئی ہوئی بات سچ ثابت ہوتی ہے یعنی تمام لوگ پاگل ہو جا تے ہیں۔

چند دن کے بعد بادشاہ وزیر کے صلاح و مشورے سے ریاستی انتظام اور صورتحال کے حوالے سے دربار عام منعقد کرتا ہے جس میں مشیر وعلاقائی معتبرین شریک ہوتے ہیں۔ جب بادشاہ سلامت دربار میں تشریف لا رہے ہوتے ہیں تو وزیر کے علاوہ موجود درباری مشیر و معتبرین آپس میں باتیں کرنا اور ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔ بادشاہ اور وزیر کے لئے یہ صورتحال بالکل غیر متوقع ہوتا ہے۔ بادشاہ سلامت کے تخت پر براجمان ہوتے ہی وزیر با آواز بلند دربار میں بیٹھے شرکاء کو شاہی آداب بجا لانے کی تلقین کرتے ہوئے خاموش رہنے کا حکم دیتا ہے۔

مگر شرکاء وزیر کے انداز اور کئی ہوئی باتوں کا نقل اتار نے اور باقی لوگ زور زور سے ہنسنے لگتے ہیں۔ پھر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے۔ کوئی بادشاہ کی نقل اتارتا، کوئی مذاق اڑاتا ہے، کوئی بادشاہ اور وزیر بن کر تقریر اور احکامات جاری کر نے اور کئی قہقہے لگارہے ہوتے ہیں، کوئی چھلانگیں لگا رہا اور کوئی دائرے میں دوڑ رہا ہے۔ بادشاہ اور وزیر یہ منظر دیکھ کر حیران اور پریشان ہو جاتے ہیں کہ شاہی آداب و احترام تو کجا، یہاں کوئی ہمیں بادشاہ اور وزیر ماننے کو اور ہماری بات سننے کو ہی تیار نہیں ہے۔

بادشاہ اس صورتحال سے تنگ آکر وزیر سے مشورہ طلب کر تا ہے کہ اب کیا کیا جائے! ؟ تو وزیر موصوف بادشاہ کو مطمئن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ”بادشاہ سلامت! ہم دونوں کے علاوہ ریاست کے تمام لوگ پاگل ہوچکے ہیں۔ ان سب پاگلوں کے درمیان رہتے ہوئے ایسا گمان ہو رہا ہے کہ اصل پاگل تو ہم ہیں۔ کیونکہ وہ اکثریت میں ہیں اور ہم صرف دو۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ ہم بھی حالیہ بارش کے پانی کو پی کر انہی کی طرح ہوجائیں۔

کیونکہ ان تمام پاگلوں کے درمیان صرف ہم دو ہوشمند بندوں کا زندہ رہنا اور اپنی بات کہنا اور سمجھانا ناممکن ہے۔ اگر زندہ رہے بھی تو ہمارا پاگل ہونا طے ہے۔ سمجھداری یہی ہے کہ ہم بھی اکثریت کے رنگ میں رنگ کر ان سے ہم آہنگ ہوجائیں اور باقی لوگوں سے جڑے رہیں۔ وزیر کی بات بادشاہ کو پسند آتی ہے اور پھر یہ دونوں اسی سے ایک ایک کٹورا پانی پی لیتے ہیں۔ پانی اپنا اثر دکھاتا ہے۔ پھر بادشاہ وزیر اور تمام پاگل ایک ہی سطح پر آ جاتے ہیں۔ پھر تقاریر، قہقہے، شور شرابا، اچھل کود اور ایسی دیگر حرکتوں کا یہ سلسلہ مزید توانا ہوجاتا ہے“ ۔

آج کل جب بھی اپنے معاشرے اور سماجی رویوں کو دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں تو یکا یک مذکورہ کہانی میرے ذہن میں نمودار ہوجاتا ہے۔ ایسا گمان ہوتا ہے کہ پورا سماج حرص، خود غرضی اور خود پسندی کی کشتیوں میں سوار ہے اور ضمیر، اخلاقی اقدار و اصول اور انسانیت کے جزیروں کو پھلانگ کر دولت، طاقت، مراعات، مادیت پرستی اور عدم برداشت کے سمندر میں سرگرداں ہے۔

عظیم مفکر ابن خلدون نے انسانی سماجی ادوار کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا دور جہالت کا، دوسرا ترقی کی جانب محو سفر کا، جبکہ تیسرا دور ترقی سے زوال کی جانب سفر کا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا سماج ضمیر، اخلاقی اقدار اور انسانی اصولوں کے حوالے سے تیسرے دور میں داخل ہوچکا ہے۔ ہم تیزی سے جہالت اور زوال کی جانب گامزن ہیں۔ موجودہ دور میں ہر وہ عمل جائز ہے جس سے دولت، طاقت اور اختیار حاصل ہو۔ شہرت بدکرداری اورگھناؤنے کارناموں کی بیساکھیوں پر کیوں نہ کھڑی ہو، مگر قابل احترام اور قابل تقلید ہے۔

محلہ سے لے کر صوبوں اور ملکی سطح تک کا جائزہ لیں! ہر وہ بندہ اور ادارہ معتبر ہے جو تمام اخلاقی تقاضے اور طے شدہ اصولوں کو پھلانگ کر اپنی بے لگام طاقت کا مظاہرہ کرے اور کمزور کو روند کر اپنی طاقت کا دبدبہ قائم رکھے۔ طاقتور نے تہیہ کر لیا ہے کہ سچائی صرف وہی ہے جو اس کا بیانیہ ہے اور اس کے انفرادی واجتماعی اور طبقاتی مفاد کا محافظ اور ضامن ہو۔ اختلاف رائے چاہے فکری، نظریاتی، علمی ہو، یاکہ انتظامی و قانونی اور آئینی حدود و حقوق کی اصولوں اور عملی مظاہرے پر ہو، سب ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے۔ چاہے لسانیت کی بنیاد پر ہو یا کہ مذہب یا فرقہ کی بنیاد پر، ہمیشہ اکثریت کے موقف اور نقطۂ نظر کو مدنظر رکھ اقلیت کے حدود اور حقوق متعین کیے جاتے ہیں۔

مذکورہ بالا حالات میں دولت، طاقت اور مراعات کے حصول کے اس دوڑ میں ہر کوئی دوسرے کو پچھاڑ کر آگے نکلنے کی تگ و دو میں ہے۔ پیچھے رہ جانے والے حسرت بھری نگاہوں سے آگے بڑھنے والوں کو دیکھ کر ان کے صفحوں میں شامل ہونے کے لئے نئی تدبیریں سوچ رہے ہیں۔ کسی کو بھی یہ ہوش نہیں کہ اس دوڑ میں نہ صرف ضمیر، اخلاقیات، انسانیت کے اصولوں اور اقدار پر مبنی انسانی سماج کی بقاء قدموں تلے روندی جارہی ہے بلکہ خود کو بھی تباہ کیا جا رہا ہے۔

کوئی اس سچائی کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے کہ انفرادی ترقی و خوشحالی اور بقاء اجتماعی مفاد سے مشروط ہے۔ چند جو صاحب فکر ہیں وہ اس پاگل پن پر نوحا کناں ہیں۔ مگر اہل ہوس کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی، اوروہ بضد ہیں کہ اہل فکر نوحا کنائی چوڑ کر قصیدہ خوان بن جائیں۔ افراتفری کے اس عالم میں کامیاب بننے کے لئے تباہ کن مروجہ اصولوں کے پس منظر میں معاشرتی رویوں کا جائزہ لیا جائے تو غلط و صحیح اور نیک و بد کا پیمانہ ہی الٹ پلٹ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ ”پاگل پن“ کے اس دوڑ میں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اصل پاگل اہل ہوس جو طاقتور یا اکثریت میں ہے یا قلیل اہل فکر ہے! ؟ ایسا لگتا ہے کہ تمام ملک اور ہمارا پورا سماج ایک پاگل خانہ میں تبدیل ہوچکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments