کیا نیب ریٹائرڈ آرمی افسران کا احتساب کر سکتا ہے؟


فقیر راحموں کا قول ہے کہ کوئی فرد یا ادارہ چاہے جتنا بھی مقدس ہو، جو بھی سیاست کرے گا یا سیاسی عہدہ پر فائز ہو گا یا کسی بھی طرح کی عوامی خدمت کی ذمہ داری کا (نو آبادیاتی گندمی آدمی کا ) بوجھ اٹھائے گا، اسے اپنے آپ کو عوام کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ یہ ایک ایسا مسلمہ اصول ہے جس سے انحراف کی ذرا سی بھی گنجائش قوموں اور نسلوں کے لیے ظلم اور تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ اور یہ تو ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکومتیں کفر پر تو قائم رہ سکتی ہیں، لیکن ظلم پر ہرگز نہیں۔

مسلم تاریخ کے سب ادوار میں خلیفۂ وقت نہ صرف حکمران تھے بلکہ سپریم کمانڈر / سپہ سالار بھی ہوا کرتے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان سب حضرات نے کبھی بھی اپنے آپ کو احتساب سے ماورا نہیں سمجھا۔ خود خلفائے راشدین جیسی عظیم شخصیات نے بھی اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے احتساب کے لیے پیش کیا۔

پاکستان آئینی طور پر ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے۔ کارسرکار نبٹانے کے لیے آئین، قانون اور ضابطے موجود ہیں۔ سیاستدانوں کے احتساب کے لیے پارلیمنٹ اور نیب کا ادارہ قائم ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے احتساب کے لیے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل موجود ہے۔ آرمی کے حاضر سروس ملازمین کے لیے پاک آرمی کے اپنے داخلی نظام میں پاکستان آرمی ایکٹ، 1952 کے تحت احتساب کا طریقۂ کار دستیاب ہے اور جیسا کے ہم جانتے ہیں کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے دور میں 11 افسران کو کرپشن چارجز پر نکالا بھی تھا۔ جس میں ایک لیفٹیننٹ جنرل، ایک میجر جنرل، پانچ بریگیڈیر، تین کرنل، اور ایک میجر شامل تھے۔

چند روز ہوئے لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ، جو کہ اس وقت سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین اور وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی ہیں، کے خاندانی کاروبار بارے ایک معروف صحافی احمد نورانی کی رپورٹ شائع ہوئی، رپورٹ کس حد تک سچ پر مبنی ہے اور کس حد تک جھوٹ پر ، اس انتہائی الزام کے سچ اور جھوٹ کا فیصلہ تو ہمیشہ کی طرح شاید وقت ہی کر پائے گا۔ ہمیں تو صرف یہ دیکھنا ہے کہ نیب آرڈیننس 1999 اس بارے کیا کہتا ہے کہ کیا قومی احتساب بیورو (نیب) ریٹائرڈ آرمی افسران کا ’سر تا پا‘ احتساب کر سکتا ہے یا نہیں؟ آئیے اس جواب طلب مسئلہ کا حل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کی روشنی میں لیتے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک رٹ پٹیشن بعنوان انعام الرحیم بنام چیئرمین نیب فیصلہ مؤرخہ 25 جنوری 2018 (پی ایل ڈی 2018 اسلام آباد 251 ) میں، اس سوال کا جواب دیا ہے کہ کیا نیب جنرل (ر) پرویز مشرف، جو کہ پاک آرمی سے بطور چیف آف آرمی سٹاف ریٹائرڈ ہیں اور پاکستان کے دسویں صدر بھی رہ چکے ہیں، کے تمام منقولہ اور غیر منقولہ اثاثہ جات کی انکوائری کر سکتی ہے یا نہیں؟

اس سوال موصل الی المطلوب کا جواب باصواب دیتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے فیصلے میں یہ تحریر کیا تھا کہ نیب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 5 کی سب کلاز 6 میں یہ واضح درج ہے کہ نیب ایسے تمام عوامی عہدوں پر فائز لوگوں کا احتساب بھی کر سکتی ہے جو آرمی میں رہے ہوں یا ریٹائرڈ ہو گئے ہوں یا استعفی دے دیا ہو یا برطرف کر دیے گئے ہوں یا سبک دوش کر دیے گئے ہوں۔ اسی سیکشن کے تحت صدر پاکستان اور تمام صوبوں کے گورنر بھی احتساب سے بری الزمہ نہیں ہیں۔ عدالت عالیہ نے یہ بھی طے کیا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف نہ صرف تحقیقات کر سکتی ہے بلکہ ٹرائل اور سزا کا اختیار بھی رکھتی ہے۔

عدالت عالیہ کے اس فیصلے کی روشنی میں ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ نیب جو کہ قومی سطح کا ایک محتسب ادارہ ہے اس کے دائرہ اختیار و تفتیش میں کوئی بھی ایسا شخص آ سکتا ہے جو عوامی نوعیت کے اہم عہدے پر کبھی فائز رہا ہو۔ ویسے بھی اگر ’احتساب سب کے لیے‘ ہے، تو کسی بھی سرکاری محکمے کے اہلکار (چاہے وہ نیب کا اپنا ملازم ہی کیوں نہ ہو) سے اس کے اثاثہ جات بارے جانچ پڑتال کی جا سکتی ہے۔

چلتے چلتے اب کوئی یہ دلیل کامل بھی دے سکتا ہے کہ دیکھیں جی، جب اللہ تعالیٰ بے حساب رزق دینے والا ہے۔ اور وہ ایسی ایسی جگہوں سے رزق دیتا ہے جو انسان کی سوچ سمجھ سے باہر ہوتا ہے، تو یہ دنیا دار لوگ یا ادارے کس چیز کا حساب مانگتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ’الحسیب‘ (حساب لینے والا) کا حوالہ دے کر کوئی یہ کہے کہ احتساب صرف آخرت میں ہو گا اور آخرت میں پوچھے جانے والے سوال دنیا میں نہیں پوچھے جا سکتے کہ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، تو ’دنیاوی انصاف‘ کا یہی تقاضا ہے کہ اس بندۂ خدا کو فقیر راحموں کی درگاہ پر چھوڑ آنا چاہیے۔ امید ہے وہ انہیں ایمپائر کی انگلی پہ بٹھا کر اور ‘ محب الوطنی ’اور‘ ففتھ جنریشن وار ’کے اسرار و رموز سمجھا کر سلوک کی اعلیٰ منزلیں طے کروا دیں گے۔ فقیر راحموں کی جے ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).