جنسی ہراسانی: انگلینڈ کے سکولوں میں لڑکیوں کی جانب نامناسب رویہ عام ہونے لگا، رپورٹ میں انکشاف

کیتھرین سیلگرین اور ایلا ولز - بی بی سی نیوز


انگلینڈ، جنسی ہراسانی

انگلینڈ میں سکولوں کے نگران ادارے نے پایا ہے کہ کچھ لڑکیوں سے ایک رات میں 11 لڑکے بھی برہنہ تصاویر بھیجنے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔

‘جب میں ایک کمسن بچی تھی اور سکول میں تھی، اس وقت مجھے انسٹاگرام، فیس بک اور سنیپ چیٹ پر مخصوص اعضا کی ایسی 50 سے 60 تصاویر بھیجی گئیں جو میں نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔‘

‘مجھے لگتا ہے کہ اس معاملے میں آپ کو سب سے پہلے اپنی والدہ سے بات کرنی چاہیے۔ آپ کو ایسا لگ رہا ہوتا ہے کہ ‘میں یہ نہیں دیکھنا چاہتی، مجھے نہیں معلوم کہ اس کا کیا کروں، میں نے یہ تصاویر نہیں مانگیں۔ یہ تصاویر وصول کرنا اچھا نہیں ہوتا۔’

انگلینڈ میں سکولوں کے نگراں ادارے اوفسٹیڈ کی تحقیق کے مطابق کہ کچھ لڑکیوں سے ایک رات میں 11 لڑکے بھی برہنہ تصاویر بھیجنے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔

اوفسٹیڈ کے سروے میں لڑکیوں نے بتایا کہ اگر وہ سوشل میڈیا پر لڑکوں کو بلاک کریں تو ‘وہ ہراساں کرنے کے لیے مزید اکاؤنٹس بنا لیتے ہیں۔’

رپورٹ میں یہ بھی پایا گیا کہ 10 میں سے نو لڑکیوں کو جنسی تعصب پر مبنی ناموں سے پکارا گیا یا پھر اُنھیں برہنہ تصاویر اور ویڈیوز بھیجی گئیں۔

ادارے نے خبردار کیا ہے کہ سکول کی عمر کے بچوں میں جنسی ہراسانی ‘عام سی بات’ بن گئی ہے۔

اوفسٹیڈ کے مطابق طلبہ کو ایسے واقعات رپورٹ کرنا بے معنی لگتا ہے اور کئی اساتذہ اس مسئلے کی نوعیت کو پوری طرح سمجھ نہیں پاتے۔

سروے میں لڑکیوں نے کہا کہ جب لڑکے برہنہ تصاویر بھیجنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ ‘نہ سننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔’

ایک سکول میں لڑکیوں نے انسپکٹرز کو بتایا کہ اُن سے ایک رات میں 10 سے 11 تک مختلف لڑکے برہنہ و نیم برہنہ تصاویر کا مطالبہ کرتے ہیں۔

خواتین کے گروپس اب اس کلچر کی تبدیلی کے لیے سکول سٹاف کی تربیت اور ایک حکومتی ٹاسک فورس کی تشکیل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

وزرا کا کہنا ہے کہ اپنے سٹاف کو جنسی ہراسانی کے مسائل سے نمٹنے کی ٹریننگ کی خاطر دن مختص کرنے کے لیے سکولوں اور کالجوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

ادھر بی بی سی کی ایک تحقیق میں پتا چلا ہے کہ سال 2018 سے 2020 کے درمیان انگلینڈ میں 18 سال سے کم عمر افراد کے کم از کم 13 ہزار جنسی جرائم کی اطلاع پولیس کو دی گئی ہے۔

پولیس کے تیس مختلف محکموں نے فریڈم آف انفارمیشن کی درخواستوں کا جواب دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ ایسے تقریباً 2000 کیسز میں مبینہ متاثرہ اور ملزم دونوں ہی 10 سال یا اس سے کم عمر تھے۔

جن واقعات کی اطلاع پولیس کو دی گئی اس میں سے ایک ہزار کے قریب واقعات سکول کے احاطے میں ہوئے۔

اس سے اوفسٹیڈ کے اس انکشاف کی تائید ہوتی ہے کہ نامناسب جنسی رویہ اب پرائمری سکولوں میں اپنی جگہ بناتا جا رہا ہے۔


’آپ کو نہیں لگتا کہ اس کا کچھ سدِ باب ہو سکتا ہے؟‘

Cerys

سیریس کہتی ہیں کہ اُنھیں سکول کے دوران 50 سے 60 برہنہ تصاویر بھیجی گئیں

سیریس 21 سال کی ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ اُن کے حلقے میں موجود زیادہ تر لڑکیوں کو لڑکوں یا مردوں کی جانب سے برہنہ تصاویر بھیجی جا چکی ہیں۔

اسی طرح 18 سالہ لوسی نے بتایا کہ برہنہ تصاویر وصول کرنا ‘اس قدر عام’ ہو چکا ہے کہ اگر لڑکیوں کو اپنے سوشل میڈیا انباکس میں ایسے پیغامات نظر آتے ہیں تو وہ ‘بس انھیں ڈیلیٹ کر دیتی ہیں۔’

وہ کہتی ہیں ‘کچھ لڑکیوں کو یہ بہت زیادہ ملتی ہیں لیکن یہ ایسی چیز ہے جسے آپ جھٹک کر چھا دیتے ہیں کیونکہ آپ کو نہیں لگتا کہ یہ کوئی غیر معمولی بات ہے، اور آپ اس کا کچھ کر بھی نہیں سکتے۔’

لوسی نے کہا کہ اُنھیں نہیں لگتا کہ اساتذہ جانتے ہیں کہ ان معاملات میں کیا کرنا چاہیے۔

سیریس نے کہا ‘ہمیں کہا گیا کہ اگر ہم اس معاملے کو آگے لے کر جائیں گے تو اس میں پولیس بھی شامل ہو جائے گی۔ یہ ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے ہمیں ڈرانے کے لیے اکٹھا کیا گیا ہو، نہ کہ لڑکیوں کو یہ بتانے کے لیے ایسی تصاویر وصول کرنے پر ان سے جذباتی طور پر کیسے نمٹا جائے۔’

انگلینڈ، جنسی ہراسانی

لوسی کہتی ہیں کہ برہنہ تصاویر ملنا عام بات بن چکی ہے

ایمی (فرضی نام) نے بی بی سی کے ریڈیو 4 ٹوڈے پروگرام کو بتایا کہ جب وہ چھٹی جماعت میں تھیں تو ایک پارٹی کے بعد اُن کا ریپ کیا گیا۔

اب وہ 25 سال کی ہو چکی ہیں اور اُنھیں لگتا ہے کہ اُن کے ساتھ جو ہوا اس میں بڑا کردار وسیع پیمانے پر موجود جنسی ہراسانی کے کلچر کا ہے۔

وہ کہتی ہیں ‘جو چیز سب سے زیادہ مشکل تھی وہ یہ کہ جب اُنھوں نے اپنے دوستوں سے بات کرنے کی کوشش کی تو اُنھیں ایسی باتیں سننے کو ملیں: ‘اگر 80 فیصد اس کا قصور تھا تو 20 فیصد تمہارا بھی تھا۔ تمھیں یقین ہے کہ تم نے اسے نہیں لبھایا تھا؟’

یہ بھی پڑھیے

تحریم منیبہ: جنسی ہراس کے خلاف ڈٹ جانے والی پاکستانی لڑکی

’طاقتور افراد کو MeToo# سے کوئی فرق نہیں پڑا‘

تعلیمی اداروں میں جنسی ہراس: ’گھر والوں کو لگتا ہے کہ استاد کبھی غلط نہیں ہو سکتا‘

وہ کہتی ہیں کہ کئی لڑکیوں نے اُنھیں بتایا کہ اُن کا تجربہ بھی ایسا ہی رہا ہے چنانچہ اُنھیں سکول کو بتانا ہی پڑا۔

اُنھوں نے کہا: ‘یہ صرف ایک لڑکے اور میرا معاملہ نہیں تھا۔ کئی لڑکیاں کئی لڑکوں کی ان حرکتوں سے متاثر ہو رہی تھیں۔’

ایمی کہتی ہیں کہ وہ ایک ٹیچر سے بات کر پائیں اور اُنھیں ‘مجموعی طور پر بے انتہا مثبت’ سپورٹ ملی۔

مگر اُن کا خیال ہے کہ جب سے اُنھوں نے سکول چھوڑا ہے تب سے لے کر اب تک برہنہ تصاویر کے تبادلے کا معاملہ ‘زیادہ بگڑ چکا ہے۔’

‘اب میں نوجوان لڑکیوں سے بات کرتی ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ [برہنہ تصاویر] متوقع ہیں۔ کسی تعلق میں ہونے یا محبت کرنے کا مطلب یہی ہے، اور اگر آپ کو کوئی پسند ہے تو آپ کا اُنھیں تصاویر بھیجنا لازم ہے، اور اگر آپ اُنھیں تصاویر نہیں بھیجیں گی تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو وہ پسند نہیں۔’


اوفسٹیڈ نے 30 سرکاری اور نجی سکولوں اور دو کالجوں کا دورہ کر کے 900 سے زیادہ نوجوان لوگوں سے جنسی ہراسانی کے بارے میں بات کی۔

کوئی 64 فیصد لڑکیوں نے کہا کہ اُنھیں اُن کی مرضی کے بغیر ‘کئی دفعہ’ یا ‘کبھی کبھی’ چھویا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 10 میں سے آٹھ لڑکیوں نے کہا کہ اُن پر اپنی جنسی تصاویر کا تبادلہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا ہے۔

بچوں نے کہا کہ جنسی تشدد عام طور پر سکول سے باہر ایسی جگہوں پر ہوتا ہے جہاں کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا، مثلاً پارٹیاں یا پارکس۔

کئی سکولوں میں بچوں نے کہا کہ نقصان دہ جنسی رویہ گھروں میں ہونے والی پارٹیوں میں ہوتا ہے جہاں بالغ افراد موجود نہیں ہوتے اور وہاں شراب اور منشیات اکثر موجود ہوتی ہیں۔


بہت سے طلبہ کو لگا کہ اُنھیں سکولوں میں جو ریلیشن شپ، سیکس اور ہیلتھ ایجوکیشن (آر ایس ایچ ای) دی جاتی ہے، اس میں اُنھیں اپنی صورتحال کی حقیقت سے نمٹنے کے متعلق معلومات اور مشورہ نہیں دیا جاتا۔

خاص طور پر لڑکیاں اس بات سے کافی مایوس تھیں کہ اس حوالے سے تعلیم موجود نہیں کہ کون سا رویہ مناسب ہے اور کون سا نامناسب۔

کئی اساتذہ نے کہا کہ وہ رضامندی، صحتمند تعلقات اور جنسی تصاویر کے تبادلے کے متعلق معلومات کی کمی رکھتے ہیں۔

انسپکٹرز اب سکولوں اور کالجوں پر ‘ایسا کلچر پروان چڑھانے’ کے لیے زور دے رہے ہیں جس میں تمام طرح کی جنسی ہراسانی کو شناخت کیا جائے اور ان سے نمٹا جائے۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ آر ایس ایچ ای کی روایتی تعلیم سے ہٹ کر بھی ایسے موضوعات پڑھانے چاہییں جو نوجوانوں کو مشکل لگتے ہیں جن میں رضامندی اور برہنہ تصاویر کا تبادلہ شامل ہے۔

انگلینڈ، جنسی ہراسانی

اوفسٹیڈ کا کہنا ہے کہ یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے اور سکول و کالج اسے اکیلے حل نہیں کر سکتے

اگر آپ برطانیہ میں ہیں اور تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے مسئلہ کے شکار ہیں تو پیر سے جمعے تک 0800136663 پر یا پھر سنیچر اور اتوار کو 09001800 پر رابطہ کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ help@nspcc.org.uk کو ای میل بھی کی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32650 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp