قومی اسمبلی میں ”گھسن مکی“ کا آغاز


اپوزیشن جماعتوں کو جن دنوں ایوان بالا میں فیصلہ کن اکثریت حاصل تھی تب بھی عمران حکومت کو اس کی پسند اور ترجیح کے مطابق ایک نہیں متعدد قوانین انتہائی عجلت سے منظور کروانے میں قابل ذکر رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ اپنے ابتدائی دو سالوں کے برعکس تحریک انصاف کو ان دنوں قانون سازی کے لئے بنائے دونوں ایوانوں میں مناسب ماحول میسر ہے۔ بجٹ کا اجلاس شروع ہونے والے ہفتے کے پہلے چار دنوں کے دوران اس نے قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر 30 سے زائد قوانین کو عملاً بل ڈوز کیا تھا۔ اپوزیشن جماعتیں ان کی منظوری روکنے میں قطعاً ناکام رہیں۔

اکثریت کی بنیاد پر من مانی کی روایت برقرار رکھتے ہوئے تحریک انصاف کو اب انتہائی سنجیدگی سے ایک نیا قانون متعارف کروانے کی بابت سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ ”توہین عمران خان“ اس کا عنوان ہو۔ اس کے ذریعے فیصلہ کر دیا جائے کہ وزیر اعظم کی قومی اسمبلی یا سینٹ کے اجلاسوں میں موجودگی کے دوران ان کے خلاف رکیک فقرے اچھالنے والوں کو کم از کم چھ ماہ تک منتخب ایوانوں میں بیٹھنے کا حق میسر نہیں رہے گا۔ وزیر اعظم کی نشست کی جانب جارحانہ انداز میں بڑھنے والوں کو دو سے تین ماہ تک جیل بھی بھیجا جاسکتا ہے۔

میری تجویز کردہ قانون سازی کے بغیر اپوزیشن جماعتوں کو وزیر اعظم صاحب کے ”احترام“ کو مجبور کیا ہی نہیں جاسکتا۔ مجھے گماں ہے کہ منگل کی شام قومی اسمبلی میں جو ہنگامہ آرائی ہوئی ہے وہ تحریک انصاف والوں کو میری تجویز پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ترغیب دے گی۔

عمران خان صاحب جب سے وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے ہیں مسلسل یہ گلہ کرتے چلے آرہے ہیں کہ سیاست دانوں کا روپ دھارے ”چور اور لٹیروں“ پر مشتمل اپوزیشن جماعتیں انہیں قومی اسمبلی سے خطاب کا موقعہ نہیں دیتیں۔ وہ تقریر کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو ان کے خلاف رکیک فقرے کسے جاتے ہیں۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے چند اراکین اسمبلی اپنی نشستوں سے اٹھ کر وزیر اعظم کے لئے مختص نشست کا نعرہ لگاتے ہوئے ”گھیراؤ ’کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔

اپوزیشن کی جانب سے اپنائی ”بدتمیزی“ نے عمران خان صاحب کو ناراض کر دیا ہے۔ وہ برطانیہ میں کئی برس رہے ہیں۔ چاہتے تھے کہ اس ملک کے وزیر اعظم کی طرح وہ بھی تواتر سے پارلیمان کے اجلاسوں میں شریک ہوں۔ اہم امور کی بابت ان کے وزراء اطمینان بخش جوابات فراہم کرنے میں ناکام نظر آرہے ہوں تو وہ اپنی نشست سے اٹھ کر وضاحت فرمادیں۔ ابتدا ان کی یہ خواہش بھی تھی کہ برطانیہ کی طرح ہمارے ہاں بھی ہفتے کا ایک دن فقط وزیر اعظم کی جانب سے حکومتی کارکردگی کی بابت اٹھائے سوالات کے براہ راست جواب دینے کے لئے مختص کر دیا جائے۔ بہت سوچ بچار کے بعد مگر وہ اس نتیجے پر پہنچے دکھائی دے رہے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں پر حاوی ”چور اور لٹیروں“ کو سنجیدہ مباحثے کے ذریعے قانون سازی کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ وہ پارلیمان کے ”وقار“ کو بلند کرنے کے بجائے اپنے ”کرپٹ“ رہ نماؤں کے لئے این آر او کے خواہاں رہتے ہیں۔

”کپتان“ مگر کرپشن کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے وزیر اعظم کے منصب پر پہنچے ہیں۔ ان کی جانب سے ”چور اور لٹیروں“ کو بخشی معافی تلافی ان کے صاف ستھرے امیج کو داغ لگا دے گی۔ وہ اپنے ”اصولی موقف“ سے روگردانی کرتے نظر آئیں گے۔ طیش کے عالم میں بالآخر انہوں نے فیصلہ یہ کیا کہ ”ادلے کا بدلہ“ لیا جائے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف جو نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے سربراہ بھی ہیں شوکت فیاض ترین کی گزرے جمعہ کے روز پیش کردہ تجاویز پر خطاب شروع کریں تو حکومتی بنچ انہیں ایک فقرہ ادا کرنے کی مہلت بھی نہ دیں۔ ان کی آواز حکومتی بنچوں سے اٹھے شور میں غرق ہو جائے۔

مخدوم شاہ محمود قریشی ملتان کی ”اصلی نسلی“ اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ بردباری کا بھرم رکھنا ان کا جبلی وصف ہے۔ پیر کی سہ پہر مگر شہباز شریف اپنے خطاب کے لئے اٹھے تو اسے روکنے کو پہلا وار ان ہی کی جانب سے ہوا۔ ”سب سے بناکررکھنے والی“ شخصیت یعنی شاہ محمود قریشی صاحب کی جانب سے اپنایا جارحانہ رویہ واضح طور پر یہ عندیہ دے رہا تھا کہ وہ ”پیا“ کو خوش کرنے کے جنون میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ جوڑ توڑ کی سیاست میں ان کے ”اصل ویری“ جہانگیر ترین تھے۔ ان دنوں ”دربار“ کے پسندیدہ نہیں رہے۔ اس مرحلے پر شاہ محمود قریشی نے اپنی وفاداری ”پیا“ کی نگاہ میں ثابت کردی تو بجٹ منظور ہو جانے کے بعد عمران حکومت جہانگیر ترین اور ان کے حواریوں کو مزید سبق سکھانے کو بھی تیار ہو سکتی ہے۔

مخدوم شاہ محمود قریشی جیسے ”اصلی نسلی وضع دار“ وزیر بھی جب ”پیا“ کو راضی رکھنے کی خواہش میں اپنی بردباری والی شہرت کو نظرانداز کرتے نظر آئیں تو وفاقی کابینہ کے دیگر وزراء ”نرم“ کیوں نظر آئیں۔ وفاقی کابینہ کے ہر قابل ذکر رکن نے پیراور منگل کے روز قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی بھڑکانے میں لہٰذابڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیا۔ مراد سعید البتہ اپنی نشست کے اوپر کھڑے ہو کر اپوزیشن بنچوں کی جانب بجٹ کی بھاری بھر کم دستاویزات میزائلوں کی صورت اچھالتے ہوئے سب وزراء پر چھا چھوگئے۔ فواد چودھری کی مہارت ان کے ہوتے ہوئے اپنا جلوہ نہ دکھاپائی۔ محترمہ شیریں مزاری بھی پنجابی محاورے والی ”لسی“ یعنی کمزور نظر آئیں۔ امین اللہ گنڈاپور کی دہشت پھیلانے والی ”گج وج“ اگرچہ اپنی جگہ برقرار رہی۔

شہباز شریف کو زچ کرنے کی خاطر وزراء کی اجتماعی بے تابی نے اسلام آباد سے قومی اسمبلی کے لئے پہلی بار منتخب ہوئے علی اعوان کی کاوشوں کو مناسب انداز میں اجاگر ہونے نہیں دیا۔ سوشل میڈیا پر ان کی ”خوش گفتاری“ نے البتہ بہت رونق لگارکھی ہے۔

قومی اسمبلی کی کارروائی کے بارے میں لکھے اپنے اردو اور انگریزی کالموں میں گزشتہ دو دنوں سے اصرار کیے چلا جا رہا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کو یہ ”تڑی“ لگا کر ”مہذب“ انداز میں اپنانے کو مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ اگر انہوں نے اپنا رویہ نہ بدلا تو شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری بھی قومی اسمبلی میں خطاب نہیں کر پائیں گے۔ وزیر اعظم کے کسی ”نابغے“ مصاحب نے اپوزیشن جماعتوں کو لگام ڈالنے کے لئے ”ضابطۂ اخلاق“ کے نام سے ایک دستاویز بھی تیار کی۔ اپوزیشن جماعتوں کو حکم ملا کہ وہ مجوزہ ضابطہ پر کامل درآمد کی ”تحریری“ ضمانت دیں۔ حکومت کے تجویز کردہ ”ضابطہ اخلاق“ کے بغور مطالعہ کے بعد میں یہ لکھنے کو مجبور ہوا کہ ایسی زبان میں لکھے ”نیک چال چلن“ والے وعدے تھانوں کے ایس ایچ اوز اپنے علاقے کے ”دس نمبری“ بدمعاشوں سے طلب کرتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت کے تجویز کردہ ”ضابطہ“ پر عملدرآمد کی ”تحریری ضمانت“ دینے کو ہرگز تیار نہیں ہوں گی۔

منگل کی سہ پہر لہٰذا شہباز صاحب نے فیصلہ کیا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ قومی اسمبلی میں اپنی تقریر ہر صورت پڑھیں گے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی انہوں نے اپنے کانوں پر ہیڈ فون چڑھائے اور لکھی ہوئی طویل تقریر پڑھنا شروع ہو گئے۔ پریس گیلری میں بیٹھے مجھے اس کا ایک لفظ بھی سنائی نہیں دیا۔ مختلف ٹی وی چینلوں پر ان کی تقریر مگر بآسانی براہ راست نشریات کی بدولت سنی جا سکتی تھی۔ ان کی روانی روکنے کی خاطر سپیکر اسد قیصر نے دوبار طویل وقفوں کا اعلان بھی کیا۔ یہ ترکیب بھی تاہم شہباز شریف کے دیے پیغام کو نشر ہونے سے روک نہیں پائی۔ بالآخر زچ ہو کر حکومتی بنچوں نے شہباز صاحب کی تقریر کے آخری مراحل میں ”گھسن مکی“ کا آغاز کر دیا۔ اس کے بعد جو ہوا اسے بیان کرنے کا میرے دل ناتواں کو حوصلہ نہیں۔

میرا اصل دکھ مگر یہ ہے کہ منگل کے روز سے قومی اسمبلی میں ”فریقین“ کے مابین اوباش لوگوں (شاید ”غنڈے“ لکھنا مناسب ہوتا) کی طرح سربازار ہوئی ”گھسن مکی“ کا درحقیقت آغاز ہوا ہے۔ یہ سلسلہ اب تھمے گا نہیں۔ اس میں مزید شدت آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments