ہمارے طلبا سیریس کیوں نہیں؟


پاکستان میں پرائمری کلاس کے لیے 40 طلبا فی استاد ہیں۔ جبکہ پوری دنیا میں اوسطا 24 طلبا فی استاد ہیں اور سویڈن میں 12 طلبا فی استاد ہیں۔ اس حساب سے پاکستان دنیا کا نواں بدترین ملک ہے جہاں پرائمری سطح پر بہت کم اساتذہ ہیں۔

میں سویڈن سے پڑھا ہوں وہاں کے طالب علم بھی دنیا کے عجیب لوگ ہیں۔ وہاں جب ایک طالب علم کو کوئی کام ملتا تھا تو اس کا گروپ وہی کام کرنے میں ایسے مصروف ہو جاتا تھا جیسے کوئی وحی اتر رہی ہو۔ جبکہ ہمارے گروپ والے کبھی ادھر دیکھتے کبھی ادھر، کبھی ادھر بھاگتے کبھی ادھر اور دوران پڑھائی شوق سے کھاتے پیتے بھی تھے۔ مطلب سوائے پڑھائی کے سارے کام بہت ہی محنت سے کرتے تھے۔ میں سوچتا کہ آخر کیا وجہ ہے یہ اتنے سیریس ہو کر کیوں پڑھتے ہیں۔ اس کا جواب بھی بڑا ہی دلچسپ ہے۔

میں اس عقدے کو حل کرنے میں لگ گیا۔ ایک دن بہت ڈھونڈ کر ایک لوکل میونسپل کی انچارج ایریکا سے جا ملا اور اس کا تفصیلی انٹرویو کر ڈالا۔ یہ انٹرویو بھی بڑا ہی دلچسپ تھا۔ اس دن میں اور میرا ایک دوست طے شدہ ٹائم سے پہلے اسی جگہ پہنچ گئے کیونکہ ہمیں پتا تھا کہ سویڈش لوگ ٹائم جب دیتے ہیں اور اس وقت سارے کام چھوڑ کر اس کا انتظار کرتے ہیں۔ ایریکا بھی دنیا کی عجیب عورت یا لڑکی تھی، اس کے داہنے ہاتھ میں بلیک کافی کا مگ تھا جس پر میری اور میرے دوست کی نظر تھی کہ ہم سوچتے کہ کیسے لوگ ہیں بندہ پوچھ ہی لیتا ہے ہم نے کون سا پی لینی تھی۔ مگر اس کو اندازہ نہیں تھا کہ ہمارا فوکس انٹرویو کے سوالات سے زیادہ باقی سب چیزوں پر ہے۔ میں نے بڑی ہی بے تابی سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ لوگ اتنی ذمہ دار سے کیسے پڑھ لیتے ہیں۔ اب ذرا اس کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

ایریکا نے نہایت توجہ سے میری بات سنی۔ اپنی داہنی ٹانگ اٹھا کر بائیں ٹانگ پر رکھی کافی کی ایک چسکی بھری اور یوں گویا ہوئی۔ سویڈن میں جب بچہ 18 سال سے چھوٹا ہوتا ہے تو اس کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ بلکہ ہر ماہ ایک معقول خرچہ اس کے والدین کے اکاؤنٹ میں ڈال دیا جاتا ہے تاکہ بچہ بوجھ نہ رہے اور والدین کے مرہون منت بھی رہے۔ اب جب وہی بچہ اٹھارہ سال سے زیادہ یا پورے اٹھارہ کو ہوتا ہے تو سویڈن کی حکومت اسی بچے کو سافٹ لون دے کر باؤنڈ کر دیتی ہے۔ اب وہی بچہ پڑھ تو رہا ہوتا ہے مگر اس پر قرضہ واپس کرنے کی تلوار لٹکی ہوتی ہے۔ وہ اپنی کتاب کو بائبل سمجھ کر پڑھ رہا ہوتا ہے۔ وہ پوری دل جمعی کے ساتھ نوٹس بناتا ہے۔ منفرد طریقے سے اپنی اسائنمنٹس بناتا ہے۔ کیونکہ اس نے وہی سافٹ قرضہ واپس کرنا ہوتا ہے۔

ایک اچھا طالب علم نمبرز کا نہیں علم کا حریص ہوتا ہے۔ ایک عالم کو ایک عابد پر ستر گنا فضیلت حاصل ہے۔ علم ہم کسی سے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ کیونکہ حدیث سے ثابت ہے کہ ایک صحابی حضرت سعد رضی اللہ کو دل کی تکلیف ہوئی تو آپ ﷺنے فرمایا کہ فلاں شخص حارث بن کلدہ کے پاس جائے اور اس شخص کو چاہیے کہ عجوہ کھجوریں گٹھلیوں سمیت پیس کر کھلا دے۔ علاج آپ ﷺخود بھی کر سکتے تھے مگر یہاں علم کا رتبہ بلند کرنا تھا کہ اس شخص کے پاس میڈیکل کا علم ہے۔ لہذا اس کے پاس جاؤ اور علاج کر واؤ۔ آپ رومانیہ کی مثال لے لیں۔ دنیا میں لکھنے کا رواج سب سے پہلے رومانیہ میں ہوا۔ سب سے پہلے شوگر کے لئے انسولین بھی اسی خوشحال ملک نے بنائی۔ 2 کروڑ کی آبادی والے اس ملک کی جی ڈی پی پاکستان سے ڈبل اور شرح خواندگی 99 % ہے۔ آپ ناروے کی مثال لے لیں۔ کرپشن فری اس ملک میں لوگ کتابوں کو بڑے ہی شوق سے پڑھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اگر آپ نے کوئی کتاب لکھی تو ناروے کی حکومت اس کتاب کی 1000 کا پیز خود خرید کر لائبریریوں میں بھیج دیتی ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں آگے ہونے والے ناروے میں تعلیم کی شرح 100 %ہے۔ یہ ناروے کے لوگوں کا تعلیم اور کتابوں سے لگاؤ ہی ہے کہ پورے ملک میں تعلیم بالکل فری ہے۔

اسرائیل جس کو ہم تسلیم ہی نہیں کرتے وہاں جب چھوٹے بچوں کے پڑھنے کا وقت ہوتا ہے تو ہر چیز اور کھلونے دور کر دیے جاتے ہیں حتی کہ بعض اسرائیلی اپنے گھروں میں ٹی وی تک نہیں رکھتے کہ پڑھائی ڈسٹرب نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ٹاپ 100 کمپنیاں اسرائیلی ہیں جو کہ اربوں نہیں کھربوں ڈالر کا بزنس کر رہی ہیں جبکہ اس ملک کے شرح خواندگی 91 %ہے۔ آپ تائیوان کی مثال لے لیجیے۔ اس چھوٹے سے ملک جس کو کافی ممالک ایک آزاد ملک تسلیم ہی نہیں کرتے اس کو آسوس، ڈی لنکس، ایچ ٹی سی، رئیل ٹیک جیسی بڑی بڑی کمپنیوں نے ایشین ٹائیگر کا لقب دلوایا ہے۔ 99 %شرح خواندگی والے اس ملک میں ایک ٹچ سے آپ چاہے ڈاکومنٹ پرنٹ کروا لیں، ٹیکسی بک کر لیں، پارسل بھیج دیں، بل ادا کر دیں۔ غرض جو بھی کام کرنا ہو جادو کی طرح آسان بنا دیا گیا ہے۔ بدھ مت کے پیروکاروں کے اس ملک کا ٹرین کا نظام اتنا زبردست ہے کہ آپ آٹھ گھنٹوں کے اندر اندر پورے تائیوان کا چکر لگا سکتے ہیں۔ اس ملک کا صرف 22 فیصد رقبہ قابل کاشت ہے اس کے باوجود اس کی کل جی ڈی پی 586 ارب ڈالر جبکہ پاکستان کا 280 ارب ڈالر ہے۔

آپ فن لینڈ کی مثال لے لیجیے۔ فن لینڈ کا نظام تعلیم پوری دنیا میں سب سے بہترین مانا گیا ہے جبکہ اس کی شرح خواندگی 99 %ہے۔ اس کی بھی بہت ساری وجوہات ہیں۔ چھوٹے بچوں کو والدین صبح بغیر ناشتہ کروائے سکول چھوڑ آتے ہیں۔ اب اسی بچے کو پہلے مینو کے مطابق اچھا سا مفت ناشتہ کروایا جاتا ہے جبکہ تعلیم پہلے ہی مفت ہوتی ہے۔ پھر مختلف کھیلوں، کھلونوں، مہارتوں اور ایکٹیوٹیز کے ذریعے اس کے اندر تحقیق، خود سے تلاش، اور سوال کرنے کے عادت ڈالی جاتی ہے۔ پھر دن میں دو دفعہ گراؤنڈ میں لے جاتے ہیں مختلف قسم کی مشقیں اور کھیلیں کرتے ہیں۔ گراؤنڈ سے واپسی پر دودھ کا گلاس دیا جاتا ہے۔ پھر اگلا تدریسی کام شروع کروایا جاتا ہے۔ شام کو وہی بچہ جب گھر آتا ہے تو اس کے اعصاب شل نہیں ہوتے بلکہ وہ دیگر بچوں کے ساتھ کھیل کود میں مصروف ہوجاتا ہے۔ اب آ جائیں پاکستان کے طرف۔

ہمارے معزز اور انتہائی محنتی طلبا سوائے کتاب کے ساری اشیا پڑھتے ہیں۔ وہ نوٹس کے سوا سارے جہاں کا کام بڑی رغبت سے کرتے ہیں۔ وہ اپنے اساتذہ کا احترام اپنے والدین سے زیادہ کرتے ہیں مگر ان کا کہا نہیں مانتے۔ میرے 15 سالہ تدریسی تجربہ کے دوران محض 10 % طلبا ہی پڑھائی میں سیریس ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ اگر ان محنتی طلبا کو پڑھا دیں تو طوطے کی طرح پڑھا دیں تب یہ اپنے استاد کو دنیا کا سب سے ذہین استاد سمجھیں گے حالانکہ ان کو بعد میں جا کر پتہ چلے گا کہ ان کے ساتھ کتنا بڑا ہاتھ ہوا ہے۔ جب تک طلبا میں کسی ٹاپک پر تحقیق کر کے کچھ سمجھنے اور پرکھنے کی عادت نہیں پرتی تو یہ محنتی طلبا دیگر ممالک تو کیا قریبی ملک بھارت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ہمارا طالب علم کتاب کو شجر ممنوع سمجھ کر ہاتھ نہیں لگانا چاہتا۔ وہ اساتذہ سے نوٹس، گیس، شارٹ کٹ اور نمبرز کا مطالبہ کرتا رہتا ہے۔ جبکہ ہمارے ملک کی شرح خواندگی محض 59 %ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج تک پاکستان میں ایک بھی طالب علم نیوٹن اور آئن سٹائن نہیں بن سکا۔ لہذا حکومت پاکستان کو چاہیے کہ ہمارے طلبا کو بھی سافٹ لون دیں تاکہ طلبا ذمہ داری سے پڑھیں۔ ورنہ اگلے سو سال بھی ترقی رینگ رینگ کر ہونی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments