کیپٹل ہل ہنگامہ آرائی: موقع پر پہنچنے والے مزید دو پولیس اہل کاروں کی خود کشی


امریکہ میں رواں برس جنوری میں دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں کانگریس کی عمارت پر ہجوم کی چڑھائی پر کارروائی کرنے والے مزید دو پولیس اہلکاروں کی خود کشی کی تصدیق کی گئی ہے۔

ڈسٹرکٹ آف کولمبیا (ڈی سی) کے میٹرو پولیٹن پولیس ڈپارٹمنٹ نے پیر کو جاری ایک بیان میں بتایا ہے کہ رواں برس چھ جنوری کو ہونے والی ہنگامہ آرائی پر کارروائی کرنے والے ایک اور اہل کار نے گزشتہ ہفتے خود کشی کر لی تھی۔

بیان کے مطابق میٹرو پولیٹن پولیس افسر گنتر ہشیدہ جمعرات کو اپنے گھر میں مردہ پائے گئے تھے۔

گنتر ہشیدہ 2003 میں میٹرو پولیٹن پولیس ڈپارٹمنٹ میں شامل ہوئے تھے۔ ان کو اسپیشل آپریشن ڈویژن میں ہنگامی بنیادوں پر متحرک ہونے والی ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔

گنتر ہشیدہ کانگریس کی عمارت میں ہنگامہ آرائی پر کارروائی کرنے والے تیسرے اہلکار ہیں جنہوں نے خود کشی کی ہے۔

نشریاتی ادارے ’سی این بی سی‘ کی رپورٹ کے مطابق گنتر ہشیدہ کی عمر 43 برس تھی۔

پیر کو ہی پولیس نے تصدیق کی تھی کہ کال ڈیفریٹیگ نامی اہلکار نے 10 جولائی کو خود کشی کی تھی۔

پولیس کے مطابق وہ 2016 میں ڈپارٹمنٹ کا حصہ بنے تھے۔ ان کی عمر 26 برس تھی۔

قبل ازیں میٹرو پولیٹن پولیس کے افسران جیفری اسمتھ اور یو ایس کیپٹل پولیس کے ہارورڈ لیبنگڈ بھی خود کشی کر چکے ہیں۔ جیفری اسمتھ 12 برس جب کہ ہارورڈ 16 برس سے محکمۂ پولیس میں خدمات انجام دے رہے تھے۔

امریکہ نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق کانگریس کی عمارت میں ہنگامہ آرائی کے دوسرے روز ایک پولیس افسر برین سیکنیک کو فالج ہوا تھا بعد ازاں ان کی موت واقع ہوئی۔ ان کی طبعی موت کی تصدیق واشنگٹن ڈی سی کے چیف میڈیکل ایگزامنر نے بھی کی تھی۔

واشنگٹن ڈی سی میں جنوری میں کانگریس کی عمارت میں ہنگامہ آرائی کرنے والے 500 سے زائد افراد پر مختلف جرائم میں فرد جرم عائد کی جا چکی ہے۔

رواں برس چھ جنوری کو امریکی کانگریس میں قانون ساز نو منتخب صدر جو بائیڈن کی کامیابی کی توثیق کے لیے جمع تھے کہ سابق صدر ٹرمپ کے حامیوں نے کیپٹل ہل کی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔

ٹرمپ کے حامی سیکیورٹی حصار کو توڑتے ہوئے عمارت کے اندر گھس آئے تھے۔

اس دوران پر تشدد کارروائیوں میں ایک پولیس اہلکار سمیت پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے جب کہ اراکینِ کانگریس ان حالات میں خود بچتے بچاتے اپنے چیمبروں میں گئے اور کئی گھنٹوں بعد ان کی واپسی اس وقت ہوئی جب نیشنل گارڈز سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کانگریس کی عمارت کی حفاظت کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔

یہ ہنگامہ آرائی سابق صدر کے حامیوں سے خطاب میں انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور ووٹرز فراڈ کے دعوے کے بعد ہوئی تھی۔

اس ہنگامہ آرائی کے بعد امریکہ کی سینیٹ کی دو کمیٹیوں ہوم لینڈ کمیٹی اور رولز کمیٹی نے ایک مشترکہ رپورٹ میں سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کی متعدد ناکامیوں کی تفصیلات بیان کی تھیں۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چڑھائی کانگریس کی عمارت پر ہی نہیں بلکہ جمہوریت پر حملہ تھا۔ وہ اکائیاں جن کی ذمہ داری تھی کہ وہ کانگریس کی عمارت اور وہاں موجود افراد کی حفاظت کرتیں، اس بڑی سطح کے حملے کے لیے تیار نہیں تھیں۔

رپورٹ کے مطابق کیپٹل ہل کو ممکنہ طور پر ہدف بنائے جانے اور تشدد سے متعلق اطلاعات پہلے ہی سامنے آ چکی تھیں۔

سینیٹ کمیٹیوں نے اپنی سفارشات میں یو ایس کیپٹل پولیس کے اندر ایک انٹیلی جنس بیورو قائم کرنے اور خفیہ اداروں سے سوشل میڈیا پر موجود مواد میں تشدد کے خطرات کے جائزے کے لیے مدد دینے پر بھی زور دیا تھا۔

دوسری جانب کانگریس کی عمارت میں ہنگامہ آرائی کے بعد امریکہ کے خفیہ ادارے خبردار کر چکے ہیں کہ امریکہ کو سب سے بڑا خطرہ داخلی انتہا پسندی سے ہے۔ مقامی انتہا پسند دیگر شہریوں اور حکومت پر حملوں کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ منصوبہ بندی انفرادی سطح پر یا چند افراد پر مشتمل گروہوں کی جانب سے ہو سکتی ہے جو پرتشدد نظریات رکھتے ہیں اور انہیں حالیہ سیاسی کشیدگی اور بعض واقعات کے بعد تقویت ملی ہے۔

ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کے دفتر سے جاری رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ صدارتی انتخابات سے متعلق سازشی نظریات، کرونا وبا سے متعلق مفروضے اور دیگر عوامل پرتشدد نظریات کے حامل افراد اور گروہوں کو رواں برس تشدد پر اُکسا سکتے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پرتشدد نظریات کے حامل ان افراد اور گروہوں میں جانوروں کے حقوق، ماحولیات اور اسقاطِ حمل پر پابندی کے مطالبات کرنے والے بھی شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق نسلی تعصب رکھنے والے گروہ زیادہ خطرناک ہیں۔ یہ ہلاکت خیز حملوں کی منصوبہ بندی بھی کر سکتے ہیں جب کہ یہ سیکیورٹی اداروں سے وابستہ افراد، حکومتی اہلکاروں اور دیگر تنصیبات پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے پولیس کے چار افسران نے کانگریس کی عمارت پر دھاوا بولنے کے واقعات کی تحقیقات کرنے والی کانگریس کی کمیٹی کو ان تفصیلات سے آگاہ کیا تھا کہ کس طرح سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے کانگریس کی عمارت کے اندر گھس کر جو بائیڈن کی صدر کے طور پر توثیق کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔

پولیس افسران نے بتایا تھا کہ تقریباً 800 افراد نے قانون نافذ کرنے والے حکام کے حصار کو توڑتے ہوئے ان کے ہتھیار چھیننے کی کوشش کی جب کہ کانگریس کی عمارت پر دھاوا بول گیا تو انہیں اپنی جان کا خطرہ بھی پیدا ہو گیا تھا۔

اس خبر میں بعض معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے شامل کی گئی ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments