وین جینکنز: ان بدعنوان پولیس افسران کی کہانی جنھوں نے منشیات لوٹیں اور کھلے عام اسلحہ فروخت کیا


پولیس
جیسکا لوسن ہوپ گذشتہ چار برس سے بالٹی مور پولیس اہلکاروں میں موجود چند بدعنوان افسران کے عروج و زوال کے حوالے سے رپورٹنگ کر رہی ہیں۔ جب وہ اپنی سٹوری کے پوڈ کاسٹ کو مکمل کرنے کے اختتامی مراحل میں تھیں تو انھیں جیل سے ایک انتہائی غیر متوقع کال موصول ہوئی۔

میں وبا کے دوران بنائے گئے اپنے ’ریڈیو سٹوڈیو‘ میں کھڑی ہوں، یعنی اپنے اپارٹمنٹ کی الماری میں کھڑی ہوں اور میرے ارد گرد ہینگرز، قمیضیں اور کپڑے ہیں۔ میں اندھیرے میں اپنے موبائل فون کو گھور رہی ہوں۔ یہ پلاسٹک کے ایک ٹب کے اوپر رکھے سوٹ کیس کے اوپر پڑا ہے اور میں نے اپنا ریکارڈر اور مائیکرو فون تیار کر رکھا ہے۔

جب فون کی گھنٹی بجی تو میں نے سپیکر آن کر دیا اور ایک خاتون کی پہلے سے ریکارڈ شدہ آواز سُنی: ’یہ پری پیڈ کال ہے۔ آپ کو اس کال کے لیے چارجز ادا نہیں کرنا ہوں گے۔ یہ کال۔۔۔‘

پھر ایک انسانی آواز آتی ہے: ’وین جینکنز۔۔۔‘

’وفاقی جیل میں ایک قیدی۔۔۔‘ اور پھر روبوٹ کی آواز ختم ہو جاتی ہے۔

اس وقت بالٹی مور پولیس ڈیپارٹمنٹ کے سابق سارجنٹ وین جینکنز، جو اس وقت وفاقی جیل میں ہیں، لائن پر ہیں۔

اس سے پہلے میں نے جینکنز کو صرف ایف بی آئی کی ریکارڈنگ، وائر ٹیپ فون کالز، باڈی کیمرہ فوٹیج اور جون 2018 میں دوران سماعت اس وقت سُنا تھا، جب ایک وفاقی جج نے انھیں 25 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

ان کی آواز سُننا بہت غیر حقیقی سا لگ رہا تھا اور یہ بھی عجیب لگ رہا تھا کہ وہ مجھ سے بات کر رہے ہیں۔

میں چار برس سے جینکنز اور ایلیٹ ’گن ٹریس ٹاسک فورس‘ سکواڈ کے بارے میں رپورٹ کر رہی تھی۔ جینکنز اور ان کی یونٹ کے چھ ممبر سازش، دھوکہ دہی اور ڈکیتی جیسے جرائم کی وجہ سے اب وفاقی جیل میں قید ہیں، جنھوں نے یہ سب پولیس کے جائز کام کی آڑ میں کیا۔

انھوں نے منشیات اور رقم چوری کی، ضبط شدہ منشیات اور بندوقوں کو سڑکوں پر فروخت کیا، یہاں تک کہ لوگوں کے گھروں پر حملے بھی کیے۔

میں کئی برسوں تک جیل میں قید ان تمام سابقہ ​​افسران کو لکھتی رہی کہ وہ ان جرائم کو سمجھنے میں میری مدد کریں۔

مجھے امید تھی کہ ان میں سے کسی ایک کے بھی بولنے سے عام لوگوں کو پولیس کے شعبے میں روزمرہ کی بنیاد پر ہونے والی بدعنوانیوں کے بارے میں سمجھنے میں مدد ملے گی۔ میرا خیال تھا کہ اس سے امریکہ میں پولیس کے محکمے میں اصلاحات کے بارے میں بحث بھی جنم لے گی۔ ان تمام سات آدمیوں میں سے وین جینکنز وہ آخری شخص تھے جن کے بارے میں میں نے سوچا تھا کہ وہ کبھی انٹرویو کے لیے راضی ہوں گے۔

یونٹ کے سربراہ ہونے کی وجہ سے انھیں سب سے زیادہ قید کی سزا سُنائی گئی تھی اور اس سکواڈ پر مقدمہ چلانے والے وفاقی حکام انھیں سب سے زیادہ ذمہ دار سمجھتے تھے۔ اپنی گرفتاری کے بعد انھوں نے کبھی بھی کوئی انٹرویو نہیں دیا تھا۔

بالتیمور

اور اب میں ان سے بات کر رہی تھی اور ان کے پیچھے قطار میں 20 سے 30 اور قیدی موجود تھے جو جیل کے فون پر اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔

مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں یا وہ چار برس بعد کیوں اپنی چپ توڑ رہے ہیں۔

جینکنز نے اپنی پہلی فون کال پر مجھے کہا کہ ’میں 25 برس کے لیے جیل میں ہوں اور میرے پاس کوئی ایسی وجہ نہیں کہ میں جھوٹ بولوں۔‘

یکم مارچ سنہ 2017 کو سارجنٹ وین جینکنز اور ’گن ٹریس ٹاسک فورس‘ میں ان کے چھ ماتحت افسران بالٹی مور پولیس ڈیپارٹمنٹ کی داخلی امور کی عمارت میں یہ یقین رکھتے ہوئے داخل ہوئے کہ وہ ایک خراب گاڑی کے بارے میں معمولی سی شکایت کو دور کرنے کے لیے وہاں موجود ہیں۔

اس سے پہلے انھیں شہر کے کچھ بہترین بندوق بردار پولیس اہلکاروں کے طور پر سراہا جاتا تھا، جو ہر ماہ غیر قانونی اسلحہ پکڑتے تھے اور ایک سپروائزر کے مطابق ان کے ’کام کی اخلاقیات پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا تھا۔‘

جینکنز محکمے کے ایک ابھرتے ہوئے ستارے تھے کیونکہ وہ باقاعدگی سے منشیات اور اسلحہ پکڑنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

لیکن جیسے ہی یہ ٹیم عمارت کی دوسری منزل پر لفٹ سے باہر نکلی تو ان کا استقبال ایف بی آئی کی ایک ٹیم نے کیا اور جلد ہی یہ سب ہتھکڑیوں میں تھے۔

پتا چلا کہ وفاقی ایجنٹس کئی ماہ سے اس یونٹ کی نگرانی کر رہے تھے۔ وائر ٹیپس اور پوشیدہ ریکارڈنگ ڈیوائسز کا استعمال کرتے ہوئے بہت سے ایسے ثبوت جمع کیے گئے تھے جن سے پتا چلا کہ یہ افسران شہریوں کو لوٹ رہے ہیں، اس اضافی وقت کی تنخواہ لے رہے ہیں جس میں انھوں نے کبھی کام نہیں کیا، منشیات چوری کرتے ہیں اور یہاں تک کہ سڑکوں پر غیر قانونی اسلحہ بھی فروخت کرتے ہیں۔

جینکنز سمیت پانچ سابق افسران نے تو جرم قبول کیا لیکن دو نے اپنی بے گناہی کا اعلان کیا اور مقدمے کا سامنا کیا۔ یہیں سے ان افسران کی بدعنوانی کی پوری کہانی منظر عام پر آ گئی۔

جنوری سنہ 2018 میں متاثرین کی ایک لمبی فہرست، جن میں سے بہت سے لوگوں کا منشیات کے کاروبار سے تعلق تھا، سامنے آئی اور بتایا کہ کس طرح ان افسران نے گاڑی روکنے اور گھروں کی تلاشی کے دوران انھیں لوٹا۔

کچھ نے اس بارے میں شکایت درج کروانے کی کوشش بھی کی لیکن انھیں نظر انداز کیا گیا۔

شان وائٹنگ جن کے گھر سے 16 ہزار ڈالر اور ڈیڑھ کلو ہیروئن لوٹی گئی تھی، نے گواہی دی کہ وہ جانتے ہیں کہ ایک منشیات فروش کی حیثیت سے ان کی بات افسران کے مقابلے میں بہت کم شمار ہوتی۔

انھوں نے جیوری کو بتایا: ’میں مقدمہ نہیں چلا سکا کیونکہ مجھے علم تھا کہ عدالت میری بجائے ان کی بات پر زیادہ یقین کرے گی۔‘

بہت سے سابق پولیس افسران بھی سامنے آئے اور یونیفارم کے بجائے جیل کے لباس میں ملبوس ان سابق پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ کیسے جینکنز نے ان کاموں میں ان کی حوصلہ افزائی کی۔

دو پولیس افسران نے بتایا کہ کیسے جینکنز نے منشیات کی سمگلنگ کرنے والوں کے گھروں پر حملوں کے بارے میں کھلے عام بات کی کیونکہ جینکنز کو پتا تھا کہ ایسے گھروں سے بڑی مقدار میں منشیات اور نقدی مل سکتی ہے۔

ایک اور گواہ ڈونلڈ سٹیپ نے انکشاف کیا کہ کیسے وہ جینکنز سے حاصل شدہ منشیات کو فروخت کر رہے تھے۔ ڈونلڈ سٹیپ نے بتایا کہ انھوں نے جینکنز کی مدد سے تقریباً دس لاکھ ڈالر کی منشیات فروخت کی۔

ڈونلڈ سٹیپ نے ’گن ٹریس ٹاسک فورس‘ کے بارے میں کہا کہ ’یہ مجرمانہ کاروبار کا محاذ تھا۔ جب میں بالٹی مور پولیس ڈیپارٹمنٹ سے لاکھوں کی منشیات لے کر فروخت کر رہا تھا تو مجھ پر یہ واضح تھا کہ یہ پولیس کا کوئی عام محکمہ نہیں۔‘

جینکنز نے مقدمے میں گواہی نہیں دی لیکن ایک طرح سے پوری کارروائی میں وہ ’سٹار‘ تھے۔

تین ہفتے کی حیران کن گواہیوں کے بعد جیوری نے باقی دو افسران کو بھی مجرم پایا۔ اب یہ ساتوں سابق پولیس افسر ملک کی مختلف جیلوں میں بند ہیں۔ سب سے طویل سزا جینکنز کو دی گئی جس کی معیاد 25 سال ہے اور انھیں 2038 میں رہا کیا جائے گا۔

جیل میں جانے کے بعد بہت سے دوسرے صحافیوں، کتابوں کے مصنفین، پرڈیوسرز اور ڈاکیومینٹری فلم بنانے والوں کی طرح میں بھی انٹرویو کے لیے سال میں ایک بار جینکنز کو خط لکھتی تھی۔ مجھے کبھی جواب نہیں آیا اور ایسا لگتا تھا کہ انھوں نے کسی کو بھی جواب نہیں دیا۔

بالتیمور

میں نے فرض کر لیا کہ وہ کبھی جواب نہیں دیں گے۔

لیکن گذشتہ موسم گرما میں جب ’بُرے پولیس اہلکاروں‘ پر میں اپنے کام کو اختتامی شکل دے رہی تھی تو میرے ان باکس میں ایک عجیب ای میل موصول ہوئی۔ ’میں مسٹر جینکنز کا ایجنٹ اور نمائندہ ہوں۔ مجھ سے رابطہ کریں۔‘

کچھ ای میلز کے تبادلے کے بعد میرا انتظار ختم ہوا اور میں اپنے گھر کی الماری سے جینکنز سے بات کر رہی تھی۔

جب میں نے فون اٹھایا تو جینکنز نے کہا ’میں وین بات کر رہا ہوں۔‘

وفاقی حکومت میں قیدیوں کو صرف 15 منٹ فون پر بات کرنے کی اجازت ہوتی ہے جس کے بعد فون لائن خود بخود کٹ جاتی ہے۔ میرے پاس پوچھنے کو بہت سے سوال تھے اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ آیا یہ میرا ان سے بات کرنے کا واحد موقع ہے۔

’ہمارے پاس وقت کم ہے تو کیا ایسا کچھ ہے جو آپ کہنا چاہتے ہیں۔‘

انھوں نے جواب دیا: ’ہم شاہانہ زندگی نہیں گزار رہے تھے۔ میں معمولی زندگی گزارتا تھا، ہم اپنے آپ کو مالا مال نہیں کر رہے تھے۔ مجھے کبھی بھی (چوری کی شکایات) نہیں کی گئیں کیونکہ میں نے کبھی لوگوں سے پیسے نہیں لیے۔ میں نے ڈونی کو گذشتہ دو سال میں، جب میں پولیس میں تھا، منشیات دی تھی لیکن میں لوگوں کے پیسے نہیں لیتا تھا کیونکہ پھر وہ جان جاتے کہ میں ’گندا‘ ہوں۔ میرے ذہن میں کوئی گڑبڑ کرنے والا اخلاقی ضابطہ تھا۔‘

اسی وقت مجھے پتا چل گیا کہ جینکنز بہت تیز بولتے ہیں۔ 15 منٹ گزرنے کا پتا بھی نہ چلا، لائن کٹ گئی اور مجھے محسوس ہوا کہ میں کچھ خاص حاصل نہیں کر پائی لیکن ایک گھنٹے بعد فون کی گھنٹی دوبارہ بجی۔ جینکنز نے مجھے بتایا کہ انھوں نے قطار میں موجود دیگر قیدیوں سے کچھ ساسیجز کے بدلے دوبارہ فون تک رسائی حاصل کر لی ہے۔

کوئی چار فون کالز کے بعد جینکنز نے بالٹی مور پولیس ڈیپارٹمنٹ کی تصویر کشی کچھ اس طرح کی جہاں بدعنوانی میں ملوث ہونا بھرتی ہونے کے تقریباً فوری بعد ہی شروع ہوتا ہے۔

مزید جانیے

وہ کیس جو انڈیا کبھی بھولا نہیں

امریکہ نے بنایا، امریکہ نے ’مروایا‘

’الچاپو گوزمین‘ جیسے کرداروں پر دنیا تنگ کیسے ہوئی؟

جینکنز نے بتایا کہ جب انھوں نے پہلی بار پیسے چوری کیے تو انھیں پولیس میں بھرتی ہوئے چند ہی دن ہوئے تھے۔ اس واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے جینکنز نے بتایا کہ وہ دیگر چند اہلکاروں کے ساتھ ایک اپارٹمنٹ کی تلاشی لے رہے تھے۔ جینکنز نے بتایا کہ ایک کمرے میں انھیں اور ایک سابق سپروائزر کو لاکھوں ڈالرز سے بھرا ایک سوٹ کیس ملا۔ جینکنز نے کہا کہ ان کے سینیئر نے انھیں وہاں سے پیسے لینے پر مجبور کیا۔

جینکنز کہتے ہیں کہ انھوں نے وہاں سے 10 ہزار ڈالر چرائے تھے۔

انھوں نے مجھے بہت کچھ ایسا بتایا جو بہت منظم انداز میں ہو رہا تھا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھیں بہت سی پولیس رپورٹس اور وارنٹ کی درخواستوں پر جھوٹ بولنے کے لیے کہا گیا تھا تاکہ ایسا تاثر دیا جا سکے کہ یہ گرفتاریاں کسی ٹھوس وجہ سے کی گئیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ بہت سی گرفتاریاں ایسی تھیں جن کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ اکثر جب وہ یا ان کے ساتھی افسران ضبط شدہ منشیات کو جمع نہ کروانے یا کاغذی کارروائی نہ کرنا چاہتے تھے تو وہ صرف منشیات کو ضبط کرتے اور مجرموں کو چھوڑ دیتے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بعد میں ان منشیات کو کھڑکی سے باہر پھینک دیا جاتا یا گٹر کے نیچے رکھ دیا جاتا۔

جینکنز نے بتایا کہ ’ہیروئن کی گولیاں، چرس کے تھیلے، خدا کی قسم۔۔۔ 500 بار ایسا ہوتا دیکھا۔‘

بالتیمور

جینکنز نے مجھے یہ بھی بتایا کہ جب بھی کسی افسر کی جانب سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کی طرف سے سامنے لائی جاتی تو اس میں ملوث افسران کا آپس میں ملاقات کرنا اور سزا سے بچنے کے لیے کہانیاں تیار کرنا معمول کی بات تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم فوراً ایک دوسرے سے ملتے اور ایک دوسرے کو بتاتے کہ تمہاری کہانی یہ ہو گی، تم نے یہ بتانا ہو گا۔‘

اس گفتگو کے دوران جینکنز نے کچھ پولیس افسران کے نام بھی لیے۔ انھوں نے اس سابق پولیس اہلکار کا بھی نام لیا جن کے بارے میں جینکنز کا کہنا تھا کہ پہلی بار انھوں نے ان کو چوری کرنا سکھائی۔

انھوں نے اپنے سپروائزرز کا نام بھی لیا جن کو جینکنز نے دو اہلکاروں کے بارے میں شکایت کی کہ وہ پیسے چراتے ہیں۔ جینکنز کہتے ہیں کہ انھیں بتایا گیا کہ وہ دو اہلکار کیونکہ اسلحہ ضبط کرنے میں اچھا ریکارڈ رکھتے ہیں تو لہذا اس کے بارے میں کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا۔

بی بی سی ان تین سابق سپروائزز کا نام نہیں لکھ رہا کیونکہ اس مقدمے میں ان میں سے کسی پر بھی جرم کا الزام نہیں لگایا گیا تاہم ان الزامات پر جواب لینے کے لیے میں نے اُن سے اور بالٹی مور پولیس ڈیپارٹمنٹ سے رابطہ کیا۔

ایک سابق سپروائزر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دوسرے نے اس بارے میں بات کرنے سے انکار کر دیا۔ تیسرے سپروائزر کی اہلیہ نے میرے لیے ایک پیغام چھوڑا کہ جینکنز نے مجھے جو بتایا، میں اس سے مدد لے سکتی ہوں۔‘

بالٹی مور پولیس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے بھی مجھے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

جینکنز کے ساتھ گفتگو اس وقت زیادہ پیچیدہ ہو گئی جب ہم خاص طور پر ’گن ٹریس ٹاسک فورس‘ کے جرائم کی طرف آئے۔ جینکنز نے سنہ 2017 میں اعتراف جرم کے ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس میں انھوں نے یونٹ کے دیگر ارکان کے ساتھ سات ڈکیتیوں کی تفصیل بتائی اور کوکین فروش ڈونلڈ سٹیپ کے ساتھ منشیات کے کاروبار میں شراکت کے مقدمے میں گواہی دی۔

جینکنز نے اعتراف کیا کہ وہ اپنے کام سے منشیات چوری کرتے اور انھیں سٹیپ تک پہنچاتے جو انھیں فروخت کرتا۔ ان دونوں نے مل کر قیمتی اشیا جیسے کلائی کی گھڑیاں وغیرہ بھی چوری کیں۔ اعتراف جرم کا معاہدہ ایک ایسی دستاویز ہوتی ہے، جس میں مخصوص مجرمانہ کارروائیوں کی فہرست دی جاتی ہے اور جس میں مدعا علیہ اپنا جرم قبول کرنے پر راضی ہوتا ہے۔

جینکنز کو وفاقی جج کے سامنے حلف کے تحت اس بات کی تصدیق کرنی پڑی کہ جو کچھ دستاویز میں کہا گیا ہے وہ سچ ہے۔ لیکن جینکنز بہت سے الزامات پر بحث بھی کرنا چاہتے تھے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ بہت سے الزام سچ نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

‘ہم طلبہ نے میرے والد کی رہائی کے لیے مسلح جنگجوؤں سے مذاکرات کیے‘

منشیات فروشی میں پابلو ایسکوبار کے قریبی ساتھی امریکی جیل سے رہا

’ہمیشہ یاد رکھنا، تم ایک ایسکوبار ہو‘

جب میں نے نشاندہی کی کہ وہ پہلے ہی ان تمام واقعات کا اعتراف کر چکے ہیں تو جینکنز نے مجھے بتایا کہ انھوں نے معاہدے پر دستخط صرف اس لیے کیے کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ اگر وہ مقدمے کی سماعت کے لیے آگے بڑھے تو انھیں پوری زندگی سلاخوں کے پیچھے گزارنا پڑ سکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بحیثیت ایک والد، جس کا خاندان بہت نوجوان ہے، وہ یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔ تین چھوٹے بچے اور جیل کی زندگی۔

’میں نے ایک برے پولیس اہلکار کی طرح منشیات فروخت کیں۔ اب میں 10 سے 15 سال (قید) کا مستحق ہوں۔ مجھے 25 برس کی قید ہوئی۔ مجھ پر بدمعاشی اوردھوکہ دہی کے الزامات عائد کیے گئے۔‘

بالتیمور

میں نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ استغاثہ کے لیے الزامات لگانا ایک عام سی بات ہے جو اتنے سنگین ہیں کہ مدعا علیہ کو لگتا ہے کہ اس کے پاس جرم تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

انھوں نے کہا کہ’ظاہر ہے میں اب یہاں (جیل) میں ہوں، اس لیے میں دونوں فریقوں کو دیکھتا ہوں۔ اگر میں اپنی زندگی میں سب کچھ واپس کر سکتا تو میں ایک پراسیکیوٹر ہوتا۔ میں ایک پراسیکیوٹر بننا پسند کروں گا تاکہ میں لوگوں کو زیادہ نہ ماروں۔ آپ کو اس وقت تک پتہ نہیں چلتا جب تک آپ اس طرف نہ آ جائیں، مجھ سمیت، کہ آپ خاندانوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔

اعترافِ جرم کے معاہدے سے سب سے حیران کُن واقعات میں سے ایک وہ واقعہ ہے جو جینکنز اب کُلی طور پر مسترد کرتے ہیں۔

سنہ 2015 کی بہار میں بالٹی مور شہر میں 25 سالہ فریڈی گرے کی زیرِ حراست ہلاکت کے بعد شہر میں شدید بدامنی پھیل گئی تھی۔

ایک موقع ایسا بھی آیا کہ درجنوں ادویات کی دکانوں کو لوٹ لیا گیا اور کروڑوں ڈالر کی دوائیں غائب ہو گئیں۔

یہ بھی پڑھیے

’اس پلنگ نے طالبان سے میری جان بچائی!‘

’ہمیشہ یاد رکھنا، تم ایک ایسکوبار ہو‘

امریکہ کی ’سخت ترین‘ جیل میں زندگی کیسی ہے؟

جینکنز کے اعتراف میں کہا گیا کہ ‘اپریل 2015 میں فریڈی گرے کی موت کے بعد ہونے والے بلوے کے بعد جینکنز ڈی ایس کے پاس وہ دوائیں لائے جو اُنھوں نے ایک فارمیسی سے لوٹنے والے شخص سے چرائی تھیں تاکہ ڈی ایس یہ دوائیں فروخت کر سکے۔’

‘ڈی ایس’ کا مطلب ڈونلڈ سٹیپ ہے۔

جینکنز اس ہنگامہ آرائی کے دوران اپنی سرگرمیوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ‘میں نے ایک چیز بھی نہیں لی۔ میں ہیرو تھا۔ میں نے کسی لٹیرے سے کچھ نہیں لیا، اس لیے اے خدا میری مدد کر۔ ڈونی نے یہ سب باتیں اپنی طرف سے گھڑی ہیں۔’

پولیس

ڈونلڈ سٹیپ کو رواں سال جنوری میں وفاقی جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔ اُنھوں نے گن ٹریس ٹاسک فورس کے مقدمے میں ملوث ہونے کے باعث پانچ سال قید کی سزا پائی تھی مگر اُنھیں 20 ماہ میں رحمدلی کی بنا پر چھوڑ دیا گیا۔

ڈونلڈ سٹیپ کو چھ ماہ تک گھر پر نظربند رکھا گیا اور رواں گرمیوں تک اُن کے ٹخنے میں ایک مانیٹر بندھا ہوا تھا جو اُن کی لوکیشن ٹریک کرتا تھا۔

اب وہ ایک آزاد شخص ہیں اور اپنی اہلیہ اور نوجوان بیٹی کے ساتھ بالٹی مور کاؤنٹی کے مشرقی حصے میں آزادی سے رہ رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ ‘زبردست’ حال میں ہیں۔ سٹیپ جینکنز کے بارے میں کہتے ہیں: ‘وہ کبھی بھی سچا دوست نہیں رہا۔ میرے دل میں اس کی کوئی عزت نہیں۔’ سٹیپ اور جینکنز کی تاریخ کافی طویل ہے۔ دونوں ہی ایک دوسرے کو بچپن سے جانتے ہیں۔

بڑے ہو کر وہ ایک مرتبہ پھر ملے۔ یہ ملاقات ایک انڈرگراؤنڈ تاش کے کھیل میں ہوئی جہاں بالٹی مور کے پولیس افسران بھی آیا کرتے تھے۔

انھی گیمز کے دوران سٹیپ نے جینکنز کو منشیات کے اُن بڑے ذخیروں کے بارے میں فخر سے بات کرتے سنا جن تک وہ بطور سادہ لباس پولیس اہلکار اکثر پہنچ جایا کرتے تھے۔

اس وقت ڈونلڈ سٹیپ اپنی ایک چھوٹی سے زرِ ضمانت کی کمپنی ڈبل ڈی بیل بونڈز چلا رہے تھے۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ وہ جوئے کی لت میں بھی مبتلا تھے اور بھاری مقدار میں کوکین کے سودے کر رہے تھے۔

یہ سب کچھ اس وقت بہت پرکشش ہو گیا جب سنہ 2011 میں جینکنز سٹیپ تک پہنچے اور تجویز دی کہ وہ دونوں اکٹھے کاروبار میں شامل ہو جائیں۔

جینکنز نے منشیات کی بھاری مقداریں عدالت میں پیش کرنے کے بجائے سٹیپ کو فروخت کے لیے دینی تھیں۔

سٹیپ نے بعد میں جی ٹی ٹی ایف ٹرائل کے دوران جیوری کو بتایا کہ ‘مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ میں جتنے بھی پولیس اہلکاروں سے ملا تھا، جن میں سے کئی تاش کے کھیلوں میں بھی موجود تھے، میری رائے میں وہ شہر کے مالک تھے۔ مجھے لگا جیسے یہ جیت تھی۔’

سٹیپ کہتے ہیں کہ جینکنز تقریباً روزانہ کی بنیادوں پر منشیات لانے لگے اور سٹیپ کے گھر کے پیچھے ایک تالہ بند چھپر میں انھیں چھوڑ جاتے۔

اس منشیات میں بھنگ، کوکین اور ایم ڈی ایم اے شامل تھیں جنھیں فروخت کرنے کے لیے سٹیپ بھرپور کوشش کرتے۔

پولیس

جینکنز سٹیپ کو گرفتاریوں کی جگہوں پر بلانے لگے اور سٹیپ کی حوصلہ افزائی کرتے کہ وہ منشیات فروشوں کے ٹھکانوں میں اندر جا کر منشیات اور نقد رقم تلاش کریں۔

وہ دیگر ڈیلرز کا بھی پتا رکھتے اور جب کوئی گھر پر نہ ہوتا تو اس وقت گھر میں گھس جاتے۔

یہ شراکت داری پانچ سال تک جاری رہی۔

پھر دسمبر 2017 میں جینکنز کی گرفتاری کے آٹھ ماہ بعد ایف بی آئی اور بالٹی مور کاؤنٹی کے افسران نے سٹیپ کا دروازہ توڑ ڈالا اور اُنھیں اُن کے کچن سے گرفتار کر لیا۔

کچھ ہی عرصے میں سٹیپ کو یہ شک ہو گیا کہ جینکنز نے ہی اُن کی مخبری کی تھی۔

مگر سٹیپ نے بھی کئی ماہ سے اپنے پاس ایک اہم پتّہ چھپا رکھا تھا۔

وہ اپنے سیل فون پر اپنے تمام جرائم کے ثبوت درج کرتے جا رہے تھے۔ اُنھوں نے پولیس ڈیپارٹمنٹ کے اندر اپنی اور جینکنز کی اکٹھے تصاویر لیں جہاں سٹیپ کبھی کبھی منشیات لینے کے لیے جایا کرتے تھے۔

جب جینکنز نے اُنھیں اُس گھر بلایا جہاں جی ٹی ٹی ایف کی تفتیش جاری تھی تو سٹیپ نے اہلکاروں کے اندر جانے اور باہر آنے کی تصاویر لیں۔ پھر جینکنز دو کلو کوکین باہر لائے اور اسے سٹیپ کی گاڑی میں پھینک دیا۔

سٹیپ نے سب کچھ امریکی استغاثہ کے حوالے کر دیا۔

کچھ حد تک اس مقدمے میں اُن کے تعاون کے باعث اُنھیں جی ٹی ٹی ایف کے اہلکاروں سے کہیں کم سزا ملی۔

سٹیپ جینکنز کے بارے میں کہتے ہیں کہ ‘پہلا حملہ اُنھوں نے کیا تھا۔ اب ہم سب کچھ ختم کرنے والے ہیں۔ میں نے بھی یہی کیا۔’

سٹیپ کے اپنے سابق دوست کے خلاف پلٹا کھانے کے کچھ ہی عرصے بعد جینکنز نے اعترافِ جرم کر لیا۔

جینکنز کے ساتھ میری گفتگو کے دوران وہ کافی دیر تک اپنی شراکت داری کے بارے میں سٹیپ کے دعوؤں کی نفی کرتے رہے۔

اُن کا دعویٰ ہے کہ مل کر منشیات فروخت کرنے کا خیال اُن کا نہیں بلکہ سٹیپ کا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ سٹیپ نے ایسا کرنے کے لیے اُن پر دباؤ ڈالا۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اُنھوں نے منشیات کی فروخت سے کچھ 75 ہزار ڈالر کے قریب کمائے، نہ کہ اُتنے جتنا کہ سٹیپ نے بتایا تھا۔

وہ سٹیپ کو ‘زندگی میں ملنے والا سب سے بڑا مبالغہ گو’ کہتے ہیں۔ جب میں نے یہ سب سٹیپ کو بتایا تو وہ کافی غصہ ہوئے۔ اُنھوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ جینکنز نے مجھ سے جھوٹ کہا ہے۔ اُنھوں نے اعترافی معاہدے کی نشاندہی کی جس میں جینکنز نے اتفاق کیا ہے کہ منشیات فروشی میں اُن کا حصہ تقریباً ڈھائی لاکھ ڈالر بنا۔ وہ مجھے یاد کرواتے ہیں کہ امریکی اٹارنی کے دفتر کو بھی جینکنز کے بجائے وہ زیادہ قابلِ اعتبار لگے۔

سٹیپ کہتے ہیں کہ ‘وہ عادی جھوٹا ہے۔’ ‘میں کسی چیز سے یا اُس کے علم میں موجود کسی بات سے نہیں ڈرتا۔ کیونکہ میرا یقین کریں، میں اپنے مؤقف پر قائم رہوں گا۔’

سٹیپ اب اپنی زندگی میں ایک طرح سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ مارچ میں ایچ بی او نے بالٹی مور ٹرو کرائم ٹی وی سیریز کے خالق ڈیوڈ سائمن کی ایک نئی منی سیریز ‘دی وائر’ کا اعلان کیا۔ سائمن کے اس نئے پراجیکٹ میں گن ٹریس ٹاسک فورس کے اس پورے معاملے کو فکشن کے انداز میں پیش کیا جائے گا۔

گرمیوں میں بالٹی مور کی سڑکوں پر اس کی فلمنگ بھی شروع ہو چکی ہے۔ وین جینکنز کا کردار جان برنتھال ادا کریں گے جنھوں نے اس سے پہلے ‘دی پنیشر’ کا کردار بھی ادا کیا ہے۔ ایچ بی او نے ڈونلڈ سٹیپ سے اس پراجیکٹ پر کنسلٹنٹ بننے کی درخواست کی جسے اُنھوں نے جوش و خروش سے قبول کر لیا۔ اُن کی فیس گن ٹریس ٹاسک فورس کے متاثرہ افراد کو عطیہ کی جائے گی۔

اس دوران اُن کا ٹوئٹر اکاؤنٹ سیٹ پر اُن کی تصاویر سے بھرا نظر آتا ہے جن میں وہ برنھتال اور کچھ دیگر اداکاروں کے ساتھ دیکھے جا سکتے ہیں۔

وہ ایک نئی کنسلٹنگ سروس شروع کر رہے ہیں جسے سٹیپ رائٹ کنسلٹنٹس کہا جائے گا۔ یہ ایجنسی اُن افراد کو رہنمائی اور معلومات فراہم کرے گی جو سزا پا کر وفاقی جیلوں میں پہنچنے والے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایک یادداشت پر بھی کام کر رہے ہیں جس میں اُن کے مطابق وہ جینکنز کی اُن تصاویر اور ویڈیوز کے مواد سے پردہ اٹھائیں گے جو کبھی بھی جاری نہیں کی گئیں۔

اس کے علاوہ وہ اب بند ہو چکے ڈبل ڈی بیل بونڈز کی ایک کپڑوں کی برانڈ بھی لانچ کرنے والے ہیں۔ وہ شاید جینکنز سے اپنی مخاصمت ختم نہ کرنا چاہ رہے ہوں مگر سٹیپ کا یہ عجیب و غریب سفر فی الوقت ایک خوشگوار اختتام کی جانب جاتا دکھائی دے رہا ہے۔

‘یہ ایک زبردست کہانی ہے مگر یہ اوپر والے کی مہربانی ہے۔ میں شکرگزار ہوں، بہت شکرگزار۔’ میں نے وین جینکنز سے کئی مرتبہ پوچھا کہ وہ کیوں میرے ساتھ انٹرویو کروانا چاہیے ہیں۔ اُنھوں نے مجھے کچھ وجوہات بتائیں۔ ان میں سے ایک وجہ یہ تھی کہ اُنھیں لگ رہا تھا کہ امریکی استغاثہ نے اُنھیں اعترافی معاہدہ کرنے کے لیے مجبور کیا ہے۔

میری لینڈ یو ایس اٹارنی کے دفتر نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔ ایک اور وجہ یہ تھی کہ وفاقی جیلوں کے اندر زندگی کتنی مایوس کُن ہے۔ ‘میں قسم کھاتا ہوں، کاش مجھے یہ کسی کو یہاں ڈالنے سے پہلے معلوم ہوتا۔ کاش مجھے (دیوار کے) دوسری جانب کا بھی علم ہوتا۔ یہ بالکل بھی ویسا نہیں جیسے میں نے تصور کیا تھا۔ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ لوگ یہاں سے مزید برے ہو کر نکلتے ہیں۔’

اور ظاہر ہے کہ جینکنز کو بھی سزا میں کمی کی اُمید ہے۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ اُنھوں نے مجھ سے اس لیے بات کی کیونکہ وہ میڈیا میں موجود اپنا کسی غیر انسانی حد تک برے شخص والا تاثر پسند نہیں کرتے۔

ہمارے انٹرویو سے قبل جینکنز کے نمائندے چاہتے تھے کہ میں اُن کے کچھ ہائی سکول کے دوستوں سے بات کروں۔ وہ دوست مجھے بتانا چاہتے تھے کہ جینکنز ایک مخلص باپ، ایک اچھے فٹ بال کوچ تھے اور ایک وفادار دوست تھے۔ اُنھوں نے مجھے بتایا کہ وہ جینکنز کو ‘شیطان’ بنا کر پیش کرنے سے پریشان ہیں۔

ایسا نہیں تھا کہ میں نے جینکنز کے بارے میں یہ لفظ پہلی بار سنا تھا۔ جہاں کسی کو یہ ایک لمحے کے لیے بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جینکنز اور اُن کے اہلکاروں نے بالٹی مور کے شہریوں کو کس قدر نقصان پہنچایا، مگر وہیں میں سمجھتا ہوں کہ اُنھیں ‘شیطان’ قرار دے دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

یہ تصور کہ گن ٹریس ٹاسک فورس صرف اس لیے بدمعاشی پر اتر آئی کیونکہ اُن کے سارجنٹ ‘شیطان صفت’ تھے، اُن تمام منظم وجوہات کو نظرانداز کرتا ہے جن کی وجہ سے اُنھیں یہ سب کچھ کرنے کا حوصلہ ملا۔ یہ اس وسیع تر پولیسنگ کلچر کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے جس نے اُنھیں حمایت فراہم کی (یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ سکواڈ کے کئی ارکان نے جی ٹی ٹی ایف میں شمولیت سے پہلے ہی پیسے چرانے شروع کر دیے تھے۔)

یہ سوچنا کہ نظام بالکل شفاف انداز میں کام کر رہا ہے اور صرف وہ ایک غلط شخص تھے تو ہم پولیس کے محکمے میں تبدیلیوں سے بچنا چاہ رہے ہیں، اور اس سب کو دوبارہ ہونے سے روکنے کی ذمہ داری سے جان چھڑانا چاہ رہے ہیں۔ محکمے میں کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے تقریباً ناقابلِ تصور حد تک کوششیں کرنی پڑیں گی۔ زیادہ آسان یہ ہے کہ پکڑے جانے والے اہلکاروں کو بند کر دیا جائے اور کام معمول کے مطابق چلتا رہے۔

مزید پڑھیے

‘ہم طلبہ نے میرے والد کی رہائی کے لیے مسلح جنگجوؤں سے مذاکرات کیے‘

منشیات کے کارٹیل وبا کا کیسے فائدہ اٹھا رہے ہیں؟

غیرمعمولی طور پر ایک دن بغیر قتل کے بھی گزرا

لیکن پھر بھی جینکنز کے ایک دوست نے مجھ سے کچھ ایسا کہا جس کی میں نے توقع نہیں کی تھی۔ اُنھوں نے تسلیم کیا کہ جب جی ٹی ٹی ایف جرائم کرتی پھر رہی تھی تو اُنھیں جینکنز کے بارے میں کچھ عجیب سا ضرور محسوس ہوا تھا۔

‘ہم بے وقوف نہیں ہیں۔ ہم جانتے تھے کہ وہ ویسے ایماندار پولیس افسر نہیں تھے جیسا کہ تمام پولیس اہلکاروں سے توقع کی جاتی ہے۔ اُن کی جیب میں ہمیشہ بھاری رقم موجود رہتی تھی۔ وہ مجھے بتاتے کہ اُنھوں نے یہ رقم پوکر کے کھیل میں جیتی ہے۔’

میں نے ان دوست سے پوچھا کہ اُنھوں نے کسی کو کچھ کیوں نہیں بتایا۔ اُنھوں نے کچھ ایسا کہا جو میں نے پہلے کبھی کسی کو کھلے عام قبول کرتے نہیں دیکھا۔ وہ کہتے ہیں: ‘ہم نے کہا، ‘دیکھو وہ بالٹی مور کے ان بدمعاشوں کو لوٹ رہا ہے جن کی وجہ سے میں اور میرے بچے سڑکوں پر خود کو محفوظ تصور نہیں کر سکتے۔’ ایسی ذہنیت میں یہ مان لیا جاتا ہے کہ گن ٹریس ٹاسک فورس کے متاثرین جن میں زیادہ تر غریب اور سیاہ فام تھے، اس کے حقدار تھے جو اُن کے ساتھ ہوا۔

اور یہ بات پریشان کُن ہے کہ یہ نظریہ بالٹی مور میں کئی لوگ رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جی ٹی ٹی ایف ایک طویل عرصے تک وہ سب کر پائی جو وہ کر رہی تھی۔ مگر ظاہر ہے کہ عوام کو نقصان صرف جی ٹی ٹی ایف نے نہیں پہنچایا تھا۔

بالٹی مور ایک پیچیدہ اور خطرناک جگہ ہو سکتی ہے جہاں پولیس اہلکاروں کے حملے اور استحصال کا نشانہ بننے والے مرد و خواتین نے بھی کسی کو حملے یا استحصال کا نشانہ بنایا ہوگا۔ میری لوگوں سے سب سے اداس کُن بات چیت وہ رہیں جن میں لوگوں کو دو بار نشانہ بننے کا احساس ہوا تھا، یعنی پولیس اہلکاروں اور مجرموں دونوں کے ہاتھوں۔

مگر ایک اہم فرق یہ تھا کہ منشیات فروشوں نے کبھی خدمت اور حفاظت کرنے کا حلف نہیں اٹھایا تھا۔ اُنھیں ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے شہر کو محفوظ رکھنے کے لیے ادائیگی نہیں کی جا رہی تھی اور وہ اس سب طاقت اور تحفظ کے ساتھ کام نہیں کر رہے تھے جو پولیس کو حاصل ہوتا ہے۔

مجھے بار بار سکواڈ کا نشانہ بننے والے اُن لوگوں کا خیال آتا رہا جن سے میں نے اس سٹوری پر کام کے تین سالوں کے دوران ملاقاتیں کی تھیں۔ مجھے ایک محنتی باپ کینیتھ بمگارڈنر کا خیال آتا ہے جن کا سکواڈ نے بھنگ رکھنے کے شبہے میں پیچھا کیا تھا۔ وہ ہوش میں آئے تو ایک سڑک پر پڑے ہوئے تھے۔ اُن کا جبڑا ٹوٹا ہوا تھا اور وہ کئی ماہ تک ٹھوس غذا نہیں کھا پائے تھے۔

بالتیمور

اُنھوں نے مجھے بتایا کہ 'میں بالآخر اپنی زندگی معمول پر لانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ لیکن یہ اب بھی مشکل ہے کیونکہ مجھے رات کے وقت اپنے منھ میں بہت درد ہوتا ہے۔ میرے دانت گر رہے ہیں، وہ کافی اچھے اور خوبصورت ہوا کرتے تھے۔' مجھے شان ویٹنگ کا خیال آتا ہے۔ وہ ایک سابق ہیروئن فروش تھے جو اہلکاروں سے لٹنے کے بعد کئی برس کے لیے جیل چلے گئے۔ وہ اُس وقت کسی کو بھی اپنا یقین نہیں دلا سکے اور آج تک اُنھیں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں سے خوف آتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اُنھیں ‘برے خواب آتے ہیں کہ پولیس اہلکار اُنھیں ہراساں کر رہے ہیں، مار رہے ہیں، حوالات میں بند کر رہے ہیں۔ یہ صرف ایک برا خواب ہے جو مجھے آتا ہے اور میں اب تک اس سے پیچھا نہیں چھڑا پایا ہوں۔ میں روز اس سے گزرتا ہوں، مجھے پولیس سے خوف آتا ہے کہ نجانے وہ کب روک لیں، منشیات برآمدگی ڈالنے یا ایسا کچھ کرنے کی کوشش کریں۔ یا نقصان پہنچائیں یا مار ہی ڈالیں۔’

بمگارڈنر اور ویٹنگ جیسے متاثرین کے پاس آواز اٹھانے کا حوصلہ تھا۔ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کتنے دیگر لوگ متاثر ہوئے تھے مگر خوف کے باعث آواز نہیں اٹھا پائے۔ کسی نے مجھے ایک بار کہا تھا کہ گن ٹریس ٹاسک فورس کے براہِ راست اثرات زائل ہونے کی ابتدا ہونے میں ہی ایک نسل گزر جائے گی اور یہ اندازہ لگانا ناممکن ہو گا کہ متاثرین کو پہنچنے والا صدمہ اُن کے بچوں، خاندانوں اور دوستوں کی زندگیوں میں کیسے اثرانداز ہو گا۔

سکواڈ کے جرائم سے ہونے والا نقصان اب بھی شہر کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے اور بلاشبہ بالٹی مور اپنے رہائشیوں کے لیے پہلے سے کم محفوظ ہے۔ میں نے اس سٹوری پر اتنا عرصہ اس لیے کام جاری رکھا کیونکہ مجھے اُمید تھی کہ عوام کو پولیس کے محکمے میں کرپشن کا جتنا زیادہ علم ہوگا، نظام میں کسی حقیقی اصلاح کا اُتنا ہی زیادہ امکان ہوگا۔

مگر شان ویٹنگ اتنے پُراُمید نہیں ہیں۔ گن ٹریس ٹاسک فورس کے اہلکاروں کی گرفتاری کے چار سال بعد وہ کہتے ہیں کہ اُنھیں بالٹی مور کی سڑکوں پر کچھ مختلف محسوس نہیں ہوتا۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘پولیس اہلکاروں کے عوام سے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ میں کچھ پولیس اہلکاروں کو لوگوں کو ہراساں کرتے دیکھتا ہوں، وہ وہی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جو گن ٹریس ٹاسک فورس کرتی تھی۔’

میں نے اُن سے پوچھا کہ کیا اُنھیں لگتا ہے کہ کوئی اور سکینڈل بھی سامنے آئے گا؟ اُنھوں نے کہا: ‘بلاشبہ۔ یہ پھر ہوگا۔ یہ ختم نہیں ہوا ہے۔ ابھی تو صرف شروعات ہوئی ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32804 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments