علامہ اقبالؒ سے اشعار کا غلط انتساب


یہ 9 نومبر کا دن تھا۔ سٹی کی ایک نامی گرامی تعلیمی ادارے میں حکیم الامت، مصور پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے یوم ولادت کے حوالے سے پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا۔ میں صبح سویرے تیار ہو کر ادارے کی جانب چل پڑا۔ وہاں داخل ہوتے ہی طلبہ کو غیر معمولی سرگرمیوں میں مشغول پایا۔ کوئی علامہ کی تصاویر ٹانک رہا تھا۔ کوئی علامہ کے اشعار لکھ رہا تھا، کوئی غباروں میں ہوا پھونک رہا تھا تو کوئی اسٹیج پر کور چڑھا رہا تھا۔

علامہ کے شاہین نہایت تندہی اور خوش اسلوبی سے اپنے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ گویا ہر جانب سے علامہ سے والہانہ عقیدت کا اظہار ہو رہا تھا۔ اسی طرح پروگرام کی تیاری تکمیل کو پہنچی۔ خصوصی پینا فلیکس کو آویزاں کیا گیا ’جس پر مصور پاکستان کی تصویر بھی مزین تھی اور جلی حروف میں یہ شہرہ آفاق اشعار بھی لکھے ہوئے تھے۔

اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ

تھوڑی دیر میں مہمانوں کی آمد شروع ہو گئی۔ انہیں مخصوص نشستوں پر بٹھایا گیا۔ مہمان خصوصی بھی تشریف لائے۔ انہیں پھولوں سے ویلکم کیا گیا۔ وہ ایک علمی و ادبی شخصیت ہیں۔ بالخصوص اقبالیات کے حوالے سے ان کا نام ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ پروگرام تین گھنٹے جاری رہا۔ اسی دوران مہمان خصوصی بار بار پینا فلکس کی جانب ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے تھے۔ پروگرام کے اختتام پر مہمان خصوصی مجھ سے ملے اور راز دارانہ طریقے سے کہنے لگے کہ بیٹا یہ جو پینا فلکس پر علامہ اقبالؒ کی تصویر کے ساتھ لگے اشعار ہیں، یہ سرے سے ہی علامہ کے نہیں ہیں۔ یہ کسی گم نام یا کم نام شاعر کی شاعری ہے۔ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے بلا تحقیق ہر انقلابی اور مغربی تعلیم سے بیزار اشعار کے اچھے خاصے ذخیرے کو علامہ سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ میں نے خود علامہ اقبالؒ کی تمام کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔ یہ اشعار کسی بھی کتاب اور ”باقیات اقبال“ میں بھی موجود نہیں ہیں۔

اسی لمحے میں سکتے میں آ گیا کیوں کہ یہ میرے لیے بھی نئی بات تھی۔ اس کے فوراً بعد بانگ درا، ضرب کلیم اور زبور عجم کو کھنگالنا شروع کر دیا مگر جواب نہ شد۔

انٹرنیٹ پر تلاش کی تو معلوم ہوا یہ قطعہ ہندوستانی ریاست راجستھان سے تعلق رکھنے والے شاعر سرفراز بزمی فلاحی کا ہے۔ تاہم حتمی طور پر دعویٰ نہیں کر سکتا کہ یہ قطعہ کس کا ہے۔ میں نے اسی حوالے سے پرنسپل صاحب سے بات کی۔ پرنسپل صاحب چونکہ علمی بالخصوص علامہ سے محبت رکھنے والی شخصیت ہیں۔ اشعار کی تصحیح کرانے کی یقین دلائی۔

علامہ اقبالؒ سے اشعار کی غلط انتساب کا یہ سلسلہ کسی ایک ادارے یا کسی فرد واحد تک محدود نہیں بلکہ ہمارے سیاست دان اور پڑھے لکھے افراد غرض معاشرے کا ہر تعلیم یافتہ فرد اپنی تقریر، تحریر میں پختگی اور کلام میں تاثیر پیدا کرنے کے لیے اکثر اسی غلطی کا مرتکب ہوتا ہے۔ مزید برآں جب سے علم و ادب کی زمام قیادت کو سوشل میڈیا نے سنبھالا ہے، تب سے مختلف اشعار کو علامہ اقبالؒ سے منسوب کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔

گزشتہ دنوں ایک معروف قومی اخبار کی جانب سے اسی نوعیت کی غلطی برتی گئی تھی جس میں ان اشعار کی پوری فہرست علامہ کے نام سے شائع کی گئی تھی اور یہی کوتاہی ایک پاکستانی اداکارہ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کر گزری ہیں۔

منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر
ہر شیشہ ٹوٹ جاتا ہے پتھر کی چوٹ سے
پتھر ہی ٹوٹ جائے وہ شیشہ تلاش کر

بتایا جا رہا ہے کہ یہ اشعار شیخ محمد اسماعیل الکرخی کے ہیں۔

ہمارے ایک استاد بھی سید صادق حسین کاظمی کی کتاب ”برگ سبز“ میں موجود اس شعر کو اکثر علامہ سے منسوب کر کے ہمیں سنایا کرتے تھے۔ علاوہ ازیں سکولوں، کالجوں، تقریری مقابلوں میں یہ شعر برمحل اقبالؒ کے نام سے پڑھ کر خوب داد سمیٹا جا رہا ہے۔

تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

اسی طرح ایک مرتبہ امام جمع والجماعت اپنے خطبے میں اس شعر کو علامہ سے منسوب فرما رہے تھے جو کہ مولانا ظفر علی خان کا شعر ہے۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

محترم قارئین! یقیناً شاعری کی دنیا میں علامہ اقبالؒ کی شاعری کا مقام و مرتبت بہت بلند ہے اور علامہ کی شاعری نے عالم انسانیت بالخصوص عالم اسلام پر احسان عظیم کیا ہے۔ ان کی شاعری کی ہی مرہون منت مسلمانان ہند نے طوق غلامی کو اپنے گردنوں سے توڑ ڈالا۔ انہی کی بدولت آج ہم ان آزاد فضاؤں میں سکھ کی سانس لے رہے ہیں۔ علامہ کی شاعری موجودہ اور آئندہ کے نسلوں کے لیے نسخہ کیمیا کا درجہ رکھتی ہے۔ اگر اشعار کے غلط انتساب کا یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو اقبالؒ کے اصل اشعار مغالطوں کی نذر ہوں گے۔ ان کی روحانیت معدوم ہو جائے گی اور اقبالؒ کے اصل کلام کی تاثیر باقی نہیں رہے گی۔ لہٰذا ہر اس فرد پر لازم ہے کہ اشعار کا حوالہ دینے سے پہلے ضرور مطالعہ کرے ’تاکہ اس عظیم قومی سرمائے کو آئندہ نسلوں تک بحفاظت پہنچایا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments