بکر انعام یافتہ گیتانجلی شری کی ریت سمادھی اور حسن کی تعریف!


اندر باہر سے خوبصورت۔
آپ کی خوبصورتی آپ کی مسکراہٹ میں ہے۔
میں آپ جیسی نظر آنا چاہتی ہوں۔
زبردست لگ رہی ہو، واؤ، اس کے علاوہ کیا کہیں؟
آپ کو دیکھ کر زندگی کا گمان ہوتا ہے۔
کتنے پیارے ہیں پھول بھی اور آپ بھی۔
طاہرہ پاکستانی سندر۔
واہ نی سوہنی کڑیے۔

بات کچھ یوں ہے کہ آپ سب نے ہماری پچپن سالہ زندگی کو الٹ پلٹ کر دیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہم ہم نہیں رہے، کوئی اور ہے۔ یا تو کسی کی ہم میں جھلک ہے یا کوئی شدید غلط فہمی ہے جس کا شکار ہیں آپ سب اور یہ غلط فہمی کسی نہ کسی طور بڑھتی جا رہی ہے ہر روز، ہر بار۔ یقین کیجیے کہ ہر بار ہم حیرت زدہ ہو جاتے ہیں کہ کس کا یقین کریں؟

آپ کا؟
یا گزرنے والے پچپن برسوں کا؟
پھر سوچتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی گڑبڑ ہے ضرور کہیں نہ کہیں۔

للہ یہ نہ سمجھیے گا کہ دل میں کوئی خلش ہے، یا کسی احساس کمتری کا ہم شکار ہیں، یا کوئی حسرت ناتمام ہے جس پہ ہم آزردہ ہو کر آنسو بہانے پہ تلے بیٹھے ہیں۔ نہ نہ نہ۔ یقین کیجیے، آنسو بہانے کے بہانے بہت مگر یہ نہیں۔

بات یہ ہے کہ ایسی بات کبھی ہوئی نہیں۔

اب بتا ہی دینا چاہیے جس کی تمہید ہم باندھے چلے جا رہے ہیں۔ تھوڑی ہچکچاہٹ ہے نا کہ کبھی کسی نے ہماری اتنی کھل کے تعریف کی ہی نہیں۔ نہیں نہیں، غلط مت سمجھیے، تعریف تو ہوئی مگر ایسی نہیں۔ تعریف ہوئی مگر ہماری ذہانت کی، ہماری خود اعتمادی کی، ہماری پٹر پٹر باتیں کرنے کی، ہماری صلاحیتوں کی، لیکن یہ والی تعریف جو اب سنی ہے نا، یہ تو کبھی ہوئی نہیں، نہ بچپن میں، نہ نوعمری میں، نہ نوجوانی میں، اور نہ جوانی میں۔

جناب، انٹرنیٹ نے کچھ کیا ہو یا نہیں لیکن اتنا ضرور ہوا ہے کہ ٹمبکٹو میں رہنے والے اوکاڑہ کے باسیوں سے دور نہیں، الاسکا والے تھر والوں سے منہ در منہ بات کر رہے ہیں، برسوں پہلے پرائمری سکول میں ساتھ پڑھنے والے ایک دوسرے کو فیس بک پر ڈھونڈ کر مل رہے ہیں، غائبانہ شناسائی پہ مانوس اجنبی جھٹ سے آپ تک پہنچ جاتے ہیں۔ آپ وہی ہیں نا، سیالکوٹ میں رہنے والے برکت شاہ کی نواسی۔ وہی جن کی ایک بیٹی کی شادی پنڈی میں ہوئی تھی۔ خالہ عظمت بہت اچھی تھیں، بڑے پیار سے ملتی تھیں، جب بھی گاؤں آتیں۔ کیا اس کے بعد کسی انکار کی گنجائش رہ جاتی ہے۔

تو ہوا یہ ہے کہ یہ جو دنیا تخلیق ہوئی ہے انٹرنیٹ کی بدولت دوستوں کی، دور دراز کے رشتے داروں کی یا ان ملکوں کے باسیوں کی جہاں ہمارا تعارف ہمارا قلم ہے۔ ہمارے الفاظ وہاں بھی پہنچتے ہیں، جہاں ہم کبھی نہیں گئے، وہ ہر وقت ایک دوسرے سی جڑی ہوئی ہے۔ ہر کسی کا ہر لمحہ دوسرے کی پہنچ میں ہے، ادھر ادھر ہوئے نہیں کہ فیس بک پہ خبر لگی نہیں۔ ہاں تو یہ کہہ رہے تھے ہم کہ یہ جو ایک چھوٹی سی دنیا تخلیق ہوئی ہے اللہ بھلا کرے مارک کے ہاتھوں، وہ داد و تحسین کے ڈونگرے جب برساتی ہے تو ہم پریشان ہو جاتے ہیں۔

جی ہاں ہم پہلے پریشان ہوتے ہیں، پھر حیران کہ یا اللہ تصویر تو ہماری ہی ہے مگر یہ کس کو اتنا حسین و جمیل کہا جا رہا ہے۔ ہو نہ ہو کوئی غلط فہمی ہے۔ پھر ہم تصویر دوبارہ دیکھتے ہیں، قسم لے لیجیے جو فون پہ کوئی فلٹر لگایا ہو، ہمیں اپنے شکن زدہ چہرے کو استری کر کے مصنوعی بنانے کا کوئی شوق نہیں۔ چہرے پر ہر شکن، ہر لکیر اور ہر داغ تو یادگار ہے کسی نہ کسی کہانی کا۔ سنائیں گے وہ بھی خاطر جمع رکھیے۔ پہلے دل کے داغوں پہ تو مرہم رکھ دیجیے۔

اچھا یہ بھی بتا دیں کہ فلٹر بھی نہیں اور میک اپ کے نام پہ بھی ایک سن بلاک لوشن جو دھوپ سے بچنے کی کوشش ہے اور دوسرے لپ اسٹک۔

موئی لپ اسٹک لگانے کا شوق بھی ابھی سے نہیں، بہت بچپن سے ہے۔ اور اس کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے۔ کیا کریں کہ اگر ہماری باتوں میں کہانی در کہانی نکلتی چلی آتی ہے، جیسے ریشم کا لچھا، ایک سرا پکڑو اور کھلتا چلا جائے، بکھرتا جائے۔ تو ایسا ہے بچپن کی دکھ بھری کہانی میں کہ گھر میں لپ اسٹک لگانے کا شوق نہ اماں کو تھا اور نہ ہی آپا، دونوں اس غم سے بے نیاز تھیں اور ہم بے انتہا شوقین۔

اکثر جھنجھلا کر سوچتے یہ دونوں کیسی عورتیں ہیں سپاٹ چہروں والی، نہ لبوں پہ سرخی، نہ گالوں میں غازہ، آنکھوں میں سرمہ اور نہ بالوں میں کوئی کلپ وغیرہ۔ دونوں اچھے سے کپڑے پہنتیں۔ اماں بالوں کا کس کر جوڑا بناتیں اور آپا پونی۔ اماں تھوڑی سی تبت سنو منہ پر مل لیتیں اور آپا پونڈز کریم۔ چلیے جی تیاری مکمل۔

اب ہم کیا کریں جب گھر میں لپ اسٹک نام کی چیز ہی نہیں۔ کہاں سے لائیں؟ کیسے لگائیں؟ کیسے شوق پورا کریں؟ ترکیبیں سوچنے کے تو ہم ماہر تھے ہی سو اس کا راستہ بھی نکال لیا۔ وہ ایسے کہ جب کسی شادی پہ جانا ہوتا، وہاں پر کسی نہ کسی شوقین خاتون، نو بیاہتا یا الہڑ، کو تاڑ کر اس کے پاس پہنچتے اور چپکے سے فرمائش جڑ دیتے کہ ہمیں لپ اسٹک لگائی جائے۔ بات کرنا مشکل تو کبھی بھی نہیں تھی ہمارے لیے۔ وہ خاتون چھوٹی بچی کی فرمائش پر پہلے حیران ہوتیں، پھر ہنستیں اور پھر فوراً لپ اسٹک نکال کر چھوٹے چھوٹے ہونٹوں پہ ہلکی سی تہہ لگا دیتیں۔

لپ اسٹک لگوا کر آئینے میں ہم اپنے آپ کو دیکھتے، کبھی سامنے سے، کبھی سائیڈ سے، کبھی ہونٹ دبا کر، کبھی مسکرا کر ( ان دنوں ہونٹ سکوڑنا ایجاد نہیں ہوا تھا) پھر سوچتے کہ کتنی پیاری لگ رہی ہوں۔ ادھر ادھر دیکھتے کہ شاید کوئی اور بھی کہہ دے لیکن جناب کہیں سے بھی کوئی آواز نہ آتی سوائے اماں کی جو کہہ رہی ہوتیں، توبہ ایہہ کڑی!

خیر جناب دل ہی دل میں ہم خود ہی اپنی تعریف کر لیتے۔ یہ ہنر ہمیں خوب آتا تھا۔ گھر پہنچنے پر ڈھیٹ بن کر ابا سے پوچھ لیتے، میں پیاری لگ رہی ہوں نا؟ ہاں بہت، وہ آہستہ سے کہتے۔ اماں اپنا ماتھا پیٹ لیتیں، توبہ توبہ، عمر دیکھو اور اس لڑکی کے شوق۔ مزید ڈھیٹ بن کر ہم کہتے کہ کیوں اچھا لگنا کیا بری بات ہے؟ بلکہ آپ بھی لپ اسٹک لگایا کریں، اچھی لگیں گی۔

اس طرح کی حرکتیں ہم نے دل کھول کر کیں مگر کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ کتنی پیاری بچی ہے کیونکہ پیاری بچی کا خطاب ہماری چھوٹی بہن کو مل چکا تھا۔

بڑی بڑی آنکھیں، گھنگھریالے بال، بھولی سی صورت، خاموش طبع۔ سو دوسروں کے نزدیک صورت کچھ یوں بنی کہ دونوں میں سے بڑی، ذہین بہت۔ زیر لب، چالاکو ماسی اور چھوٹی خوبصورت بہت۔

اتنی سی عمر میں رائے رکھنا اور اپنی مرضی کرنا کسی بھی گھر کی چھوٹی لڑکی پہ کہاں سجتا ہے۔ سو علاج یہ تھا کہ ذرا آئینہ دکھا دیا جائے۔ یہ کام بڑے بھائی صاحب کافی بے رحمی سے سر انجام دیتے۔ ماتھا چھوٹا ہونے کا اعلان، ساتھ میں چھوٹی چھوٹی ”چنی“ آنکھیں، اونچے دانت اور چھوٹی موٹی گردن۔

مگر جناب ان معمولی باتوں کو ہم دل سے کیوں لگاتے کہ تب بھی اپنی دنیا کے قلندر تھے۔ ان دانتوں کی موجودگی میں بھی ہم ہنسنے سے باز نہ رہتے ( آج بھی نہیں ) کہ ہماری پہچان ذہین ہونا تھا، خوبصورتی کے دائرے سے تو پہلے ہی نکالے جا چکے تھے۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ چھوٹی بہن غبی ہو۔ ذہین وہ بھی بہت تھی مگر خاموش طبع ہونے کی وجہ سے عوام الناس میں پہچان صورت بنی اور ہماری شناخت زبان چلانے میں استادی۔

چلیے جی بچپن گزرا ذہانت کے قصے سنتے اور خوبصورتی کے ہالے سے دور رہ کر۔ طالب علمی کے زمانے میں بھی ذہین ہونے کی شہرت باقی رہی اور خوبصورتی کے پیمانے بھی ہم سے اونچے ہی رہے۔ خیر قلق کبھی نہیں ہوا کہ محفل میں باتیں بگھار کر ہم جان محفل تو ویسے ہی بن جاتے تھے، چھوٹے ماتھے اور چنی آنکھوں کے ساتھ۔

وہ دور بھی گزرا۔

شادی ہوئی۔ پسند کی شادی ہونے کا موقع ہی نہیں مل سکا کہ اس شوخ کے سامنے کوئی ٹھہرا ہی نہیں۔ چلیے جی کچھ خواتین آئیں، رشتہ طے ہوا۔ پتہ چلا کہ صاحب ہمیں ٹی وی میں دیکھ چکے ہیں۔ ہم ان دنوں ہاؤس جاب کے ساتھ ساتھ لاہور ٹی وی کے ایک پروگرام میں کمپئیرنگ کر رہے تھے۔ سوچا شاید بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی نے کچھ نہ کچھ چھپا ہی لیا تھا۔

شادی سے پہلے ہمیں ان کی تصویر دکھائی گئی۔ بڑی بڑی آنکھیں، بھولی سی صورت اور لمبی گردن۔ ہائے اللہ، یہ تو ہماری چھوٹی بہن کا مردانہ ورژن ہیں، ہم نے ٹھنڈی سانس بھری۔ چلو جی تیار ہو جاؤ خوبصورتی کے مزید قصے سننے کے لیے۔ اپنے آپ کو خود ہی تھپکی دے کر ہم ان کے ساتھ رخصت ہو لیے۔

دلہن اچھی ہے، مگر دولہا بہت اچھا ہے۔
دولہا بہت معصوم دکھتا ہے۔
(شاید ہم زیادہ چلتر لگ رہے تھے ) ۔
دولہا دلہن سے عمر میں چھوٹا لگتا ہے۔
دولہا بہت ہینڈسم ہے۔

پہلے پہل دبی دبی زبان میں تبصرے ہوئے جو کان میں پڑے تو ہم نے سوچا بھئی ہینڈسم ہیں تو تعریف تو ہو گی۔ فوراً ٹرک ڈرائیور بھائی جان کا فارمولا یاد آیا، رشک کر، حسد نہ کر۔ جلنے والے کا منہ کالا۔

نہ بابا نہ، ایک ہماری رنگت ہی تو گوری ہے جس کو ہماری شکل میں کچھ نمبر مل جاتے ہیں۔ اب اس کو بھی گنوا دیں کیا جل جل کے۔ اور پھر ذہانت ہے نا ہمارا اثاثہ۔ چلو گولی مارو ان باتوں کو۔ رشک کر حسد نہ کر

خیر جناب یہ دنیا کسی کو بے غم کہاں رہنے دیتی ہے۔ ہماری بے فکری نے کچھ لوگوں کو فکر میں مبتلا کر دیا۔ چنانچہ ایک وقت وہ آیا جب مسجد سے اعلان کروانے کی کسر رہ گئی کہ کہ افراد خانہ کے دوست، سہیلیاں اور کولیگز تصویریں دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ دلہن عمر میں بڑی ہے اور دولہا چھوٹا۔ دیکھا آپ نے تب بھی ان موئی تصویروں سے ہی گواہی لی گئی تھی۔

سوچا اماں سے پیدائش کا حال احوال دوبارہ پوچھ لیں۔ پھر سوچا شناختی کارڈ نکال کر دیکھ لیتے ہیں بھئی۔ گھور گھور کر دونوں کے شناختی کارڈ دیکھے کہ خلق خدا جو کہہ رہی ہے، حقیقت ہے یا فسانہ؟ شناختی کارڈ نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا، کس نے کہا تھا کہ کبھی بھی عام لڑکیوں کی طرح نہ شرمانا، نہ گھبرانا، نہ لجانا، نہ خوف کھانا، حمل ہو تو نہ کوئی شکایت کرنا، نہ سنبھل کر قدم رکھنا، نہ کوئی نخرہ اٹھانا، ڈگ ڈگ کر کے چلنا، سیڑھیاں پھلانگنا اور لوگوں کی آنکھ میں دیکھ کر بات کرنا۔ دنیا کی کوئی بات تمہارے لیے نئی بات ہی نہیں تو بی بی چپ کر کے بیٹھو، لچھن جب عمر رسیدہ عورت کے ہوں تو شکایت کیسی؟ کیوں نظر آؤ تم الہڑ حسینہ؟

مرتے کیا نہ کرتے، منہ بسور کے صبر کر لیا۔ ارے ہاں یہ بتانا بھول گئے کہ ذہانت کی تب بھی تعریف ہوتی، ہر طرف ہماری کامیابی کا ڈنکا بجتا۔ ہاں شکل لیکن کچھ کم ہے۔

بچے پیدا ہوئے۔ بچے تو خیر سب ہی پیارے ہوتے ہیں لیکن چلیے مان لیجیے کہ ہمارے بچوں کے نین نقش کچھ بہتر تھے۔ آخر ننھیال میں چھوٹی خالہ اور گھر میں باپ، تو جنیاتی اثر کا کمال تو نظر آنا ہی تھا۔

اب ہمارا جی چاہتا کہ چلیں صورت تو دھوکا دے گئی اب حرکتیں کیا ہوں گی۔ دیکھیں بچے کریں گے کیا؟ سجدہ ریز ہو گئے جب ان گناہگار کانوں نے ایک دن یہ سن ہی لیا کہ شکر ہے بچے شکل میں باپ پہ گئے ہیں اور ذہانت میں ماں پہ۔

سجدے کے بعد ٹھنڈی سانس بھر کر سوچا، اف یہ ذہانت، موئی دشمن بن گئی ہماری کہ شکل تو کبھی کسی کو نظر آئی ہی نہیں۔

اب پچپن چھپن برس کی عمر میں بنا فلٹر کی تصویروں کے نیچے جب آپ کے کمنٹس پڑھتے ہیں کہ آپ کو ہم خوبصورت دکھتے ہیں تو جی چاہتا ہے کہ مشورہ دیں، حضور والا اگر عینک لگاتے ہیں تو نمبر چیک کروائیں۔ نہیں لگاتے تو آنکھیں چیک کروائیں شاید آنکھ میں جالا اتر رہا ہے۔ اور اگر آنکھیں ٹھیک ہیں تو پلیز فون تبدیل کر لیں، لگتا ہے سکرین پرانی ہو کر دھندلا گئی ہے۔

اگر آپ ہماری باتوں کی ناؤ میں بہتے بہتے یہاں تک آ گئے ہیں تو چلیے خوبصورتی کے متعلق آپ کو ایک خاصے کی تحریر سناتے چلیں۔ کتاب ہے ریت سمادھی، مصنفہ ہیں گیتانجلی شری اور انہیں حال ہی میں اس پہ بکر پرائز سے نوازا گیا ہے۔

‎تو کیا اصل خوبصورتی ہے اپنے سحر سے نا واقفیت؟ خود کو دیکھنے لگیں تو گھنی بھنووں کی کشش اور ابھری ہڈیوں کی نزاکت بٹ جاتی ہے؟ تبھی شاعر اور فقیر کہہ گئے ہیں کہ حسن اوپر سے نیچے تک کے ظاہر میں نہیں، نہ ہی احساس کو محسوس کرنے کی خواہش میں اور نہ ہی فن کی تکنیکی مہارت میں۔ بس چنگاری سی اور بے ترتیبی سی میں مضمر ہے، چاہے بد شکل ہو، ایسی معصوم روح میں ہو جو بے گناہ ہے اور اچھوتی بھی ”

بہرحال قارئین جو کچھ بھی ہے، دل تو خوش کر دیتے ہیں آپ سب، سو بہت شکریہ۔
( ہم فردا فردا شکریہ نہیں لکھ پاتے، اس لیے آپ سب کے لیے یہ بلاگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments