ہم دیکھیں گے


(گزشتہ کالم سے وابستہ) آپ نے فیض احمد فیض کی نظم ”ہم دیکھیں گے“ پڑھی ہوگی۔ ہو سکتا ہے کالج میں یا پھر جلسے میں نظم پڑھ کر سامعین کے لہو کو گرمایا بھی ہو لیکن افسوس شاعری کا یہ شاہ پارہ صرف لذت سماعت کے لیے کارآمد ہے، انقلاب کا پکوان تیار کرنے کے لیے شاعری کے علاوہ دیگر عوامل ضروری ہوتے ہیں۔ اسی کی دہائی میں ضیاالحق کے آمرانہ اقدامات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے جب اقبال بانو نے لاہور اسٹیڈیم میں یہ نظم پڑھی تو اسٹیڈیم انقلاب زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا تھا اور آج تک وہ انقلاب خود اپنی جستجو میں سرگرداں ہے۔ نعروں اور تقریروں سے انقلاب برپا ہو تا تو ہم نہ جانے اب تک کتنے انقلاب بھگت چکے ہوتے۔

ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا، مشرف کے دور میں جو وکلا تحریک چلی اس میں انقلاب کی آمد آمد کے نعرے لگتے تھے۔ تختوں کو گرانے اور تاج کو اچھالنے کے چرچے ہوتے تھے۔ دھرتی تھر تھر کانپنے کی تاریخیں دی جاتی تھیں۔ بجلی کڑ کڑ کڑکنے پر شرطیں لگتی تھیں۔ اس انقلابی دور میں ”دھرتی ہوگی ماں کے جیسی“ کی طرز کے ملی نغمے لکھے جانے لگے۔ دانشور منہ سے جھاگ اگلتے ہوئے انقلاب فرانس و روس کے قصے سناتے تھے اور سامعین کو یہ یقین دلاتے تھے کہ اب انقلاب کو سر زمین پاکستان پر لینڈ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بعد ازاں انقلاب کسی مغرور محبوبہ کی طرح دور سے اپنی ہلکی سی جھلک دکھا کر غائب ہو گیا اور ہلکی سی جھلک بھی نظر کا دھوکا ثابت ہوئی۔

اس ملک کی زمین عوامی انقلابات کے لیے بانجھ ہے کیونکہ جب قوم اندرونی طور پر ایک دوسرے کا استحصال کرنے میں مگن ہو تو پھر ان پر لازمی استحصالی گروہ ہی حکومت کرتا ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک قوم ایک دوسرے کا استحصال کرتی ہو اور ان پر حکومت کرنے والے انصاف پسند ہو۔ آدم خور قوم کا حاکم سبزی خور نہیں ہو سکتا۔ ایک استحصال پسند قوم ہمیشہ استحصال پسند حکمران پیدا کرتی ہے یعنی جیسی قوم ویسے حکمران۔ جس معاشرے میں نچلے طبقے سے اوپر تک اور اوپر سے نیچے تک استحصال ہی استحصال ہو وہاں انقلاب نہیں بلکہ صورت بدل بدل کر عذاب آتے ہیں۔ عوام ایک اندھیرے سے نکل کر دوسرے اندھیروں میں داخل ہو جاتی ہے۔ عوام ایک دھوکا کھانے کے بعد دوسرا فریب خریدنے کے لیے لائن میں لگ جاتی ہے۔

استحصال پسند قومیں اگر کوئی تبدیلی لے کر بھی آتی ہیں تو ایسی کھو کھلی تبدیلیوں کے باطن میں وہی قدیمی قومی استحصالی روح کار فرما ہوتی ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ ایک قوم استحصال پسندی و خودغرضی اور دیگر بد اخلاقیوں میں غرق ہوجاتی ہے؟ اس کی بنیادی وجہ ہے کہ جب علماء بگڑ جاتے ہیں تو قوم بگڑ جاتی ہے۔ علما ءکے بگاڑ کا اثر وسیع و گہرا ہوتا ہے۔ انانیت و نفس پرستی و تکبر میں گرفتار عالم کے پیچھے چلنے والوں پر اس کا رنگ چڑھتا چلا جاتا ہے۔ غرض قوموں کی بداخلاقی و زوال کا موضوع وسیع ہے اور ایک دو کالموں میں اس کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ بہرحال عرض یہ کرنا ہے کہ پاکستان میں اس وقت خانہ جنگی کے آثار تو نظر آرہے ہیں لیکن ایسے کسی انقلاب کی نشانیاں ظہور پذیر نہیں ہو رہیں جو ”دھرتی ہوگی ماں کے جیسی“ پر منتج ہو۔

دوسری صورت میں الیکشن کے ذریعے نرم انقلاب لانا بھی خوش فہمی ہے۔ کان کو ادھر سے پکڑو یا ادھر سے پکڑو بات ایک ہی ہے۔ الیکشن کے توسط سے استحصال پسند قوم اپنی پسندیدہ استحصال پسند سیاسی جماعتوں کو منتخب کرتی ہے اور بس۔

اب نہ انقلاب برپا ہو سکتا ہے اور الیکشن بھی بے فائدہ ہیں تو پھر ملک کا بنے گا کیا؟ اس سوال کا جواب مشہور ہالی ووڈ اداکار رچرڈ گرے سے مل سکتا ہے۔ نوے کی دہائی میں رچرڈ کی رومانوی فلم ”انٹرسیکشن“ پردہ سکرین پر جلوہ افروز ہوئی تھی۔ فلم میں رچرڈ دو عورتوں کی محبت کے درمیان ملحق رہتا ہے۔ پھر آخر میں رچرڈ ایک عورت کے ساتھ باقی زندگی گزارنے کا اٹل فیصلہ کر لیتا ہے۔ فلم میں جب ہر کردار اپنا اپنا فیصلہ کر کے بیٹھ جاتا ہے تو پھر قدرت کا فیصلہ صادر ہوتا ہے۔ رچرڈ روڈ ایکسی ڈینٹ کے باعث مر جاتا ہے اور یوں سارے کرداروں کے اپنے کیے ہوئے فیصلے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ (ختم شد)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments