تھوڑا سا آٹا مختصر سی زندگی


سوشل میڈیا پر اس وقت کراچی کے ایک چھیپا اہلکار کے ہاتھوں میں سات آٹھ سال کی بچی کی لاش کی تصویر وائرل ہو رہی ہے۔

اس تصویر میں موجود بچی کے کپڑوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس بدنصیب کا تعلق غربت کی لکیر سے بھی نیچے سانس لینے والے کسی خاندان سے تھا۔

پھٹے پرانے کپڑوں میں ننگے پیر یہ بچی بھی شاید اپنی ماں کے ساتھ دو ہزار اور راشن لینے کی خاطر وہاں پہنچ گئی جہاں اسے پیروں تلے کچل کر مرنا ہی تھا۔

اس کے کچل کر مرنے کا فائدہ اس کے خاندان کو اتنا ضرور ہوا ہے کہ ان کو سندھ حکومت کی جانب سے پانچ لاکھ روپے کی مالی امداد دی جائے گی۔

دوسری طرف لمبی لمبی قطاروں میں لگے مفت آٹے کے حصول میں لوگوں کو دیکھ کر ایسا لگتا کہ انسان نہیں بلکہ بھیڑ بکریاں ہیں۔

کہیں ان قطاروں میں دھکم پیل شروع ہوجاتی ہے تو کہیں مار پیٹ شروع ہوجاتی ہے۔

کہیں پولیس والے ان بھیڑ بکریوں کو قابو کرنے کے لیے تھپڑ رسید کر رہے ہیں تو کہیں اس مفت آٹے کی آس میں جان سے جا رہے ہیں۔

لیکن کیا کریں یہ بھوک ہے ہی اتنی ظالم یہ لوگوں کو اخلاقیات اور عزت نفس سب بھلا دیتی ہے۔

جب گھر میں بچے بھوک سے بے حال تڑپ رہے ہوں جیب میں پھٹا پرانا سو پچاس کا ایک نوٹ ہو تو ایسے میں کہیں مفت آٹا یا راشن بٹ رہا ہو تو جان کی قیمت پر کیا برا ہے۔

اس وقت تو ایسا لگتا ہے جیسے ہر طرف بھگدڑ مچی ہوئی ہے۔ ہر طرف ہی دھکم پیل ہو رہی ہے اور ہر کوئی ایک دوسرے کو کچل کر آگے بڑھ جانا چاہتا ہے۔

ہماری سیاسی اشرافیہ کو تو سوائے اپنی اقتدار کی لڑائی کے کچھ نظر نہیں آ رہا۔ کوئی عدلیہ کو اپنا قبلہ کعبہ بنا کر بیٹھا ہے تو کوئی اسٹیبلشمنٹ کی نظر کرم پر اترا رہا ہے۔

پورا ملک ایک ہیجان میں مبتلا ہے، کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ ہو گا کیا۔

ہماری معزز عدالتیں سیاستوں میں الجھی ہوئی ہیں۔ کہیں حکومتی فیصلوں پر سوموٹو ہو رہے ہیں تو کہیں آپس کے جھگڑے چل رہے ہیں۔

ہمارے عدل کے ایوانوں میں کہیں بھی تو کسی غریب کی پکار نہیں پہنچ رہی کہ اس پر بھی کوئی سوموٹو ہو۔

مہنگائی ہے ہر روز بڑھتی چلی جا رہی ہے اس کو روکنے کا کوئی بھی راستہ کم از کم اس حکومت کے پاس تو نظر نہیں آ رہا ہے۔

ادھر عوام ہے نہ اس کے پاس گیس ہے، نہ بجلی ہے اور نہ ہی پانی ہے۔
کاروبار تو وہ ٹھپ پڑا ہے، نوکری تو اس کے لالے پڑ گئے ہیں کریں تو کیا کریں جائیں تو جائیں کہاں۔

ہاں مگر پٹرول ہو یا ڈالر ہو یا پھر روزمرہ استعمال کے لیے کھانے پینے کی چیزیں سب کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں۔

لوگوں کو ایک وقت کی روٹی نصیب ہو جائے تو وہ اس پر شکر ادا کر رہے ہیں کہ چلو آج فاقے کی نوبت نہیں آئی۔

مارکیٹ میں آٹا پہلے غائب ہوا پھر اس کے بعد اس کی قیمتیں لوگوں کی پہنچ سے باہر۔

اس کا حل حکومت نے مفت آٹا اسکیم کی صورت میں نکالا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام اب روز آٹے کی قطاروں میں دھکے کھا رہی ہے۔ کہیں بھگدڑ میں کچل کر مر رہی ہے۔

کہیں آٹے کے ٹرک لٹ رہے ہیں تو کہیں آٹے کی چھینا جھپٹی میں بچے اور عورتیں بھی زخمی ہو رہے ہیں۔
روز ہی یہ تماشا لگا ہوا ہے لیکن نہ کوئی پوچھنے والا ہے نہ کوئی دیکھنے والا۔

رمضان میں صاحب حیثیت افراد راشن اور زکٰوۃ بانٹتے ہیں نظر جھکا کر سفید پوش ان قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری آنے پر راشن اور زکٰوۃ لے کر گھر چلے جاتے ہیں۔

مگر ان قطاروں میں لگے لوگوں کو یہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں راشن ختم نہ ہو جائے، کہیں آٹا ختم نہ ہو جائے، کہیں زکٰوۃ کے نام پر ملنے والے ہزار دو ہزار ختم نہ ہوجائیں۔

اس لیے ان قطاروں میں دھکم پیل ہوتی ہے، بھگدڑ مچ جاتی ہے جان جائے تو جائے لیکن ایک راشن کا تھیلا مل جائے۔

مختصر سی زندگی کی قیمت اگر تھوڑا سا آٹا ہے جس سے بلکتے بچوں کا پیٹ بھر جائے تو یہ سودا برا تو نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments