خستہ حال زرتشتی آتش کدہ، سکھر


زرتشتی مذہب ایران کا قدیم مذہب رہا ہے اس مذہب کے پیروکاروں نے بعد میں خود کو پارسی کہلوانا شروع کیا۔ اس مذہب کے لوگ آگ کی پوجا یا پرستش کرتے ہیں۔ ان کے مذہب میں دخمہ (Tower of silence) اور آتش کدہ ( Fire Temple) اہم ہوتے ہیں۔ اس مذہب میں گدھ پرندہ پاکیزہ سمجھا جاتا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا پرٹینیکا ویب پیج کے مطابق زردشت ( 551۔ 628 ق۔ م) ایران کا فلسفی تھا جس کو کارل بیکس کی کتاب سیٹان (شیطان) ، فیکٹ آر فکشن (ص۔162، 2004 ء) کے مطابق دارا اول ( 522۔ 484 ق۔ م) کے زمانے میں سرکاری طور پر مذہب اور زردشت کو نبی مانا گیا۔ دارا اول کے دور میں زردشتی مذہب سندھ اور ہندوستان میں پھیلا۔ انسائیکلوپیڈیا برٹینکا کے مطابق ایران کے ساسانی دؤر ( 651۔ 224 ع) میں زردشتی مذہب حقیقی طور پر زردشت کی تعلیمات کا ترجمان بنا۔ ساسانی دؤڑ میں یہ مذہب ایران میں عروج پر رہا اور اسے سندھ میں تقویت حاصل ہوئی۔

کتاب نوبل پرافٹ حضرت محمد صلعم (ص۔ 11 ) میں 637 ء میں جنگ قدسیہ کا ذکر ہے۔ یہ جنگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ایران سے ہوئی تھی اور مسلمانوں نے فتح حاصل کی تھی۔ مسلمانوں نے زردشتیوں کو زبردستی اسلام قبول کرنے کے لیے دٻاء ڈالا تھا مگر زردشتیوں نے انکار کیا تھا۔

سیلبی میک کالینڈ اپنی کتاب رلیجن آف ورلڈ ص۔ 146، 1969 ء میں لکھا ہے کہ انکار کی وجہ سے مسلمانوں نے انہیں ”گبر“ کہا تھا جس کا مطلب ہے ناستک یا کافر۔ مصنف جے پی پنجوانی 2017 ء کی کتاب مینی پاتھس ون گول میں لکھا ہے کہ گبر کے نتیجے میں زردشتیوں نے خود کو ”بحادین“ کہا۔ جس کا مطلب ہے تازہ یا اعلی مذہب والے۔ مینا لیر کی کتاب فیتھ اینڈ فلاسفی آف زردشت ازم، 2009 ء، ص۔ 44 پر درج کیا ہے کہ زردشتیوں نے اپنے راز یا بات جیت چھپانے کے لیے رابطے کی نئی زبان ”دری“ ایجاد کی اور اس میں بولنے لگے۔ روز مرہ میں دری زبان میں بات کرنے لگے۔ دری زبان آج بھی ایران میں بولی جاتی ہے۔ بعد میں قیاس کے ذریعے مسلمانوں نے زردشتیوں کو اہل الکتاب قرار دیا۔ مقصد کہ زردشت کو نبی اور ان کی تعلیمات کو الہامی قرار دیا گیا۔

برٹینکا کے مطابق اس کے باوجود بھی زردشتیوں نے خود کو محفوظ نہیں سمجھا اور نقل مکانی کی۔ پہلے ایرانی گلف کے قریب آباد ہوئے۔ 8 صدی عیسوی سے 10 عیسوی تک برصغیر کی طرف نقل مکانی کی۔ جیزی ایس پالسیٹیا کی کتاب، دی پارسیز آف انڈیا، 2001 ء میں درج ہے کہ پارسی زردشتیوں کی پچھلی نسل ہے جو آباء اجداد کے زردشتی مذہب کو بچانے کے لیے ہندوستان میں آئی تھی۔

سندھ میں پارسی یا زدژشتی مذہب کے قدیم آثار ملے ہیں۔ یہ آثار قدیمہ سندھ کے ضلع جامشورو اور دادو میں ہیں۔ سندھ کے کھیرتھر پہاڑی سلسلے میں پتھروں پر بھی نقش ہیں۔ ان آثار پر میرے تحقیقی مضامین انگریزی اور سندھی زبان میں شایع میری کتابوں میں شامل ہیں۔ مگر زیر بحث سکھر کے آتشکدے پر کم لکھا گیا ہے۔ سکھر شہر میں دوسرے تاریخی مقامات ساتھ ساتھ یہ آتش کدہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔ سندھ کے شہر کراچی میں بھی انگریز دؤر کے پارسیوں یا زردشتیوں کے آتش کدے (Fire Temple) اور خاموشی کے برچ (Tower of silence) ہیں۔

سکھر شہر میں بھی برطانیہ راج کے دؤر میں پارسی آتش کدہ 1923 ء میں تعمیر کیا گیا جو والنس روڈ سکھر کے قریب واقع ہے۔ اس کے قریب جامع اشرافیہ (مسجد) اور فائر بریگیڈ اسٹیشن ہے اور روڈ کے دوسرے طرف سینٹ سئیئر کا چرچ ہے۔ اس آتش کدے کی دیار پر مامۂ پارسی لکھا ہوا ہے۔ عمارت کی ایریا بہت پڑی ہے۔ عمارت کے اندر اور باہر دیوار ہر پارسیوں کے خدا آہر مزدا (Ahur Mazda) کی تصویریں نقش ہیں۔ عمارت کے اندر کمرے میں آگ جلانے اور پرستش کا چھوٹا آتش کدہ ہے جس کے اوپر آہرمزدا کی تصویر آویزاں ہے۔

باقی عمارت دھرم شالے کی طرح رہائش کے لیے کمرے ہیں۔ پارسیوں کی اخبار ”خبر پارسی“ کے مطابق 1950 ء کی دہائی میں پارسی سکھر سے مکمل طور پر چلے گئے تھے۔ اب آتش کدہ کی عمارت اور ایراضی پر مقامی لگوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ یہ سندھ کا تاریخی ورثہ ہے۔ سیاحت، ثقافت اور نوادرات کھاتے سندھ کو چاہیے کہ قبضہ ختم کروائے اور سکھر کے اس تاریخی ورثے کی درست حالی اور بحالی کے لیے قدم اٹھانے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments