لتا جی کی کرکٹ سے محبت کا راز


عجب اتفاق ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم نے اس وقت بھارتی سرزمین پر قدم رکھا۔ جب بھارت کے عظیم گلوکارہ لتا منگیشکر کا جنم دن تھا یعنی 28 ستمبر۔

مجھے بے اختیار 1983 میں برطانیہ میں منعقد ہونے والا کرکٹ ورلڈ کپ یاد آ گیا۔ اس ورلڈ کپ کو بھارتی کرکٹ ٹیم نے 25 جون 1983 کو لارڈز کے میدان میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم کو شکست دے کر جیت لیا تھا۔

آج ہندوستانی کرکٹ بورڈ دنیا کا سب سے طاقتور کرکٹ بورڈ ہے اور ہندوستانی کرکٹ کے کھلاڑی دنیا کے امیر ترین کھلاڑیوں میں شامل ہیں۔ لیکن 1983 میں صورتحال اس کے برعکس تھی۔ ہندوستانی کرکٹ بورڈ اپنی فاتح ٹیم کی وطن واپسی پر ایک شاندار تقریب کا اہتمام کرنا چاہتا تھا۔ لیکن بورڈ بری طرح فنڈز کی کمی کا شکا ر تھا۔ حد تو یہ تھی کہ ہندوستان کے کرکٹ بورڈ کے پاس اتنی رقم یا فنڈز سے نہیں تھے کہ وہ اپنے کھلاڑیوں کو وطن واپسی کے بعد انفرادی طور پر معقول انعام دے سکیں۔ 1983 میں این۔ کے۔ پی سالوے ہندوستانی کرکٹ بورڈ کے صدر تھے۔ انہوں نے اس سلسلے میں راج سنگھ ڈونگر پور سے رابطہ کیا۔ وہ فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے والے راج سنگھ ڈونگر پور کے دوست تھے۔ راج سنگھ، ریاست ڈونگرپور کے شہزادے تھے۔ ان کی ریاست راجستھان کے علاقے میں تھی اور 1947 میں بھارت کے صوبہ راجھستان میں ضم کر دی گئی تھی۔ راج سنگھ اور ان کے خاندان کے آج بھی شاہی ٹھاٹ باٹھ برقرار تھے اور راج سنگھ نہ صرف فرسٹ کلاس کرکٹ کے کھلاڑی تھے بلکہ کرکٹ کے دلدادہ بھی تھے۔ لیکن وہ بھی اتنی بڑی رقم فراہم کرنے سے قاصر تھے۔ تب راج سنگھ نے لتا منگیشکر سے اس مقصد کے لئے رقم اکٹھا کرنے کے لیے دہلی میں ایک موسیقی کا پروگرام کرنے کی درخواست کی۔ لتا منگیشکر نے راج سنگھ کے کہنے پر فوراً دہلی کے جواہر لعل نہرو اسٹیڈیم میں دو گھنٹے طویل میوزیکل کنسرٹ کرنے کی حامی بھر لی۔ اس پروگرام سے 20 لاکھ روپے کی آمدنی ہوئی۔ جو اس زمانے میں ایک خطیر رقم سمجھی جاتی تھی اور یہ چودہ رکنی ہندوستانی ٹیم کو قابل ذکر اعزازات سے نوازنے کے لیے کافی تھی۔ ہندوستانی کرکٹ بورڈ نے اس رقم کی فراہمی کے بعد پوری کرکٹ ٹیم کو ایک لاکھ روپے فی کس کی نقد رقم سے نوازا۔

لتا منگیشکر ایک پیشہ ور گلوکارہ تھیں، ان کا وقت بھی بہت قیمتی ہوتا تھا۔ وہ اتنی آسانی سے راج سنگھ کی بات کیسے مان گئیں۔ یہ ایک بڑی رومانوی لیکن دل شکستہ حقیقی داستان ہے۔ راج سنگھ ڈونگر پور 1955 میں اندور سے گریجویشن کرنے کے بعد قانون کی تعلیم حاصل کرنے بمبئی چلے آئے تھے۔ وہاں ان کی ملاقات لتا منگیشکر کے بھائی ہردی ناتھ سے ہوئی۔ دونوں ہی کرکٹ کھیلنے کے شوقین تھے جلد ہی یہ دونوں بے تکلف دوست بن گئے۔ شہزادہ راج سنگھ اکثر ہردی ناتھ کے ساتھ ان کے گھر بھی چلے جاتے تھے۔ اس طرح یہ دوستی خاندانی مراسم کی شکل اختیار کر گئی۔ گھر پر لتا منگیشکر بھی ان دونوں کی بیٹھک میں شریک ہونے لگیں۔ لتا کرکٹ کی شیدائی اور راج سنگھ ڈونگر پور موسیقی کے دلدادہ۔ گھر کی بیٹھک میں یہ ملاقاتیں جن میں عام طور پر کرکٹ کے کھیل اور موسیقی کے اسرار و رموز پر گفتگو ہوتی تھی جلد ہی ایک دوسرے کی شخصیت میں دلچسپی لینے کا باعث بن گئیں۔ کرکٹ اور موسیقی کے اس تال میل کو دیکھتے ہوئے کیوپڈ کے دیوتا کو تیر چلانے کا موقع فراہم کیا اور یہ تیر ان دونوں کو گھائل کر گیا۔ ان کی ابتدائی دوستی بہت جلد محبت میں بدل گئی۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد راج سنگھ، ڈونگر پور واپس اپنی ریا ست آئے اور اپنے بزرگوں سے لتا منگیشکر سے شادی کرنے کی اجازت طلب کی۔ راج سنگھ کے بزرگوں کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ وہ چاہتے تھے کہ راج سنگھ کی شادی کسی شاہی خاندان میں ہی کی جائے۔ راج سنگھ ڈونگر پور کو خاندانی دباؤ کے سامنے جھکنا پڑا اور آخر کار ان کو اس شادی کا ارادہ ترک کرنا پڑا تاہم انہوں نے زندگی بھر کنوارہ رہ کر اپنی محبت کی کہانی کو امر کر دیا۔ دوسری طرف لتا جی نے بھی زندگی بھر شادی نہیں کی۔ راج سنگھ لتا منگیشکر کو پیار سے ’مٹھو‘ کہتے تھے۔

یہ دونوں شادی کے بندھن میں تو نہیں بندھ سکے لیکن راج سنگھ، لتا کے ساتھ دنیا بھر میں کرکٹ میچ دیکھتے ہوئے ہمیشہ ان کے برابر والی نشست پر پائے گئے۔ لتا جی کی جنٹلمینز کے کھیل کرکٹ سے محبت کہہ لیں یا کرکٹ کے جنٹلمین سے محبت کا شاخسانہ، لتا کی کرکٹ سے دلچسپی بھی والہانہ عشق میں تبدیل ہو گئی اور شاید یہ ہی وہ ازلی درد تھا جو لتا جی کی رگوں میں سرایت کر گیا جس کا اظہار انہوں نے راج سنگھ کے انتقال کے فوراً بعد مشہور شاعر اور فلمی کہانیوں کے لکھاری جاوید اختر کو انٹرویو دیتے ہوئے کچھ اس طرح سے کیا کہ ”میں اگلے جنم میں لتا نہیں بننا چاہوں گی کیونکہ لتا کے درد لتا ہی جانتی ہے۔“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments