محکوم قوم اور معمار قوم


ایک دفع کا ذکر ہے کہ ایک بہت بڑے جنگل کے ایک چھوٹے سے سرحدی علاقے میں گیدڑوں کا جتھا رہتا تھا۔ ان کے پاس آمدن کے کوئی خاص وسائل موجود نہیں تھے اس لیے انہیں اکثر و بیشتر اپنے گزر بسر کے لئے وہاں کی سردار لومڑی سے قرضہ لینا پڑتا تھا۔ اس قرضے کو وہ اکثر فضول قسم کی پالیسیوں میں اڑا دیا کرتے تھے۔ لومڑی رانی ہی نے ان کو ایک مخصوص نظام تعلیم دیا ہوا تھا اور وہ اس پر من و عن عمل کرتے چلے آ رہے تھے۔ تبھی اس علاقے سے بطخوں کے غول کا گزر ہوا۔

وہ پڑھی لکھی اور عقلمند بطخیں تھیں جب انہوں نے گیدڑوں کی حالت دیکھی تو انہوں نے اس جھنڈ کو پڑھانے کی ٹھان لی۔ آہستہ آہستہ ان گیدڑوں میں کچھ عقلمند گیدڑ پیدا ہونے شروع ہو گئے۔ لیکن تبھی لومڑی کے جاسوس گیدڑ جو کہ اس جھنڈ کے بڑے عہدوں پر بھی موجود تھے فوراً لومڑی کے پاس جا پہنچے اور ساری روداد کہہ سنائی۔

لومڑی کو یہ بات بہت کھٹکی اس نے فوراً گیدڑوں کو قرضہ دینا بند کر دیا۔ اب جب گیدڑوں کی پنچایت جڑی تو ان کے محکمہ دفاع، محکمہ صحت، بیوروکریسی اور دوسرے تمام تر اداروں نے اس ناراضگی کی وجہ بجٹ کا چھوٹا سا حصہ بطخوں کو تنخواہوں کی مد میں دیا جانا بتایا۔ دن بدن حالات خراب ہو رہے تھے لومڑی کے نمک حلال گیدڑ معاشی بدحالی کا رونا روتے رہتے اور گیدڑ راجہ کو دیوالیہ ہونے سے ڈراتے رہتے۔ آخر کار ایک دن لومڑی کے بھیجے گئے وفد اور راجہ گیدڑ کی کابینہ میں موجود لومڑی رانی کے نمک حلال گیدڑوں میں یہ طے پایا کہ بطخوں کو دی گئی بالکل سطحی سی مراعات بھی واپس لے لی جائیں گی، تنخواہوں میں اتنی کمی کی جائے گی کہ ان کا گزارا مشکل ہو جائے۔ اور اگر وہ احتجاج کو نکلے تو یہ اور بھی اچھا ہو گا اسی بہانے ان کی نوکریاں بھی چھین لی جائیں گی۔

ان سب فیصلوں میں اسی بطخ برادری کے پڑھائے ہوئے گیدڑ بھی پیش پیش تھے اور چند ٹکوں کی خاطر بطخ برادری کے تمام تر احسانات کو بھلانے کے لئے تیار تھے۔ آخر کار وہی ہوا جس کا لائحہ عمل تیار کیا گیا تھا۔ وہ دن آن پہنچا جس دن تمام تر بطخ برادری کو یوں تنہا کر دیا گیا ان کی بنیادی سہولیات بھی ان سے چھین لی گئیں۔ بطخ برادری جب سڑکوں پر نکلی تو لومڑی رانی اور گیدڑ راجہ کے ذاتی میڈیا چینلز اور اخبارات نے اس معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کی۔ یہاں تک کہ کچھ گیدڑوں نے تو بطخوں کو حرام خور، ہڈ حرام اور کرپٹ تک کہہ ڈالا۔

بطخ برادری ابھی تک اس احسان فراموش قوم اور اس پر مسلط غلام حکمرانوں سے اپنے مطالبات منوانے کے لئے سڑکوں پر ہے۔ لیکن یہ احسان فراموش، ذہنی غلامی میں مبتلا اور سرمایہ دارانہ نظام کے چیلے ان کو ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی تو درکنار چند گنی چنی اور نہ ہونے کے برابر سہولیات کو بھی ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ تا کہ ان کو کم علمی، کوتاہ فہمی، مایوسی اور غلامی کی ازلی نیند سے کوئی دوبارہ جگانے کی ہمت نہ کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments