سپریم کورٹ اور پی ٹی آئی: لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا۔


سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے بعد تحریک انصاف سے انتخابی نشان بلا واپس لے لیا۔ مئی 2021 سے پی ٹی آئی کو پارٹی انتخابات کروانے کا کہا جا رہا تھا، اسے غیر معمولی رعایت دیتے ہوئے جون 2022 ء تک کا وقت دیا گیا۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے باقاعدہ نوٹس جاری ہوئے، ایک سے زائد مرتبہ وارننگ دی گئی کہ اگر انٹراپارٹی الیکشن نہ کرائے گئے تو انتخابی نشان نہیں ملے گا۔

اس کے باوجود جعلی انتخابات کی حماقت کی گئی۔ انتخابات پشاور کے نواحی علاقے چمکنی کے گاؤں ”رانو گڑی“ میں کرائے گئے۔ اس کا درست نامپی ٹی آئی والوں کو بھی معلوم نہ تھا۔ سپریم کورٹ کی پٹیشن میں ”گانو گڑھی“ لکھا گیا۔ انتخابی نشان کی واپسی سے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لینا ہو گا ’اور وہ 227 مخصوص نشستوں اور سینٹ الیکشن سے بھی محروم ہو سکتی ہے۔ کیونکہ سینیٹ الیکشن میں جماعتی طور پر ہی حصہ لیا جاتا ہے۔

تحریک انصاف کے چیئرمین 2021 ء سے انٹراپارٹی الیکشن میں سنجیدہ نہیں تھے، اپنے دور حکومت میں انٹرا پارٹی الیکشن سے لاتعلقی ظاہر کی۔ اپنے دور میں ہی الیکشن کرا دیتے تو پارٹی قومی دھارے سے باہر نہ ہوتی۔ انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے چیف الیکشن کمشنر نے جو موقف اختیار کیا، اس سے انٹرا پارٹی الیکشن کی اہمیت اجاگر ہوئی اور آئندہ سیاسی جماعتوں کو سبق حاصل ہو گا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں یہی کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے اپنے دستور کے مطابق الیکشن نہیں کرائے۔

اسی فیصلے کی روشنی میں چیف جسٹس تحریک انصاف کے وکلاء سے سوالات کرتے رہے جن کی وضاحت وہ نہ کر سکے۔ الیکشن کمیشن پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل نہ کرتا تو اس کی حیثیت ایک پوسٹ آفس کی رہ جاتی۔ پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے اختیارات کو سوالیہ نشان بنا دیا تھا حالانکہ الیکشن ایکٹ اور رولز کی دفعات 208 ’209، 215 158 اور 159 الیکشن کمیشن کو اختیارات تفویض کرتی ہیں۔ جمہوریت ایک بنیادی حق ہے جو عوام اور سیاسی جماعت کے ممبران کو بھی دیا جانا چاہیے۔ چیف جسٹس نے یہ کہہ کر کہ جمہوریت میں جماعتی عہدیداران کا انتخاب پارٹی ممبران کے ووٹ سے ہونا ضروری ہے، ایسا نہ کرنا آمریت ہے۔ ملک میں پون صدی میں حقیقی جمہوری نظام قائم نہ ہونے کے ایک بنیادی سبب کی نشاندہی کی ہے۔

فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی رجسٹریشن الیکشن ایکٹ کی دفعہ 209 کے تحت ختم ہو چکی ہے۔ بلے کا نشان اب بیلٹ پیپر پر نہیں ہو گا تحریک انصاف کے امیدوار 266 قومی اور 593 صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیں گے۔ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کے فیصلے انوکھے نہیں کیونکہ ماضی میں چیف الیکشن کمشنر سردار رضا نے غالباً 2017 میں انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کو بلے کا نشان نہیں دیا تھا۔

پیپلز پارٹی کا اولین انتخابی نشان تلوار تھا لیکن بے نظیر بھٹو نے تمام الیکشن تیر کے انتخابی نشان پر لڑے کیونکہ ضیا دور میں انتخابی نشانات کی فہرست سے تلوار کا نشان غائب کر دیا گیا تھا، یوں پیپلز پارٹی بھی اپنے نشان سے محروم ہوئی۔ تحریک انصاف کا 1997 کے الیکشن میں انتخابی نشان چراغ تھا۔ بعد میں بلے کا نشان، کرکٹ ورلڈ کپ کے ساتھ جوڑ کر لیا گیا۔ 2017 میں سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں نواز شریف کو نا اہل کیا تو سزا یافتہ ہونے پر نواز شریف پارٹی سربراہ نہ رہے تو ان کے 2018 کے سینیٹ الیکشن میں جاری کردہ ٹکٹ والے امیدوار آزاد متصور ہوئے۔

بڑے بڑے وکلاء کی موجودگی میں بھی تحریک انصاف اپنا کیس اس لیے ہاری کہ وہ انٹرا پارٹی الیکشن قانونی تقاضوں کے مطابق نہ کروا سکی۔ عمران خان سمیت تحریک انصاف کی قیادت کو دوسروں پر انگلیاں اٹھانے کے بجائے اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے کہ پارٹی اور اس کے رہنماؤں سے کہاں کہاں بلنڈرز ہوئے۔ مقدمہ کی طویل بحث میں صاف دکھائی دیا کہ تحریک انصاف کا کیس بہت کمزور تھا، وکیلوں کے پاس نہ ثبوت تھے نہ مضبوط قانونی نکات۔

سارا کیس سیاسی پہلو پر لڑا گیا اور بار بار کہا گیا کہ اتنی بڑی سیاسی پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم کرنے کا سیاست، جمہوریت اور سسٹم کو بہت نقصان ہو گا۔ سپریم کورٹ کے تین ججوں نے متفقہ طور پر قانونی فیصلہ دیا سیاسی نہیں۔ سیاسی فیصلہ کیا جاتا تو کہا جاتا کہ یہ تو سیاسی فیصلہ ہے جس میں قانون اور آئین سے ایک لاڈلے کی خاطر پہلو تہی کی گئی۔ اگر تحریک انصاف الیکشن کمیشن کے بار بار کہنے پر انٹرا پارٹی الیکشن کروا دیتی تو یہ مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو برا بھلا کہنے اور ان کی ٹرولنگ کرنے سے تحریک انصاف اپنے آپ کو تو دھوکہ دے سکتی ہے، لیکن کیا یہ درست نہیں کہ بار بار مواقع دینے کے باوجود انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرایا اور جب کرایا تو وہ محض کاغذی کارروائی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے موجودہ مقدمے سمیت تمام اہم مقدمات کی سماعت کو ’لائیو‘ کیا، یہ شفافیت کی انتہا ہے۔ وہ ایک ایک دلیل کا قانون کے مطابق جواب دیتے ہیں۔

تحریک انصاف کو اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی مول لیتے ہوئے یہ توقع رکھنا کہ اس کی لڑائی چیف جسٹس فائز عیسیٰ لڑیں حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ کسی دباؤ میں فیصلے کرتے ہیں نہ اسٹیبلشمنٹ سمیت کسی سے خوفزدہ ہوتے ہیں بلکہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف فیصلے بھی دیے۔ چیف جسٹس بننے کے بعد گزشتہ چند مہینوں میں اسٹیبلشمنٹ کے متعلق فیض آباد دھرنا کیس سمیت مشکل مقدمات جو سابق چیف جسٹسز نے فائلوں میں دبا دیے تھے کھول کر کھلی عدالت میں سنا اور ایکشن لیا۔

پرویز مشرف کے پھانسی کے فیصلے کی بحالی، مسنگ پرسنز کا معاملہ، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرنا اور بھٹو پھانسی ریفرنس کو زندہ کرنا تاکہ عدلیہ کے ماتھے پر لگی نصف صدی سے زیادہ کی کالک کو دھویا جا سکے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے اسٹیبلشمنٹ کی مبینہ حمایت سے عمران خان کی حکومت میں اپنے خلاف ریفرنس کا بڑی جرات مندی سے مقابلہ کیا اور تمام الزامات کو کھلی عدالت میں غلط ثابت کیا۔

عدالتوں کا بنیادی کام انصاف کی فراہمی ہے۔ عدالتیں چہرہ نہیں قانون دیکھ کر فیصلہ کرتی ہیں۔ مگر بدقسمتی سے گزشتہ چند برسوں میں ہماری اعلیٰ ترین عدلیہ نے چہرے دیکھ کر فیصلے کیے ۔ آئین کے بجائے ”بلیک لاء ڈکشنری“ کا سہارا لیا گیا۔ عوامی نمائندوں کو ”سسیلین مافیا“ اور ”گارڈ فادر“ جیسے القابات سے نوازا گیا۔ چہرہ پسند نہ آیا تو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نا اہل کر دیا گیا اور چہرہ پسند آ یا تو اس کی غیر قانونی تعمیرات جائز ٹھہرا دیں۔

”منی ٹریل“ میں ایسے بینکوں کے کاغذ تسلیم کیے جنہیں بند ہوئے دو دہائیاں ہو چکی تھیں۔ سابق چیف جسٹس کھوسہ نے ایکسٹینشن نہ دینے پر شریف فیملی کے خلاف فیصلے دیے۔ ثاقب نثار کے بھائی ڈاکٹر ساجد نثار گردے ٹرانسپلانٹ کے مریضوں کو بھاری کمیشن لے کر انڈیا بھیجتے تھے۔ شہباز شریف نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ بنا دیا اور غریبوں کا مفت علاج ہونے لگا۔ بھائی کا کاروبار متاثر ہو نے پر ڈاکٹر سعید کو گھر اور کورٹ بلا کر ذلیل کیا اور دھمکیاں دیں۔

اعجاز الاحسن، جو استعفیٰ دے چکے۔ ان کے بھائی اظہار الاحسن کو حسین نواز نے اتفاق فاؤنڈری کی ملازمت سے نکالا تو بھائی کا بدلہ جج بن کر اتفاق فاؤنڈری کے مالک کے خلاف فیصلے دے کر لیا۔ بعض دانشور بھی یہ چاہتے ہیں کہ قاضی فائز عیسیٰ بھی قانون نہیں بلکہ چہرہ دیکھ کر فیصلہ کریں۔ لیکن قاضی فائز عیسیٰ کا مسئلہ یہ ہے کہ سامنے ان کا بیٹا بھی ہو، وہ پھر بھی انصاف پر مبنی فیصلہ کرنے کے قائل ہیں۔ انصاف ہمیشہ قانون پر عمل کرنے سے ملتا ہے، اسی لیے اس مرتبہ فیصلہ ہضم کرنے میں دقت پیش آ رہی ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ تحریک انصاف کو رعونت لے ڈوبی جس کے باعث اس نے انٹرا پارٹی الیکشن کو اہمیت نہ دی اور، جب کرائے تو قانونی تقاضے پورے نہ کیے اور مومن خان مومن کے الفاظ میں :

الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا۔ کی عملی تصویر بن گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments