تاریک جمہوری تاریخ اور عام انتخابات


الیکشن یعنی عام انتخابات ایک انتخابی عمل ہے۔ جس میں ریاست کی حکومت منتخب کی جاتی ہے اور عام انتخابات میں پورے ملک میں تمام نشستوں پر نئے انتخابات کرائے جاتے ہیں اور نئے سرے سے نئے لوگوں کو اقتدار کی کرسی سونپی جاتی ہے۔ پاکستان کا قیام کسی مسلح مزاحمت کے تحت وجود میں نہیں آیا تھا بلکہ برطانوی ہندوستان میں منعقد کرائے جانے والے انتخابات جو 1946۔ 1945 میں ہوئے تھے اس میں مسلم لیگ نے مسلم اکثریت والے علاقوں میں کامیابی حاصل کی تھی اور اسی بنا پر پاکستان کا قیام سیاسی عمل کے تحت وجود میں آیا تھا۔

لیکن پاکستان بننے کے فوراً بعد ہی ہمیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ اور کچھ عرصے بعد ہی پاکستان کے بننے والے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کا سانحہ بھی پیش آیا۔ ان تمام عوامل نے ہمارے سیاسی نظام میں بھونچال بنائے رکھا اور ہمیں قومی سطح پر عام انتخابات کرانے میں ایک طویل عرصہ لگ گیا۔ جس کی وجہ سے 1956 میں پاکستان کا پہلا باقاعدہ آئین بنا۔ لیکن سیاسی صورت حال مستحکم نہ ہونے کی وجہ سے دو برس کے قلیل عرصے بعد ہی یہ آئین منسوخ ہو گیا۔

آئین سازی کے عمل اور عام انتخابات کے عمل میں ہونے والی تاخیر کی وجہ سے پاکستان کو قیام عمل کے بعد شروع میں کئی سال قانونی اور سیاسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے پاکستان کی ترقی کا عمل بھی التوا کا شکار رہا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی کئی سالوں تک ہم وہی انگریزوں کے بنائے ہوئے قوانین اور آئین کے مطابق اپنے آئینی اور سیاسی نظام کی ٹوٹی ہوئی بھاگ دوڑ کو سنبھالنے کی کوشش کرتے رہے۔ کیونکہ جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا تو اس وقت یہی طے ہوا تھا کہ جب تک ریاست میں آئین سازی کا عمل مکمل نہیں ہوتا اس وقت تک انگریزوں کا 1935 کا نظام حکومت گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت چلے گا۔

آزادی ایکٹ کے تحت جو دستور ساز اسمبلی پاکستان میں بنائی گئی اس میں 69 ارکان شامل تھے ان میں 44 بنگال، 17 پنجاب، 4 سندھ، 3 شمالی مغربی سرحدی صوبے اور ایک کا تعلق بلوچستان سے تھا۔ پاکستان بننے کے بعد دستور ساز اسمبلی میں 10 ارکان کا اضافہ کیا گیا۔ جس میں 6 نشستیں باہر سے آئے ہوئے مہاجرین بھائیوں کے لیے مختص کی گئی تھیں۔ پاکستان کی آئین سازی کا عمل ارکان کے اختلاف رائے کی وجہ سے طویل التوا کا شکار رہا۔ 79 میں سے 60 ارکان کا تعلق مسلم لیگ سے تھا۔ 1951 میں قائد ملت کی شہادت کے بعد اس وقت کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے اپنا عہدہ چھوڑ کر وزارت عظمی کی کرسی سنبھال لی تھی اور غلام محمد گورنر جنرل بن گئے تھے۔

پاکستان کی تاریخ کا پہلا صوبائی الیکشن مارچ 1951 میں پنجاب میں ہوا جس میں مسلم لیگ نے بھاری اکثریت کے ساتھ بازی لی۔ اس الیکشن میں بھی سلیکشن اور بے ضابطگیوں کے الزامات سامنے آئے لیکن اس کے باوجود سرحد اور سندھ نے بھی مسلم لیگ نے کامیابی حاصل کی اس وقت بھی دھاندلی اور سرکاری وسائل استعمال کرنے کے الزامات سامنے آئے تھے۔ مشرقی بنگال کے انتخابات 1954 میں ہوئے جس میں مسلم لیگ کا بنگال سے صفایا کر دیا گیا تھا۔

اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے 24 اکتوبر 1954 کو دستور ساز اسمبلی تحلیل کر کے ملک میں مکمل ہنگامی حالات نافذ کر دیے تھے۔ ان کے اس فیصلے کو سندھ چیف کورٹ میں اس وقت کے اسپیکر مولوی تمیز الدین نے چیلنج کیا اور کالعدم قرار دینے کے لیے استدعا دائر کی تھی۔ یہ فیصلہ تو کالعدم قرار نہیں دیا گیا لیکن غلام محمد خان صاحب کو نہ چاہتے ہوئے بھی دوسری دستور ساز اسمبلی کے لیے کنونشن منعقد کرنا پڑا۔ صوبائی انتخابات کے بعد بنگال میں مسلم لیگ کی شکست سے اس کی اکثریت ختم ہو گئی تھی۔

دوسری دستور ساز اسمبلی میں 80 نشستیں تھیں۔ اس کا پہلا اجلاس 7 جولائی 1955 میں ہوا اسی دوران ایک ون یونٹ کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں بلوچستان سرحد پنجاب اور سندھ کو ملا کر مغربی پاکستان کا نام دیا گیا اور مشرقی بنگال کا نام مشرقی پاکستان تبدیل کر کے رکھ دیا گیا۔ دونوں ہی حصوں میں اس کی کافی مخالفت ہوئی۔

1956 کے آئین میں دونوں حصوں کو قومی اسمبلی میں یکساں نمائندگی دی گئی تھی۔ 1958 میں ہونے والے آئینی انتخابات کو بڑھا کر فروری 1959 تک کر دیا گیا لیکن اندرونی سازشوں کے جاری سلسلے کی وجہ سے الیکشن سے پہلے اسکندر مرزا نے 1958 میں آئین توڑ کر مارشل لاء لگا دیا۔

مارشل لاء کے بعد فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان نے اقتدار کی کرسی سنبھالی، جنرل ایوب خان نے اپنے دور اقتدار میں کئی اصلاحات کرنے کی کوششیں کی وہ ایسا نظام حکومت چاہتے تھے جس میں مرکزی حکومت تو ہو لیکن سیاسی جماعتوں کا وجود نہ ہوں۔ یکم مارچ 1962 کو ایسے ہی ایک آئین کا نفاذ کیا گیا اور مئی 1962 میں ہونے والے قومی اور صوبائی انتخابات بھی انہی کے زیر اثر منعقد ہوئے جس میں شہریوں کے حق رائے دہی کو سلب کر کے صدارتی ریفرنڈم کے تحت اراکین منتخب کیے گئے۔

مارشل لاء کے نفاذ کے بعد سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کی بحالی کے لیے سر توڑ کوششیں کی۔

1962 میں صدارتی نظام کا نفاذ کیا گیا جس کے تحت پاکستان کے نام سے اسلامی ہٹا کر جمہوریہ لگا دیا گیا تھا اور اقتدار کے تمام اختیارات صدر کے عہدے کو سونپ دیے گئے۔ جنوری 1965 میں صدارتی انتخابات میں ایوب خان کا مقابلہ محترمہ فاطمہ جناح سے ہوا تھا جنہیں مشرقی بنگال سے مکمل حمایت حاصل تھی لیکن اس انتخابات میں بھی وہی ممبران تعداد میں زیادہ تھے جن کے ریفرنڈم کے ذریعے صدر ایوب خان صدر بنے تھے اسی وجہ سے مشرقی بنگال میں 47 فیصد حمایت کے باوجود محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں صدر ایوب خان کو برتری حاصل ہوئی۔

اس برس 6 ستمبر 1965 کو پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا آغاز ہوا جنگ کے بعد 1966 میں معاہدہ تاشقند کی وجہ سے صدر ایوب خان کی سیاسی مخالفت میں بھی اضافہ ہوا۔

قیام پاکستان کے بعد کے ان برسوں میں پاکستان میں سیاسی بھونچال برپا رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی بنا لی۔ عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمن بھی ایک عظیم لیڈر بن کر سامنے آئے۔ لیکن 10 برس تک صدر رہنے والے ایوب خان نے اس سیاسی ڈیڈ لاک کو ختم کر کے الیکشن کروانے کے بجائے اس وقت کے پاکستان آرمی کے کمانڈر چیف جنرل یحیی خان کو خط لکھ کر مار شل لا لگانے کی درخواست دی۔

جنرل یحیی خان نے مارشل لاء لگاتے ہی 1962 کا آئین منسوخ کر دیا۔ مشرقی و مغربی پاکستان کی سیاسی قیادت سے بات چیت کے بعد 28 نومبر 1969 کو یحییٰ خان نے ملک میں پہلے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا۔ ان انتخابات کی سیاسی سرگرمیاں پاکستان کی طویل ترین انتخابی مہم بھی قرار دی جاتی ہیں۔ انتخابات سے پہلے یحییٰ خان نے مغربی پاکستان کا صوبہ تحلیل کر دیا کچھ سیاسی عوامل اور آئینی رد و بدل کی بنا پر الیکشن شیڈول میں تبدیلی کر کے قومی اسمبلی کے الیکشن کی تاریخ 7 دسمبر 1970 کر دی گئی۔ مشرق پاکستان میں تباہ کن سمندری طوفان کے بعد بھی انتخابات منعقد کیے گئے اور بالآخر پاکستان بننے کے تقریباً 23 سال بعد 7 دسمبر 1970 کو پاکستان کے پہلے عام انتخابات ہوئے۔

انتخابات کے نتائج کے حساب سے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے 162 میں سے 160 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے اکثریت حاصل کر لی تھی اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے 138 میں سے صرف 81 نشستیں جیتیں تھیں۔ لیکن اقتدار کی شراکت داری پر ان کے بیچ کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکا اور ان انتخابات کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کی وجہ سے ہم سے ہمارا مشرقی پاکستان جدا ہو گیا۔ الیکشن میں سلیکشن کے کردار نے پہلے کئی سال سیاسی عدم استحکام کو جگہ دی اور پھر ملک کو دو لخت کر دیا اور مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔

مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھال لیا۔ 1977 میں ساری اپوزیشن جماعت بی این پی کے ساتھ مل کر پی پی پی کا مقابلہ کر رہی تھیں لیکن پی پی نے 155 نشستیں جیت کر میدان مار لیا جس کے بعد اپوزیشن نے دھاندلی کا الزام لگا کر احتجاجی مظاہرے کیے۔ سیاسی گہما گہمی اور سیاست دانوں کی موقع پرستی نے فوج کو ایک بار پھر برسر اقتدار آنے کا موقع دیا اور اس وقت کے آرمی چیف نے مارشل لاء نافذ کر کے اقتدار سنبھال لیا اور 11 سال تک حکومت پر قابض رہے۔ چار اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا ہونے کے بعد ملک کے سیاسی ماحول میں ایک نیا بھونچال رونما ہوا۔

1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر کرائے جانے والے انتخابات کا سیاسی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا۔ 1988 میں بھٹو مخالف جماعتوں کو ملا کر آئی جی آئی بنائی گئی اس وقت کے جنرل حمید گل نہیں چاہتے تھے کہ پی پی پی اقتدار میں آئے اور بھٹو کی پھانسی کا بدلہ لے۔ لیکن سازشوں کے باوجود پی پی پی 93 نشستیں لے کر کامیاب ہو گئی اور بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم بنیں۔ لیکن ان کی حکومت زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی اور 20 ماہ بعد ہی صدر غلام اسحاق خان نے حکومت گرا دی۔

1990 کے انتخابات میں مختلف سیاسی گٹھ جوڑ سامنے آئے اور بہت سی سیاسی پارٹیاں منظر عام پر آئیں لیکن ان انتخابات میں میاں نواز شریف صاحب اقتدار میں آئے لیکن اپنی ناقص کارکردگی کی بنا پر وہ اسٹیبلشمنٹ کو مطمئن نہ کر سکے۔ اور 3 سال کے اقتدار کے بعد ہی ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ 1993 کے انتخابات میں پی پی پی 89 نشستیں لے کر دوبارہ برسر اقتدار آئی لیکن انہی کے پارٹی کے سابق سیکرٹری صدر فاروق خان لغاری نے ان کی حکومت گرا کر سینیئر رہنما ملک معراج کو نگران وزیراعظم بنا دیا۔ دو بار پی پی پی کی حکومت اپنا حکومتی وقت پورا نہ کر سکی۔ اسی وجہ سے اس کے ووٹرز اتنے مایوس ہوئے کہ 1997 کے انتخابات میں پی پی پی نے صرف 18 سیٹیں حاصل کیں۔ اور ایک بار پھر اقتدار کا سہرا بھاری مینڈیٹ کے ساتھ نواز شریف کے سر پر سجا اور وہ دوسری بار اقتدار میں آ کر وزیراعظم بن گئے۔

نواز شریف اور جنرل مشرف کے بیچ چلنے والی سردجنگ کی وجہ سے یہ حالات بنے کہ 12 اکتوبر 1999 کو انہیں اپنی حکومت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ 2002 کے الیکشن میں کوئی بھی پارٹی اکثریت حاصل نہ کر سکی اس طرح جنرل مشرف نے پی پی پی اور پی ایم ایل کیو کے گٹھ جوڑ سے اقتدار کی سیٹ پی ایم ایل کیو کو سونپی اور میر ظفر اللہ خان جمالی وزیراعظم منتخب ہوئے۔

2007 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا سانحہ پیش آیا اور صدر مشرف نے اپنا 10 سالہ آمرانہ اقتدار یعنی وردی سے سبکدوش ہو کر صدارت کا عہدہ سنبھال لیا۔ ان حالات کی وجہ سے 2008 میں انتخابی صورتحال مختلف ثابت ہوئی محترمہ کی شہادت کی وجہ سے ووٹرز کا ٹرن اؤٹ پی پی پی کے حق میں رہا اور وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی بنے اور صدر کا عہدہ آصف علی زرداری صاحب کے حصے میں آیا۔

یہ انتخابی دور کامیابی کے ساتھ اپنے پانچ سال مکمل کر پایا اور نگران وزیراعظم نے 2013 میں عام انتخابات کا اعلان کیا ایک بار پھر اقتدار کی جنگ چھڑی اور مسلم لیگ نون کے سربراہ تیسری بار وزیراعظم بنے لیکن پچھلی دو بار کی طرح اس بار بھی قسمت نواز شریف سے مہربان ثابت نہ ہوئی۔ اور خطرناک کیسز کے سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان سے آپ تاحیات نااہلی کا شکار ہوئے اور امراض قلب کے علاج کے لیے لندن شفٹ ہو گئے۔

اس دور حکومت کو شاہد خاقان عباسی نے مکمل کیا اور آئینی مدد کے بعد جسٹس نصیر الملک نگران وزیراعظم بنے۔ 2018 میں ایک نئے الیکشن ہونے جا رہے تھے کچھ نئے چہرے سامنے آنے والے تھے اور ایسا ہی ہوا نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد شہباز شریف پارٹی صدر الیکشن کو لیڈ کر رہے تھے۔ اس الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف نے 116 سیٹیں لی اور مسلم لیگ نے 64 نشستیں حاصل کیں۔

پی ٹی آئی وفاق خیبر اور پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی تھی عمران خان کا دور حکومت ساڑھے تین سال رہا پاکستان کی تاریخ کے پہلے وزیراعظم عمران خان تھے جن پر تحریک عدم اعتماد لائی گئی کسی کے بھی وہم و گمان میں نہیں تھا کہ جن لوگوں کے ووٹوں کی مدد سے انہوں نے وفاق میں اقتدار بنایا تھا۔ وہی ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے حزب اختلاف سے ہاتھ ملا لیں گے عمران خان کی حکومت ختم کر کے ایک بار پھر مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف نے اقتدار سنبھالا اور 18 ماہ کے دور حکومت میں صرف گزشتہ حکومت کی خامیاں ہی گنوائیں موجودہ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی تقرری پی ڈی ایم کے گٹھ جوڑ سے عمل میں آئی تھی گزشتہ دنوں نئے الیکشن کی تاریخ ظاہر کر دی گئی ہے۔

آٹھ فروری 2024 کو انتخابات کرانے کی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا ہے گزشتہ حکومت کو گرا کر جو پی ڈی ایم بنائی گئی تھی جنہوں نے اقتدار کے 18 ماہ ساتھ رہ کر مزے لیے اب وہ نئے الیکشن کمپین میں ایک دوسرے کی دھوتی کھولتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں وہی پرانی فرسودہ روایات ایک دوسرے پر الزامات لگانے والی سیاست کا شو شروع ہو چکا ہے۔ عوام کی رائے ہی ایک سیاسی پارٹی کو فرش سے اٹھا کر اقتدار کے منصب پر بٹھاتی ہے، لیکن ہر الیکشن کے بعد آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں کہ الیکشن کی آڑ میں سلیکشن کی گیم کھیلی گئی ہے۔

یہ تو آنے والا وقت ہی ثابت کرے گا۔ ایک جمہوری نظام حکومت ہونے کے ناتے الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ آف پاکستان تمام سیاسی جماعتوں کو برابر کے سیاسی حقوق اور لیول پلیئنگ فیلڈ میسر کرے۔ پھر ہی نتیجہ سامنے آئے گا کہ عوامی رائے کس کو سرخرو کرتی ہے۔ عوام الناس کو بھی چاہیے کہ چاہے کتنی بھی ہو مشکلات ہوں، اپنے ضمیر کی آواز پہ ڈٹ کر کھڑے رہیں۔ آپ کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت اس ملک کے لیے بہترین ثابت ہو سکتی ہے اسی جماعت کو ووٹ دینے کے لیے نکلیں، الیکشن کو سلیکشن بننے سے روک کر ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دینا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments