کیا ہم شودر ہیں؟


آج کل چیف جسٹس صاحب ضمانت کے ایک فیصلہ کی وجہ سے مذہبی طبقہ کے زیر عتاب ہیں۔ ابھی اس فیصلہ پر ریویو کی سماعت ہو رہی ہے اور چیف جسٹس صاحب نے اس فیصلہ کے قانونی اور شرعی پہلوؤں کے بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل اور نو دیگر مذہبی اداروں سے رائے طلب کی ہے۔ لیکن اس کے با وجود بعض طبقوں کی طرف سے چیف جسٹس صاحب پر اعتراضات کا سلسلہ جاری ہے۔

یہ فیصلہ اعتراضات کی زد میں کیوں آیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے اس فیصلہ کے پیراگراف 8 میں یہ لکھا ہے کہ ’قرآن کا تقاضا ہے کہ تمال اہم امور کے متعلق غور و فکر کیا جائے اور سوچا جائے۔ ‘ اور سوچ بچار کی دعوت دینے کے بعد چیف جسٹس صاحب نے دو قرآنی آیات کریمہ کے حوالے دیے ہیں جن میں سوچ بچار اور غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے اور پھر اسی فیصلہ میں چیف جسٹس صاحب نے یہ قرآنی حکم درج کیا کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔

اس کالم میں اس فیصلہ یا اس کے مندرجات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جائے۔ یہ فیصلے سپریم کورٹ کی سائٹ پر موجود ہیں۔ ہر کوئی پڑھ کر ان کے بارے میں اپنی رائے قائم کر سکتا ہے۔ لیکن بعض حلقوں کی طرف سے جو رد عمل سامنے آ رہا ہے وہ ہم سب کو غور و فکر کی دعوت ضرور دے رہا ہے۔ اس کی دو مثالیں پیش خدمت ہیں۔ رسالہ اہل حدیث 8 تا 14 مارچ 2024 کے اداریہ کا عنوان ہے ’چیف جسٹس مفتی نہ بنیں‘ ۔ اس میں میں لکھا ہے :

”جس طرح آئین کی تشریح کرنا سپریم کورٹ اور ججوں کا کام ہے ایسے ہی قرآن و حدیث اور دینی امور کی تشریح علماء دین ہی کر سکتے ہیں، کوئی جج خواہ کتنا ہی پڑھا لکھا کیوں نہ ہو وہ قرآن و حدیث کی تشریح محض قانون کا ماہر ہونے کی بنا ء پر نہیں کر سکتا۔ اسکے لئے علماء کرام کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنا ہوتا ہے۔“

اسی طرح رسالہ ’ندائے خلافت‘ 12 تا 18 مارچ 2042 میں متین خالد صاحب کا ایک انٹرویو شائع ہوا اور اس میں انہوں نے چیف جسٹس صاحب کے بارے میں کہا :

”ہم تو الدین النصیحہ کے تحت خیر خواہی کے جذبہ سے مشورہ دیں گے کہ جو علماء کا کام ہے اسے علماء پر ہی چھوڑا جائے۔ بہر حال یہ بھی اچھی بات ہے کہ انہوں نے ریویو سننے پر آمادگی دکھائی ہے۔“

اصل موضوع پر تبصرہ کرنے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ درست ہے کہ قانون اور آئین کے بارے میں جج صاحبان کی رائے اور تشریح کی ایک قانونی اہمیت ہوتی ہے لیکن نہ جانے یہ نتیجہ کہاں سے اخذ کر لیا گیا کہ جج صاحبان کے علاوہ کوئی اور شخص قانون اور آئین کے بارے میں اپنی رائے نہیں رکھ سکتا یا آئین اور قانون کی تشریح نہیں کر سکتا۔ دنیا بھر کے لوگ اپنی اپنی رائے کے مطابق آئین کی شقوں کی اور قوانین کی اپنی اپنی تشریح کرتے ہیں۔

ان مسائل پر اپنی رائے کے حق میں دلائل دیتے ہیں۔ اس موضوع پر مضامین لکھے جاتے ہیں اور کتب شائع ہوتی ہیں۔ عدالتوں میں وکلاء اور مختلف گروہ اپنی اپنی تشریح پیش کرتے ہیں۔ اس پر بحث کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر امریکہ میں کوئی کسی آئینی مسئلہ پر اپنی تشریح یا رائے پیش کرے تو کوئی جج اسے یہ تنبیہ نہیں کر سکتا کہ میاں یہ تو ہماری محفوظ چرا گاہ ہے، تم کہاں بھٹکتے ہوئے اس میں آ نکلے ہو۔

اگر یہ کلیہ تسلیم کر لیا جائے کہ دینی معاملات میں رائے دینا اور تشریح پیش کرنا صرف علماء کا کام ہے اور عالم بھی ایسا جس نے علماء کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ہو اور کسی اور کو اس کوچہ میں جانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے تو کوئی ہمیں یہ سمجھائے کہ لفظ ’عالم‘ کی کیا تعریف ہونی چاہیے۔ کسے عالم کہیں اور سمجھیں اور کسے ’غیر عالم‘ قرار دیں۔ ملاحظہ فرمائیں کہ فضل الرحمن صاحب اور جماعت اسلامی کے قائدین اپنے اپنے حلقہ اثر میں عالم سمجھے جاتے ہیں لیکن دوسری طرف داعش کے علماء نے انہی کے خلاف فتوے صادر کر دیے ہیں۔ یا پھر آئین پاکستان میں ایسے مدارس اور اداروں کی فہرست شامل کر دی جائے کہ جو صاحبان ان سے سند یافتہ ہوں گے وہ قانون کی نگاہ میں عالم سمجھے جائیں گے اور جن کے پاس ان کا سرٹیفیکیٹ نہیں ہو گا ان کو یہ حق ہر گز نہیں ہو گا کہ وہ دینی معاملات میں اپنے رائے کا اظہار کرتے پھریں۔

اگر چیف جسٹس صاحب نے قرآن کریم اور احادیث پر غور و فکر کی دعوت دی تو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ کیا علماء اس بات سے بے خبر ہیں کہ خود قرآن کریم میں ہر ایک کو قرآن مجید پر تدبر کی دعوت دی گئی ہے۔ اور یہ اعلان کیا گیا ہے قرآن پر غور کیوں نہیں کرتے۔ (سورۃ النساء 82، سورۃ محمد 24 )

علماء اکثر خلافت راشدہ کے دور کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔ میں امید رکھتا ہوں کہ ان صاحبان نے یہ روایت ضرور پڑھی ہو گی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حق مہر کی حد چار سو درہم مقرر کی اور زیادہ مہر مقرر کرنے سے منع کیا۔ ایک خاتون نے قرآن کریم کی ایک آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم میں کوئی حد مقرر نہیں کی گئی اور یہ رقم بہت زیادہ بھی مقرر کی جا سکتی ہے۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا سابقہ حکم واپس لے لیا۔ قارئین غور فرمائیں یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے عظیم وجود کا انکسار تھا جو کہ ایک عظیم سلطنت کے حاکم بھی تھے۔ کسی روایت میں یہ نہیں درج کہ کسی نے اس وقت یہ اعتراض کیا ہو کہ ایسی تشریح کرنا صرف علماء کا کام ہے۔ ایک عام عورت کو کیا حق کہ وہ امیر المومنین کے حکم کے مقابل اپنی تشریح پیش کرے۔

جب کوئی معاشرہ تنگ نظری کی ڈھلوان پر پھسلنا شروع کردے تو پھر پستی کے سفر کو روکنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ قدیم ہندوستان میں منوسمرتی کے قوانین میں برہمن کو اس بات سے ممانعت کی گئی تھی کہ وہ اس وقت وید کو نہ پڑھے جب اس کے آس پاس کوئی شودر موجود ہو۔ آج کے پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ کے علاوہ باقی سب کو ایسے شودر بنانے کا عمل شروع کیا جا رہا ہے۔ بہتر ہے ابھی جد و جہد کر کے اس عمل کو روک دیا جائے ورنہ پھر اس ڈھلوان پر سفر جاری رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments