ایک کالم شوکت نواز کے لئے


آپ نے دیکھا ہو گا کہ بچپن میں لاڈ پیار، شکل صورت یا کسی اور وجہ سے ایک آدمی کا کوئی نام پڑ گیا اور یہ عرفیت ہمیشہ کے لیے اس کے ساتھ چپک گئی۔ آبائی شہر سیالکوٹ میں ابا کے ہم عصر عبدالحفیظ پھر تیلی حرکتوں کی بدولت ’فیجا باندری‘ ، میرا ہم مکتب بابر ایک جسمانی نقص کے سبب ’بابر ٹنڈ‘ اور خواجہ شفیع رشید جوشیلی طبیعت کے ہاتھوں شفیع بوتل کہلائے۔ یہ راز بھی نہیں کھلا کہ ہمارے واہ کے ہیڈ ماسٹر شمیم صدیقی کو ’پوپٹ‘، ریاضی کے استاد ملک نواز کو ’ماماں‘ اور بینڈ ماسٹر غلام سرور کو ’کنڈور‘ کیوں کہا گیا۔ آئندہ ریسرچ کے لیے یہ ایک دلچسپ موضوع ہے، لیکن آج واہ گارڈن میں اولڈ بوائز کے مشترکہ لنچ کے موقع پر آپ کو ایک 74 سالہ دوست سے ملوانا چاہ رہا ہوں۔ وہی شوکت نواز جسے نصف عمر تک پتا نہیں تھا کہ غیر حاضری میں سب لوگ اسے شوکت بلا کہہ کر یاد کرتے ہیں۔

شوکت کیا آئٹم ہے؟ یہ جاننے کے لیے اس کی طبیعت کے متضاد اجزا کے اندر اترنا پڑے گا۔ شمالی پنجاب کے کھٹر قبیلے کا لیڈرانہ طمطراق، انتہا درجہ کی انسان دوستی، بزم آرائی کا حد سے بڑھا ہوا شوق۔ پھر بھی نصف صدی کینیڈا میں گزار کر اوکھے بھارے ویلے کا ٹھکانہ ضلع اٹک میں کامرہ کا نواحی گاؤں۔ مزید سمجھنے کے لیے موضع مدھروٹا کے سردار شوکت نواز کو ملنے سے پہلے ذرا سکول کے شوکت نواز کی جھلک دیکھ لی جائے۔ شوکت اوپر کی جماعت سے نیچے کو زقند بھر کر ہماری ساتویں کلاس کی کچھار میں گھسا تو اس کی آنکھوں کی رنگت اور گھڑ سواری کی چوٹ کے نتیجے میں ’گورا ٹائپ‘ ناک اشارہ دیتی تھیں کہ بلیوں کی براہ راست رشتہ داری شیر سے ہوتی ہے، خواہ وہ جنگل کا بادشاہ ہو یا بطور انسان دلوں پر حکمرانی کا شوقین۔

تعلیمی لحاظ سے شوکت مثالی طالب علم نہیں تھا لیکن ایتھلیٹکس کے میدان میں ہم ہر روز اسے ٹریک ایونٹس کی مشق میں مشغول دیکھتے، پھر اسکول لگتے ہی چیف پراکٹرانہ کارکردگی شروع ہو جاتی اور آغاز سرما میں ہماری شامیں اس آل پاکستان اردو ڈیبیٹ کی تیاری میں گزرنے لگتیں جس میں ایک دفعہ ڈھاکہ کے ایک اسکول نے بھی شرکت کی۔ شوکت سر سید میموریل مباحثہ کا باضابطہ مقرر نہیں تھا، لیکن مقابلہ ختم ہونے پر منصفین فیصلہ مرتب کرنے کے لیے جاتے تو مائیک اسی کے ہاتھ میں ہوتا اور پھر وہ ڈرامے اور قصے سنائی دیتے جن کے سکرپٹ، صوتی تاثرات اور کردار یہی یک رکنی ٹیم پیش کیا کرتی۔ منظومات کی باری آنے پر اصل چیز ہوتی پراعتماد لب و لہجہ اور ضمیر جعفری کا سا ’پلے بیک‘ ترنم جس پر نذیر شیخ نے کہا تھا کہ ’سر ملاتے ہیں، مگر بے تال ہیں میجر ضمیر‘ ۔

یہ حوالہ جوش خطابت میں دے دیا، وگرنہ شوکت کے بارے میں آپ جو چاہیں کہہ لیں، بے تال وہ آج بھی نہیں۔ ایف اے میں نصابی کتاب ’چمن زار غزل‘ سے میر تقی میر کے جو اشعار اس نے مٹی کے گھڑے پر میری سنگت میں ہارمونیم پہ کمپوز کیے ان پر تو موسیقی کے ایک استاد نے تائید میں گردن ہلائی تھی، اس کے علاوہ ہمارے اردو کے ہر دلعزیز لیکچرر عارف منان قریشی نے بھی اس عمل کو تحسین سے دیکھا کہ جو سی بی کالج کی کچی نوکری چھوڑ کر آرمی ایجوکیشن میں ڈائریکٹ کیپٹن ہوئے اور پھر وہاں چلے گئے، جہاں عہدوں کی ضرورت نہیں رہتی۔ عارف صاحب کی تقریب میں شوکت نے ٹھوکا ٹھاکی پر مبنی اپنا کلام سنانے سے پہلے یہ کہہ کر سب کو ہنسا دیا کہ ”الوداعی نظم پیش کرتا ہوں۔ کہو نا یار ’ارشاد“ ۔ آخری شعر تھا:

شوکت، نگاہ شوق سے جی بھر کے اس کو دیکھ لے
جانے ملے تو کب ملے رنگروٹ جو بن کر چلا

اگلی کہانی میں پرانا ہم جماعت حسن اختر انٹری ڈال رہا ہے۔ حسن اختر آج بھی ہمارا راجا ہے اور اس وقت بھی تھا جب ہمارے چھوٹے سے کالج میں، جہاں سٹوڈنٹس یونین کے صدر ایک پروفیسر تھے، اس نے مجھے الائچی دار چائے کا کپ پلاتے ہوئے ایک گمبھیر انتخابی سازش کے تانے بانے بنے۔ ”دیکھو، اس بار ووٹ سائنس اور آرٹس کی بنیاد پہ برابر تقسیم ہوں گے۔ شوکت نواز اور تم نائب صدر اور جنرل سیکرٹری کے لیے آرٹس کے حمایت یافتہ امیدوار ہو، لیکن اگر تم چپکے سے چند قریبی ساتھیوں کے ووٹ شوکت کی جگہ سائنس والے اجمل علوی کو ڈلوا دو تو وہ نائب صدر منتخب ہو جائے گا اور تمہیں پیشگی طور پر ہم بلا مقابلہ سکرٹری بنوا دیں گے۔“ یہ پینل سے دغا بازی تھی، مگر راجہ کی ’اسٹیبلشمنٹ‘ نے مجھے کالج کا جنرل سیکرٹری بنوا دیا اور خود بعد ازاں واہ کنٹونمنٹ بورڈ کے وائس چیئرمین لگے رہے۔

رہا شوکت نواز تو الیکشن ہارنے کے باوجود ایوب مخالف تحریک میں اس کا کردار پیدائشی لیڈر کا تھا۔ جیسے یہ ہدایت کہ ایکشن کمیٹی کی میٹنگ میں جاتے ہوئے سب مجھ سے ایک ایک قدم پیچھے رہیں اور سنو، مجھے شوکت مت کہنا، سردار صاحب کہنا، بعد میں بھی اسے یہ شعور رہا کہ قیادت ہوس اقتدار سے نہیں، قائدانہ رکھ رکھاؤ نبھانے سے ملتی ہے، اسی لیے نئی صدی سے پہلے کینیڈا میں اس نے میری خاطر شمالی امریکہ کے کونے کھدروں سے شعیب عرف گڈو، حسن ابدال والے اسد، عزیز کیانی صاحب کے بیٹے نوازش اور سلمان فوٹوگرافر کے علاوہ پرویز عرف ’پاکستان ٹائمز‘ کے ان چھوٹے بھائیوں کو بھی اکٹھا کیا جنہیں ہم خاندانی ڈسپلن کی بنا پر 14 پنجاب کہا کرتے، اس شام مجھ سے انتخابی بد چلنی کی کہانی سن کر شوکت نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ”وہ اس وقت کا تقاضا تھا، آج کے تقاضے کچھ اور ہیں۔“

یہ تقاضے کیا تھے؟ جواب میں سردار شوکت نواز نے بیرون پاکستان سے تحفوں، تہنیتی کارڈوں اور ٹیلی فون کالوں کی سبیل لگائے رکھی، نصف کال تازہ دھنیں سنانے کے لیے وقف ہوتی اور پھر یہ آرڈر کہ اب یہی نغمہ بانسری پہ سنو۔ چھ سال ہوئے شوکت نے جو گرم سوٹ بھیجے ان میں سے دو میرے اور باقی چار دیگر حاضر سروس احباب کے لیے تھے، ڈیڑھ درجن سے زائد ٹائیاں ان کے علاوہ ہیں۔ ’ٹائی الیہ‘ سب کے سب وہ برادران یوسف، جنہوں نے ووٹ نہ دے کر شوکت کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ سامان اتنے اہتمام سے لاہور پہنچا کہ ’سوٹ بردار‘ نے ہوائی اڈے پر سب ملبوسات کو الگ الگ ہینگر کی زینت بنا رکھا تھا۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ شوکت صاحب کی ہدایت تھی کہ کپڑوں کی کریز نہ ٹوٹے۔

سوٹوں پر سلوٹیں تو نہ پڑیں مگر ان چھ برسوں میں خود شوکت کی اپنی کریز ٹوٹ گئی ہے، کاروباری اتار چڑھاؤ، بیوی کی رحلت، جوان بچوں کی الگ مصروفیات، پھر اعصابی بیماری کا حملہ جس نے نیند چھین لی اور نڈھال کر دیا، وسوسوں کے ہجوم میں اچھی خبر یہ ہے کہ شوکت اٹک کے آبائی گاؤں میں واپس آ کر پہلے کے مقابلے میں ہشاش بشاش ہے اور ووٹروں سے ملنے آج واہ کے لنچ میں شریک ہو رہا ہے۔ بدھ کو اس نے فون پر گانا سنا کر بہتر ہوتی ہوئی صحت کا ٹریلر بھی دکھایا اور خبردار کیا کہ گاؤں میں اس کے میزبان بھائی کو ننھے خان نہیں بلکہ ارشد خان کے نام سے پکارا جائے۔ مکمل صحت کی دعا کے ساتھ سارے ’لوٹا‘ گروپ کی طرف سے حکم کی تعمیل کا وعدہ ہے، اور یہ بھی کہ آج کی میٹنگ میں ہم آپ کو شوکت نہیں، سردار صاحب کہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments