حمید خالو کے زیر، زبر، پیش


یوں تو ہمارے حمید خالو ہمیشہ کے خبطی ہیں مگر ایک قصے سے اُن کا خبطی پن اپنے عروج پر پہنچ گیا ہے۔ اِس کی شروعات یوں ہوئی کہ ایک اتوار کی صبح دیکھا کہ چلے آ رہے ہیں دیسی مرغ لیے۔ ”لو بیٹی! بہت عمدہ مل گیا، گھر کا پلا ہے۔“ پھر میری طرف دیکھ کر بولے، ”اماں، دام بھی صحیح بتا رہا تھا، تو لے آئے۔ اب واپسی میں پیسے دیتا ہوا نکل جاؤں گا۔“ اور مرغ اُن کے ہاتھ میں پنجوں سے اُلٹا لٹک رہا تھا وہ بھی زندہ۔ دونوں پر اُس کے آپس میں قینچی بنے پھنسے ہوئے، گردن جھولتی ہوئی اور آنکھیں کچھ پھٹی پھٹی سی۔ خیر، وہ اتوار تو پورا اُسی مرغ کی اُدھم چوکڑی میں نکل گیا۔ مرغ کو ذبح کرنا، اُس کی کھال اتارنا، بوٹیاں بنانا یہ سب کام حمید خالو نے ہی کیے۔ گھر کے بچوں کے لیے بھی ایک تماشا ہو گیا۔ مرغ کے کٹے ہوئے پنجوں سے پہلے تو بچے ڈرے پھر کچھ اُن سے کھیلنے لگے یعنی جو بچے اب تک ڈر رہے تھے اُن کو مرغ کے پنجے لیے یہ شیر بن کر ڈرانے لگے۔ پھر دوپہر کے کھانے میں وہی مرغ پکا اور ظاہر ہے حمید خالو نے بھی یہیں کھانا کھایا اور جاتے وقت مرغ کی قیمت بھی لے گئے۔

چلیے صاحب، دیسی مرغ کا تازہ گوشت ہو گیا ایک اتوار کو۔ مگر یہ کیا کہ اب ہر دوسرے تیسرے اتوار مرغ لیے کھڑے ہیں صبح صبح کہ لو بیٹی، گھر کا پلا ہے، بالکل اصیل۔ اتنے پر بس ہوتا تو بھی ٹھیک تھا لیکن پھر وہ کچھ شعر بھی لے کر آنے لگے کہ جب تک مرغ پک کر کھانا تیار ہو اِن شعروں پر گفتگو کر کے وقت گزارا جائے۔ خیر جناب یہ بھی غنیمت تھا، مگر حمید خالو کا خبطی پن اُس وقت کھَل جاتا جب وہ ایسا شعر نکال کر لاتے کہ جس میں گرفت میں نہ آنے والا کوئی لفظ ضرور ہوتا۔ مثلاً ایک بار وہ میر تقی میرؔ کا یہ شعر لے آئے :

کتابت گئی کب کہ اس شوخ نے

بنا اس کی گڈی اڑائی نہیں

اور میری نادانی دیکھیے کہ میں نے کبھی ذرا رنگ جمانے کو اُن سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو میرؔ بہت پسند ہیں۔ اب صاحب اِس شعر کے دوسرے مصرعے کے گَڈّی، گُڈّی، گِڈّی لفظ نے جو لوٹیں لگوائی ہیں تو مجھ کو گڑیوں سے کھیلنے والا گُڈّا ہی بنا ڈالا۔ میرے ہر تلفظ پر حمید خالو بہت ہی مہین سی مسکراہٹ کے ساتھ مجھ کو دیکھتے گویا بتا رہے ہوں، ”یہ میرؔ ہیں، آپ کے پسندیدہ!“ اِس شعر کا مطلب بیان کرنا تو دور کی بات یہاں اِس کے پڑھنے کے ہی لالے پڑ گئے۔ ایسے موقعوں پر، آپ جانتے ہی ہیں کہ آنسو پونچھنے کو یہی خیال کرنا پڑتا ہے کہ چلو اِس بہانے کچھ سیکھنے کو تو مل رہا ہے۔

مگر پھر حمید خالو کا خبطی پن کھلنے لگا زیادہ کیونکہ وہ کھود کھود کر اب ایسے ہی شعر لانے لگے کہ جن میں زیر، زبر، اور پیش کے نہ لگے ہونے کی بنا پر اُن کا روانی کے ساتھ پڑھنا دشوار ہوتا ہے۔ آپ چاہے جتنے پاک دامن ہوں مگر اِن موقعوں پر غچّہ ضرور کھائیں گے کہ یہ والا زیر سے اِس ہے یا پیش سے اُس۔ اور ہمارے کاتب حضرات کا دورِ جہالت سے قاعدہ یہی رہا ہے کہ زیر زبر پیش نہیں لگاتے کیونکہ اُن کا یہ اعتقاد ہے کہ اردو والے افصح الفصحا ہوتے ہیں۔ یہ زیر زبر پیش تو مکتب جانے والے لونڈوں کی اردو کی پہلی کتاب میں ہجّے لگانے بھر کے ہیں۔ حمید خالو کے خبط میں افصح الفصحا کا زعم بھی ضم تھا اور اِس زعم کی تشفّی کا ذریعہ اُن کے لیے یہ تھا کہ شعر کے پڑھنے میں مجھ سے غلطی ہو اور وہ ٹوکیں۔ اور یہاں لاکھ آنکھیں گڑونے پر بھی مجھ سے شعر کے پڑھنے میں اِس اُس کی چوک ہو ہی جاتی تھی، وہ بھی اتوار کے دن۔

اب اِتنے دن سے اصیل مرغ کا گرم گوشت کھانے کا اور حمید خالو کے خبطی پن کی سنگت کا مجھ پر کچھ تو اثر ہونا ہی تھا۔ آخر میں نے بھی اتوار کے لیے کچھ مصرعے نکال کر رکھ لیے۔ ایک دو اتوار بے چینی میں بیت کر وہ اتوار آیا کہ جس کی صبح حمید خالو ایک مرغ کو پنجوں سے اُلٹا لٹکائے موجود تھے، ”لو بیٹی، بڑا کوڑیالا ملا ہے آج۔“ اور واقعی اُس اتوار کا مرغ تھا کوڑیالا؛ پروں کے آپس میں اتنی دیر سے پھنسے ہونے کے باوجود وہ مار جھٹکے مار رہا تھا۔ پھر یکے بعد دیگرے مرغ والے اتوار کے سب ارکان دہرائے گئے۔ مگر اب گھر کے بچوں کا انہماک اِن میں ندارد تھا کیونکہ مرغ کے لُنجے پنجوں سے کوئی ڈرتا ہی نہیں تھا۔ شاید دیسی مرغ کا گرم گوشت کھا کھا کر وہ سبھی شیر بن چکے تھے۔ البتہ معمول کے خلاف میں خاصا اتاؤلا ہو رہا تھا کہ مرغ چولہے پر چڑھے اور شاعری کا باب کُھلے۔ آخر وہ گھڑی آ ہی گئی۔ ”حمید خالو! یہ دیکھیے۔ بہت پریشان کر رکھا ہے اِن چار مصرعوں نے۔“

”اچھا، لاؤ، دکھاؤ۔“ کاغذ میرے ہاتھ سے لے کر اُنھوں نے پڑھنا شروع کیا، ”اِس ضرب میں ہاتھ اِس کا اُڑا اور سپر اِس کی ’‘ دو تھا جو سر اِس کا تو جدا تھی کمر اِس کی۔“ حمید خالو ذرا ٹھٹھکے، ”امے نہیں بھئی، یہ تو دو لوگ ہیں۔ سر اِس کا اور کمر اُس کی، یوں بنے گا۔“

”تو حمید خالو پہلا والا مصرع بھی بدل لیجیے۔“

”ہیں، پہلا والا! اوہ ہاں، اُس میں بھی تو ردیف“ اُس ”کی چلے گی۔ ’اِس ضرب میں ہاتھ اِس کا اُڑا اور سپر اُس کی۔ دو تھا جو سر اِس کا تو جدا تھی کمر اُس کی‘ ۔ اب یہ دو الگ لوگ بنے۔“

حمید خالو ذرا رَو میں آ گئے تو میں نے ٹہوکا لگایا، ”اِس ضرب ٹھیک ہے یا اُس ضرب بہتر لگ رہا ہے؟“

”ہیں! اُس ضرب۔ دیکھتے ہیں ’اُس ضرب میں ہاتھ اِس کا‘ ہاں یہ ٹھیک لگ رہا ہے۔ ’اُس۔ اِس۔ اُس‘ یوں زیادہ روانی ہے اور فصیح بھی ہے۔“ حمید خالو نے استادانہ سنجیدگی سے کہا۔

”لیکن سب کو شاید پلٹ بھی تو سکتے ہیں، جیسے : اِس ضرب میں ہاتھ اُس کا اُڑا اور سپر اِس کی۔“ میں نے شاگردانہ استفہامیہ لہجے میں ذرا لجاجت کے ساتھ یہ بات پوچھی تھی۔

”ارے پھر دوسری ردیف بھی بدلنا پڑے گی بھئی۔ بس آگے ایسے ہی چلے گا۔“ میری بات کو حمید خالو نے اُسی استادانہ رعب میں دباتے ہوئے تیسرا مصرع جوش کے ساتھ پڑھا، ”اُس کو خبر اُس کی تھی نہ اُس کو خبر اُس کی ’، امے یہ تو وہی پلٹ گیا۔ یہ کاتب کمبخت زیر زبر کیوں نہیں لگاتے۔ ‘ اُس کو خبر اِس کی تھی نہ اِس کو خبر اُس کی ’۔ ہم لوگ ردیف‘ اُس کی ’رکھ رہے ہیں، ہیں نا!“ حمید خالو نے یہ پوچھا تو مجھ کو دیکھ کر تھا مگر تصدیق وہ خود ہی سے کر رہے تھے۔ پھر ذرا اپنے اوپر قابو پا کر حمید خالو نے تضحیک کے لہجے میں کہا، ”اماں، یہ شاعری کر رہے ہیں یا اِس اُس کا گھال میل۔ ہے کس کا کلام؟“

میں نے جواب دیا، ”میر ببر علی انیسؔ کا۔“

ایک گہری ”ہوں“ بھر کر چوتھا مصرع اُنھوں نے بہت تھم تھم کر اور سنبھل سنبھل کر پڑھا، ”کی۔ موت نے دعوت۔ اُدھر۔ اِس کی۔ اِدھر۔ اُس کی۔“

میں نے مصرعے پر انگلی پھیرتے ہوئے تیزی کے ساتھ پوچھا: ”اِدھر اِسکی یا اُدھر اُسکی؟“

”ہیں کس کی!“ حمید خالو اب کچھ ہڑبڑا سے گئے تھے۔ وہ مصرعوں کو زیرِ لب دہرا رہے تھے اور ’اِس‘ اور ’اُس‘ کی غلطی کرنے پر اُن کو جھنجھلاہٹ ہو رہی تھی۔ مگر چونکہ کلام میر انیسؔ کا تھا اِس لیے کچھ کہہ سکتے نہیں تھے، بس اندر ہی اندر گھٹ رہے تھے۔ اُن کی یہ حالت دیکھ کر میرے دل کو اچھی خاصی تسکین ہو رہی تھی۔ ویسے ابھی میرے پاس اِس قماش کے کئی شعر باقی تھے اور میرا ارادہ بھی تھا کہ زیر زبر پیش میں اُن کو خوب الجھاؤں گا۔ مگر اب اُن کی حالت پر مجھے کچھ رحم سا آنے لگا اور اُدھر کوڑیالا مرغ بھی تو بس گل ہی چکا تھا۔

اِدھر کئی مہینے سے حمید خالو بالکل غائب ہیں۔ بس سُننے میں آیا ہے کہ اب وہ گھر میں بیٹھے پرانی پرانی کتابوں میں زیر زبر پیش لگایا کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments