انجمن اساتذہ کے انتخابات


نوکری کی ابھی ابتدا تھی، بہ حیثیت جز وقتی استاد اور کسی بھی قسم کی دفتری کارروائی سے محرومی کے ساتھ، اپریل 2005ء سے نومبر 2005ء تک بغیر تنخواہ کے گزارا، اس دوران جو خیال ذہن میں گھر کر گیا وہ یہ کہ یہاں جو جگہ مل گئی ہے وہ چھوڑنی نہیں ہے، پھر نومبر2005ء کے آخر میں دوبارہ سلیکشن بورڈ ہوا اور جنوری 2006ء میں پہلی تنخواہ ملی۔ لیکن اپریل کے بعد اور نومبر سے قبل ایک بار انجمن اساتذہ کے انتخابات ہوئے اور اس امر کی کوششیں بھی کی گئیں کہ ہمارا ووٹ ہو جائے کیوں کہ ہم اپنے شعبے کے اساتذہ کو ہی جانتے تھے تو ہمارا ووٹ کسی اور گروپ کا تو ہو نہیں سکتا تھا۔

مجھے یاد نہیں کہ وہ گروپ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوا یا نہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک طویل عرصے تک ( بلکہ اب تک بھی کہ اس گروپ کے اکثر اساتذہ ریٹائر ہوچکے ہیں ) یہ گروپ اپنا اثر رکھتا ہے، اور میرا مزاج کہ مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ میں اس گروپ کے مخالف چل رہی ہوں، میں تو سادہ لوحی سے اپنے مزاج اور اصولوں پہ چل رہی تھی۔

بہرحال اب ہماری حیثیت ایک استاد کی تھی تو ہم کہ اپنی نالائقیوں سے بھی واقف تھے لیکن استاد ہونے کا نشہ دماغ پر چڑھ گیا تھا تو خمار میں کچھ بہتر کرنے کی سعی بھی کی اور وہی کوشش بعد میں بہت کام آئی بلکہ وہی کام آئی۔ کہیں لگا کہ اپنی ذمہ داریوں سے بھاگ جانا چاہتی ہوں لیکن پھر ڈٹنا اور جمنا بھی سیکھ ہی لیا۔ تو جب دماغ پر استاد ہونے کا نشہ چڑھ گیا تو کسی بھی گروپ کا کہ وہ سب سیاست میں کبراء تھے، خود کو شطرنج کی بساط کا پیادہ سمجھنا گوارا نہیں ہوا، اور اپنے شعبے کے استاد سے جو کہ اس وقت صدر شعبہ تھے، کہہ بھی دیا کہ آپ لوگوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتے ہیں۔

جب بھی انجمن اساتذہ کے انتخابات آتے لگتا کہ عزت نفس پر بن آئی ہے۔ نہیں جانا چاہتے مگر جانا ہے، نہیں ووٹ دینا چاہتے مگر دینا ہے۔ ہماری بد دماغیوں کی وجہ سے اتنا ضرور ہوا کہ لوگ شش و پنج میں مبتلا ہونے لگے کہ ہمیں ووٹ دے گی یا نہیں لیکن ان کے طریقہ کار بھی جاننا چاہئیں، ؛لیکن بس وہ کہا نا کہ استاد بننے کے نشے میں چور تھے سو تھے۔

ایک انتخابات کا دل چسپ احوال سنیں۔ انتخابات سے ایک روز قبل رات کو ہمارے پاس شعبے کے سفارشی و سیاسی و غیر تدریسی عملے سے تعلق رکھنے والے مسٹر بلوچ کا فون آیا کہ صدر شعبہ کا میرے پاس موبائل میں میسیج آیا ہے کہ میں آپ تک یہ پیغام پہنچا دوں کہ کل آپ ووٹ دینے نہ آئیں۔ میں نے جواب دیا کہ آپ ان کا میسیج مجھے فارورڈ کر دیں، وہ تو اس نے نہیں کیا، لیکن اب ہمارے اوپر ووٹ ڈالنے جانا گویا فرض ہو چکا تھا، سو ہم گئے اور ہم نے بریانی بھی وہیں کھائی اور اپنے شعبے کی سینئر سیاسی خاتون کی باتیں بھی سنیں کہ لوگ ووٹ تو کہیں اور ڈالتے ہیں اور بریانی یہاں کھاتے ہیں۔

ایک اور مزے کی بات جو ہم نے کی نہیں بلکہ ہم سے ہو گئی وہ یہ کہ اس گروپ کے ایک اور استاد جو شعبہ کامرس کے ہیں ان سے بڑی معصومیت سے کہا کہ یہ تو ہم پر اعتماد ہی نہیں کرتے، انہوں نے کہا کہ نہیں نہیں ایسی بات نہیں، آپ ووٹ ڈالیں اور ہمارے ساتھ کھانا کھائیں۔ ہم نے دوسرے گروپ کو ووٹ ڈالا، اس گروپ کے ساتھ بریانی کھائی اللہ اللہ خیر صلا۔

غاصب انگریز یہاں غلط نہیں تھا جب اس نے کہا کہ ابھی یہ لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ ملک سنبھال سکیں، ایسا اس نے کیوں کہا؟ ہمیں تو یہی لگتا ہے کہ اس کو ہمارے انداز و اطوار میں شاہی کا چسکا نظر آتا تھا اور جمہوری اقدار و رویوں میں قحط الرجال دکھائی دیتا تھا۔ ہم زبان سے جمہوریت جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں لیکن مخالف کی آواز سننا نہیں چاہتے۔ ووٹ میرا جمہوری حق ہے، دینا نہ دینا میرا فیصلہ، غیر جانب داری میرا اقدام، کوئی فون کیوں کرائے کہ فلاں ووٹ ڈالنے نہ آئے، یعنی جیت کے لیے کیسے کیسے داؤ پیچ استعمال نہ کرتے ہوں گے۔

سیاسی امتحانی پوزیشن، سیاسی بھرتیاں، سیاسی ترقیاں، سیاسی ڈگریاں ( دیگر قسمیں بھی ہیں ) ؛اس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ صرف انفرا اسٹرکچر تعلیم میں ترقی کا نام نہیں ہے، کالے پیلے اسکولوں اور دری پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے والوں نے بھی دنیا میں خود کو منوایا ہے، لیکن اگر عمارت ہوگی اور بھرتیاں سیاسی ہوں گی تو پرندوں کی بیٹیں اور دھول مٹی ہی نظر آئے گی۔ سفارش کا ہمارے ہاں ہمیشہ سے چلن رہا ہے۔ کیا شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی کے اساتذہ کی تعیناتیوں کے پیچھے سفارش یا لابی نہیں ہوگی؟

لیکن انہوں نے خود کو منوایا اور اہل ثابت کیا، انہوں نے کلاسیں بھی لیں، کتابیں بھی لکھیں اور تراجم بھی کیے۔ ہمارے ہاں تو ایسے بھی آئے اور پی ایچ ڈی ہوئے کہ جن کے منہ سے سنا کہ ”یہاں پڑھتا کون ہے، یہاں کوئی نہیں پڑھتا۔“ جب میں نے ان کے گروپ ہی کے استاد سے اس بات کا زکر کیا تو انہوں جواب میں شان بے نیازی سے فرمایا کہ ’اس کا یہی تجربہ ہو گا‘ ۔ سیاسی سورماؤں کا اپنا ہی دلیلی و استدلالی نظام ترتیب پا جاتا ہے ، وہ سمجھنے کا گر کوئی نہیں جب یہ سمجھ میں آ جائے کہ سیاسی بیانیے ایسے ہی ہوتے ہیں، بے تکے، بے سروپا، بے ڈھنگے۔

ایک بھرتی کے موقع پر یہ بھی کہتے سنا کہ جہاں اتنے بیوقوف ہیں وہاں ایک اور سہی۔ یہ بھی سنا کہ ہم کسی کی روزی روٹی پر پاؤں نہیں رکھتے، ہمیں تو سن کر یہی لگا تھا کہ اوپر اللہ ہے اور نیچے یہ ہیں، رازق۔

ہمارے ہاں قسم قسم کی زمینی و فضائی ماحولیاتی آلودگیوں پر بہت بات ہوتی ہے، ہونی چاہیے، ٹھنڈا موضوع ہے، کسی پر بات نہیں آتی اور اس پر بیرونی امداد بھی آسانی سے مل جاتی ہے، راوی چین ہی چین لکھتا ہے تو ہم نے بھی سیاسی اور اخلاقی آلودگی پر لکھنے کا فیصلہ کیا ہے، اللہ سب کا رازق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments