مسخروں کی دنیا


میرا ذاتی مشاہدہ رہا ہے کہ بڑے بڑے سیاسی رہنماء، علماء کرام اور دوسرے مبلغین عوامی اجتماعات میں تقریر کرتے تو اس میں مزاح کا عنصر اگر زیادہ نہیں تو تھوڑا بہت تو ضرور ہی ہوتا۔ اسی طرح ہر فلم، ڈرامہ الغرض زیادہ تر تحریر و تقریر وغیرہ میں مزاحیہ کردار اور مزاح کے عنصر کی موجودگی اس کو چار چاند لگاتی۔ جبکہ حجروں اور نجی محفلوں میں مزاح، مذاق اور مزاح نگاروں اور ذرا کھلے لفظوں میں مسخروں کی موجودگی بھی ضرور ہوا کرتی تھی۔ اسی طرح زندگی تپتی دھوپ میں تھوڑی بہت مزاح و مذاق کچھ لمحوں کے سائے کا کام دیتا ہے۔

مزاح نگار تقریباً ہر محفل کی جان ہوا کرتے تھے اور ہیں۔ لوگ ان سے حظ اٹھانے کی خاطر ان کو اہمیت بھی دیا کرتے تھے۔ اس طرح بہت سے لوگوں نے اس کو بطور ہنر اور بہت سوں نے بطور پیشہ اپنا لیا۔ ایسے لوگ عام طور پر غریب اور بے روزگار ہوا کرتے تھے۔ اور یہ ان کا مستقل ذریعہ معاش بن کے رہ گیا۔ چھوٹے بڑے اداروں، محفلوں اور اداروں میں ان کا آنا جانا رہتا تھا اس لیے بہت کچھ سیکھتے اور آزماتے رہے۔ مالی مفاد اور شہرت کے حصول کے لیے مزاح کو بھی خوشامد اور چاپلوسی کا تڑکا لگاتے لگاتے اس فن میں بھی بہت ماہر ہوتے گئے۔ بلکہ کمال کے خوشامدی بن گئے۔

ان کا باقاعدہ ایک غیر محسوس نیٹ ورک بنتے بنتے ایک منافع بخش کاروبار اور پیشے کی شکل اختیار کر گیا۔ ہر جگہ ہر محفل اور ہر دربار میں نہ صرف آنے لگے بلکہ مخصوص عادات کی وجہ سے کچھ کچھ مقام بھی حاصل کرتے گئے۔ ان کی بڑھتی ہوئی حیثیت اور مالی فوائد کو دیکھتے ہوئے اور لوگ بھی ان کے رنگ میں رنگنے لگے۔

پھر ہر جگہ بلکہ ذمہ دار ترین فورموں میں ان کی موجودگی نظر آنے لگی۔ اور سنجیدہ، تعلیم یافتہ اور عزت دار لوگوں نے ایسے غیر سنجیدہ جگہوں کو وقت کا ضیاع، لاحاصل بلکہ اپنے اور دوسروں کے لیے حقیقی معنوں میں باعث شرم اور باعث نقصان سمجھتے ہوئے شرکت کرنا ہی چھوڑ دیا۔ اور تقریباً ہر جگہ مزاح نگاروں اور خوشامدیوں کا ٹولہ صاحبان مشاورت اور مالکان سیاہ و سفید بنتے گئے۔ جو آج کل ہر سطح کے ہر فورم میں نظر آرہے ہیں۔

اب ایسے لوگ جو سنجیدگی، علم و دانش اور اچھے برے کی تمیز ہی نہیں رکھتے اور ان کا مطمح نظر صرف اور صرف آقاؤں کی خوشامد اور ان کو خوش کر کے مفاد حاصل کرنا ہی ہوتا ہے۔ وہ کسی مسئلے کی سنجیدگی کا ادراک رکھتے اور نہ اس کے مثبت و منفی پہلو پر نظر رکھتے ہیں۔ یہ نہ تو آقاؤں کے مرضی اور خواہش کے خلاف جا سکتے ہیں نہ کچھ کرتے ہیں۔ بس وہی کہتے ہیں اور وہ ہی کرتے ہیں جس سے آقا وقتی طور پر خوش ہوں۔

یہ لوگ دوسرے بڑے بڑے لوگوں سے بھی خوب بنائے رکھتے ہیں۔ اور اس کے لیے بھی اپنے تجربے اور فن کا بھر پور استعمال کرتے ہیں۔ اور اپنے لیے جگہ بنائے رکھتے ہیں۔ اور کسی بھی منفی اور مشکل حالات میں اپنے آقاؤں کا ساتھ دے کر سختیاں جھیلنے کی بجائے دوسری جگہ برا جمان ہوتے ہوئے مذاق مذاق ہی میں گنگناتے رہتے ہیں :

تو نہ سہی اور سہی اور سہی

ایسے لوگوں کی یہ عادت، فطرت اور روش تو ان کی مجبوری ہوتی ہے۔ کیونکہ دوسرے کسی کام کے تو ہوتے ہی نہیں۔ اور صرف یہ مسخرہ فن اور خوشامد ہی ان کی روزی روٹی ہوتی ہے۔ لیکن حیرت ان نا اہل، سادہ بلکہ بے وقوفی آقاؤں پر بھی نہیں بلکہ ان بہت سے دانا اور خیر سے ذمہ دار لوگوں پر ہوتی ہے۔ جو جانتے بوجھتے ایسے لوگوں کو اتنی اہمیت دیتے ہیں اور سنجیدہ، مخلص اور کام کے لوگوں کی تمام علم و دانش، وفاداری اور ان کے تجربے کو ان خوشامدیوں پر قربان کر دیتے ہیں۔

اور پھر تکلیف اور مشکل وقت میں سنجیدہ اور سمجھدار لوگوں سے ساتھ دینے کی توقعات رکھتے ہیں۔ اور ساتھ نہ دینے پر گلے شکوے تو کرتے ہی ہیں اپنے اپنے مقاصد میں بدترین ناکامی کا منہ بھی دیکھتے ہیں۔

اگر بر وقت مردم شناسی، اپنے پرائے، دودھ اور خون کے مجنون میں تمیز کرتے تو ایسے دن دیکھنے نہیں پڑھتے۔ ان آقاؤں کی ذاتی معاملات ہوں تو ان کی مرضی جیسا چاہے ویسا کرے نفع بھی ان کا نقصان بھی ان کی عزت بھی ان کی، بے عزتی بھی ان کی، جو وہ بوتے ہیں وہی کاٹیں گے۔ لیکن عوام کو اعتراض اور تشویش اس وقت ہوتی ہے جب یہ آقا، ذمہ دار عوامی اور سرکاری اداروں کو بھی خوشامدیوں کے تختہ مشق بناتے ہیں اور عوام ناکردہ گناہوں کی سزا جھیلتے ہیں۔

شاید یہ بڑے لوگ بھی اندر سے اتنے ہی چھوٹے ہوتے ہیں، جس کا اندازہ مجھے ایک چھوٹے سے واقعے سے بھی ہوا۔ تو ہوا یوں کہ ایک دن کچہری میں اپنے چیمبر میں بیٹھا تھا۔ کچھ بندے بھی ساتھ تھے جن کے مختلف دفاتر میں کام تھے۔ ہر کوئی اپنی بات کر رہا تھا۔ ایک بندے نے بہت تنگ کیا تو غصہ ہوئے اور مجھے مخاطب کر کے بولے : وکیل یہ ہمارے بڑے ( لیڈر) بھی بڑے بے وقوف اور کسی کام کے نہیں ہیں۔ میری حیرانی دیکھ کے خود ہی بولے  ”دیکھیں نا وکیل صاحب ہم جیسے انگشت چھاپ ان کے مشیر اور کرتے دھرتے ہیں تو یہ ملک خاک ترقی کرے گا“ اس کی اس بے باک اور حقیقی بات نے میری آنکھیں کھولیں اور بہت کچھ جان گیا۔ کیونکہ سچ یا تو نشے میں بولا جاتا ہے یا غصے میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments