ڈاکٹر بلند اقبال کی کتاب: پلیٹو سے ما بعد جدیدیت تک مغربی ادب


زیر نظر کتاب ایک ایسے مصنف کی کتاب ہے جس نے ایک نہایت دلچسپ محرک کے تحت کتاب لکھی یہ تحریک شاید ادب کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے کا اعلان کرتی ہے۔ دراصل یہ مصنف کی ایک دلچسپ ادا معلوم ہوتی ہے لیکن اس ادا کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

وہ لکھتے ہیں کہ ”مجھے پڑھنے کو کوئی کتاب نہیں مل رہی تھی سوچا کہ کیوں نہ کتاب خود لکھ لی جائے اور اسے پڑھا جائے“

یہ جملہ کتاب کا ون لائنر بھی ہو سکتا ہے۔ ایسا مصنف جو ہر وقت لائبریری میں بیٹھتا ہے اور ڈھیروں کتابیں اس کی دسترس میں ہیں اور لاتعداد کتابیں بھی تصنیف کر چکا ہو۔ ادھر مجھ جیسے علم کا شوق رکھنے والے قاری بھی ہیں کہ کتابیں تو بہت ہیں مگر پڑھنے کا وقت اور ارتکاز توجہ کہاں سے لائیں۔ یہ جملہ ڈاکٹر بلند اقبال نے کتاب کی اشاعت کا اعلان کرتے ہوئے اپنی پوسٹ پر لگایا تو مجھے بھی سوجھی کہ

”کتاب پڑھی نہیں جاتی تو کیوں نہ اپنے آپ کو ریویو لکھنے کا پابند کر لیا جائے اور کتاب پڑھے جانے کا محرک پیدا کر لیا جائے تاکہ کتاب پڑھی جائے“ ۔

لکھنے پڑھنے کی دنیا سے گہرا تعلق رکھنے والے مصنف کا نام ڈاکٹر بلند اقبال ہے۔ جن کو میں محض چند برس سے جاننا شروع ہوئی۔ انہیں ایک ٹی وی چینل پر نامور سکالر اور ماہر نفسیات ڈاکٹر خالد سہیل کے ساتھ ایک بہت ہی شاندار پروگرام ”دانائی کا سفر“ میں فلسفے اور دانش مندی کی شمع جلاتے اور مکالمہ کرتے روبرو دیکھا۔ اس پروگرام کے بعد ڈاکٹر بلند کی شخصیت کی پرتیں کھلیں کہ وہ نابغۂ روزگار اور ہمہ جہت ہیں۔ اور علم و ادب کے کئی محاذوں پر براجمان ہیں۔ افسانہ نگاری، ناول نگاری، فلسفہ، نفسیات اور کتابوں کا تعارف۔ ان کی دو کتابیں میری لائبریری میں پہلے سے موجود ہیں۔

حیرانی کے ساتھ یہ بھی سنا کہ وہ نہ صرف پاکستان کے ایک اعلی اور شہرت یافتہ تعلیمی ادارے ڈاؤ میڈیکل ہیلتھ یونیورسٹی سے ہیں بلکہ نیو یارک میڈیکل کالج سے بھی گریجوایٹ اور آریگن ہیلتھ سائنسز یونیورسٹی یونائٹڈ سٹیٹ سے فیلو شپ بھی حاصل کر چکے ہیں اور اب نور فولک جنرل ہسپتال اونٹاریو کینیڈا میں چیف آف ہاسپٹلسٹ میڈیسن کے طور پر سروسز فراہم کر رہے ہیں۔

ایک اور حوالے کا بھی قارئین سے ذکر ضروری ہے کہ موصوف پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ شاعر جناب حمایت علی شاعر کے فرزند ارجمند ہیں۔ حمایت علی شاعر کو کون نہیں جانتا جنہوں نے شاعری، فلمی گیت نگاری، ڈرامہ نگاری اور فلم سازی میں اپنے آپ کو منوایا۔ زمانے کو ڈاکٹر بلند اقبال جیسا قابل فرزند دیا جس نے نہ صرف اپنے والد اور ادبی گھرانے کا نام بلند کیا اور خود کو بھی کئی جہتوں کے ساتھ منوایا۔ ان کے بھائی ڈاکٹر اوج کمال بھی کئی صحافتی کتابوں کے مصنف ہیں اور تین دہائیوں سے ایک معتبر ادبی رسالے ”دنیائے ادب“ کے مدیر ہیں۔

اس اعلی ادبی خانوادے سے تعلق رکھنا اگرچہ ایک بہت بڑا تعارف اور حوالہ ہے لیکن بلند اقبال کا اپنی انفرادیت اور ذاتی علمی حوالے سے خود بھی ایک بہت بڑا مقام ہے۔ کینیڈا کی سرزمین پر ان کا وجود علم و آگہی کے سمندر سے نہ صرف کینیڈا بلکہ پوری دنیا کے ذہنوں کی شعوری نشو نما کے لئے ایک فیض عالم ہے۔ یعنی ڈاکٹر بلند اقبال جسموں کی صحت کے علاوہ ذہنی و شعوری بالیدگی اور نشو نما کا استعارہ ہیں۔ ٹی وی چینلز پر جب وہ ادب اور فلسفہ پر ڈاکٹر خالد سہیل کے ساتھ محو گفتگو پائے گئے تو حیرانی ہوئی کہ اس دور کے شاپنگ مینیا اور کنزیومر سوسائٹی میں بھلا کوئی کیوں کر طبی معالج ہونے کے ساتھ ساتھ بڑی استقامت کے ساتھ عوام الناس کو بھی انگلی پکڑ کر بہت آسان فہم انداز سے قدیم فلسفے اور ادب کے گمشدہ ادوار میں لے جا کر فکر و شعور کی ٹارچ کے ساتھ رہنمائی کر سکتا ہے۔

بہت سے افسانوں اور ناولوں کے مصنف کی حالیہ کتاب نے تو اور بھی چونکا دیا۔ اس کتاب کو پڑھ کر یہ خیال پیدا ہوا کہ کچھ لوگوں کو مل کر احساس ہوتا ہے کہ ” تو بڑی دیر سے ملا ہے مجھے“۔

ڈاکٹر بلند اقبال کے بارے میں یہ بلا مبالغہ ”کاش“ کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے کہ ”کاش ڈاکٹر بلند میری نسل سے پہلے پیدا ہوئے ہوتے“ اور یہ کتاب اس وقت میرے ہاتھ میں ہوتی جب میں 1974 میں فلسفہ پڑھنے کے شوق میں جدوجہد کر رہی تھی۔ یہ کتاب بلند اقبال نے مجھ سے پہلے پیدا ہو کر لکھی ہوتی تو فلاسفی میں بہترین گریڈ ملتے۔ خیر کتاب پڑھنے کے لئے عمر کی قید تو نہیں۔ مہد سے لحد تک یہ سفر جاری رہتا ہے اور یہ کتاب اس سفر کو سہل بنانے کا استعارہ ہے۔

کتاب : ”پلیٹو سے پوسٹ ماڈرن ازم تک مغربی ادب“

چونکا دینے والی علمی خود کفالت کے عظیم محرک کے تابع لکھی گئی اس کتاب کی رونمائی یوں ہے کہ 328 صفحات، نہایت اجمالی پہلو لئے ہوئے ٹائٹل، بیک ٹائیٹل اور بہترین فلیپ کے ساتھ سانجھ پبلی کیشن نے لاہور پاکستان سے اسی سال شائع کی ہے۔

انتساب ادبیات کے ان طالبعلموں کے نام جو علم و ادب میں مشرق و مغرب کے قائل نہیں۔ ابتدا اپنے والد حمایت علی شاعر کے ایک تین مصرعی شعر سے ہے ؛
حرف و رنگ و صورت سب اظہار کے آداب ہیں
ماورائے ذہن ہر تمثیل، ہر کردار میں
آدمی کی آرزو ہے، آدمی کے خواب ہیں

پیش لفظ میں وہ اس کتاب لکھنے کے محرکات بیان کرتے ہیں کہ یہ کتاب میری نفسیاتی ضرورت تھی لیکن بہ یک وقت اخلاقی ذمہ داری بھی کہ مشرقی و مغربی ادب کو فکری سطح پر ہم آہنگ کیا جائے۔ اور میٹا فکشن کے دور میں بیمار شعور کی صحت کا ادراک پیدا کیا جائے۔

کتاب کے دس ابواب اور قدیم یونان سے موجود تک طویل علمی سیر بینی یا علمی سفر نامہ ہے۔

اگرچہ بادی النظر میں یہ کتاب حل شدہ پرچہ جات کی طرح ایک پراڈکٹ ہو سکتی ہے۔ اور اس لحاظ سے مصنف نے کمال فن سے ہزاروں برسوں پر محیط اس طویل علمی سفر کو 328 صفحات میں سمویا ہے کہ قاری چشم زدن میں قدیم علمی یونان سے حال کے بد حال علمی دور میں داخل ہوتا ہے۔ لیکن حل شدہ تعلیمی خلاصوں میں اور اس کتاب میں بہت بڑا فرق ہے۔ جو کسی بھی قاری کو نظر آ سکتا ہے اور قاری خود محسوس کر سکتا ہے کہ یہ علمی خلاصہ امتحان کے بعد طالبعلم کی خلاصی نہیں کراتا بلکہ اس پر ایک ایسی کیفیت طاری کرتا ہے کہ اس کا دل چاہے کہ وہ اگلی کلاس میں داخلہ لے اور یوں اس کتاب کی بنیادی سوچ پر جادہ پیما رہے اور کبھی یہ سفر ختم نہ ہو۔

یہ احساسات قاری کی حیثیت سے خالصتاً میرے ہیں لیکن یقین کامل ہے کہ ہر کوئی جو اس کتاب کو ہاتھ میں لے گا ایک مقناطیسی کشش صفحات پلٹ پلٹ کر قاری کو لفظ بہ لفظ پڑھنے کے ساتھ سوچ کی ایک تیز کرن سے روشن رکھے گی۔ یہ میرا چیلینج ہے۔

دوسرا چیلینج یہ ہے کہ یہ کتاب آج کے بے بس انسان کو جو فلسفے کو ایک وقت ضائع کرنے کا موجب سمجھتا ہے اور فلسفے کی اہمیت سے مکمل انکاری ہے وہ ماننے پر مجبور ہو جائے گا کہ فرد اور معاشرہ فلسفے کے بغیر مردہ ہیں اور فلسفہ کے بغیر کوئی ادب پنپ ہی نہیں سکتا۔ اگرچہ مصنف نے کسی خاص فلسفۂ حیات سے جانبداری نہیں برتی مگر قاری کو خود کہنا پڑے گا اس کتاب کے ذریعہ مصنف نے اس دور کو علم و ادب کا سنہری دور کہا ہے جب سیکولر فلسفہ کے تحت ادب تحریر کیا گیا اور فنون لطیفہ کی تمام اصناف زندگی میں داخل ہو کر ادب کی راجدھانی میں داخل ہوتی ہیں۔

کتاب کے تمام دس ابواب میں مغرب کے ادب کے ارتقائی سفر میں کسی نہ کسی فلسفہ حیات کی گرفت اس دور کے لکھاری پر رہی ہے۔ جب قاری یہ کتاب پڑھے گا تو ہر باب پڑھتے ہوئے وہ اپنے آپ کو اسی دور میں پائے گا۔ اسے محسوس ہو گا کہ وہ اس دور کے سحر میں مبتلا ہو گیا ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ کتاب سرسری پڑھی جائے۔ ایک شفیق استاد کی طرح یونان سے اب تک کی تاریخ فلسفہ و ادب کو دس ادوار میں بڑے سلیقے، سائنٹفک طریقے اور تقویمی ترتیب میں پرویا گیا ہے۔ اور تسلسل ایسا آسان فہم کہ اگلا باب پڑھتے ہوئے گزشتہ باب کا کوئی لفظ بھی ذہن سے محو نہیں ہوتا۔ یہ کتاب ایک قاعدے کی طرح ہر دور کے سماجی، سیاسی، معاشرتی، نفسیاتی اور علمی پس منظر، مشہور علمی شخصیات اور ان کے ادب پاروں اور فنی، تخلیقی اور ادبی شاہکار تحریروں کا ذکر بہت انصاف اور چابک دستی سے کرتی ہے کہ وہ نام اور تحریریں جن کو ہم علمی ایلیٹ کلاس کے پڑھنے کا حق سمجھتے تھے یا سمجھ میں نہ آنے کی وجہ سے خاطر میں نہ لاتے تھے وہ ڈاکٹر بلند اقبال نے ہر ایک کی دسترس میں رکھ دی ہیں۔ اگر قاری صرف قدیم میں دلچسپی رکھتا ہے تو وہ ایک باب پڑھ کر رک نہیں جاتا بلکہ مصنف اسے ٹرانزٹ ویزے کے ذریعے رک رک کر منزل تک پہنچاتے ہیں اور آج کے دور کے ادب کی حالت زار کے سدھارنے کے لئے لچک پیدا کر کے مرتے ہوئے قاری اور مرتی ہوئی کتاب کو زندہ کرنے اور رکھنے میں بے مثال کامیاب ہیں۔

میں نے ایک مخلص قاری کی طرح سے کتاب کو لفظ بہ لفظ پڑھا ہے۔

فلسفے، ادب اور نفسیات کے طالبعلموں کو یوں لگے گا کہ کوئی استاد بلیک بورڈ پر سجھا رہا ہے۔ اور وہ بھی اردو زبان میں۔ میرا خیال ہے کہ اردو زبان میں لکھ کر مصنف نے ہر خاص و عام پر احسان کیا ہے۔ شاید اب آسان فہم ہونے کی وجہ سے کوئی بھی ہمت نہیں کر سکتا کہ فلسفے کا مذاق اڑایا جائے یا اس کو زندگی کے کسی شعبے خاص طور پر ادب سے الگ کیا جائے۔

ہر باب میں ثابت کیا گیا ہے کہ ” فلاسفی از دی مدر آف آل سائنسز“ بلکہ سگی ماں ہے۔

اس کا ثبوت آج کا میٹا فکشن کا دور ہے جہاں فلسفے کے بغیر ہر انسانی قدر بے وقعت ہو رہی ہے اور کنفیوژن کی حالت میں عالم بدحواسی کا سامنا ہے۔ کیوں کہ انسانوں نے فلسفے کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کر کے ہر شعبے خاص طور پر ادب کو ماں کی جنت سے محروم کر دیا ہے۔ دل تو چاہتا ہے کہ کتاب کے ہر باب کی فوٹو کاپی کر کے قارئین کی خدمت میں پیش کی جائے لیکن یہ جذباتی ردعمل کتاب اور مصنف کے ساتھ نا انصافی ہو گا۔ ان ابواب کا جو کتاب میں ادوار کے عنوانات سے مفصل ہیں ان کا مختصر ذکر کردوں۔

پہلا دور مغربی ادب میں مذہبی اور غیر مذہبی روایتوں کا ذکر کرتے ہوئے ہیلینک (Hellenic) اور ہیبریک (Barbaric) جیسی اصطلاحات سے متعارف کراتا ہے۔

دوسرا دور یونانی دور کی سیاسی و سماجی تہذیب اور ادب میں انسانی اقدار کے عروج کے بارے میں ہے۔
تیسرے دور میں رومن عروج اور یونانی ادب کے زوال کا تذکرہ ہے۔
چوتھا دور قرون وسطی کے ادب کی اخلاقی اقدار
پانچواں دور نشاۃ ثانیہ اور مغربی ادب کی تعمیر نو۔
چھٹا دور نیو کلاسیکل دور میں سائنسی اور فلسفیانہ انقلابات اور یونانی ادب کی تشکیل نو کی نوید ہے۔

ساتواں دور رومانوی دور کے لقب کے ساتھ سیاسی و سماجی انقلابات اور مغربی ادب کی بدلتی تہذیب کی کہانی ہے۔

آٹھواں دور حقیقت پسندی کے فلسفے کے ادب پر اثرات اور حقیقت پسندانہ نفسیاتی و سماجی اظہار کی داستان ہے۔

نواں دور جسے بیسویں صدی کا ماڈرن ازم کہا گیا ہے اس کے پس منظر اور منظر کو بیان کرتا ہے۔
دسواں دور پوسٹ ماڈرن ازم کی ورچوئل دنیا اور میٹا فکشن کا دور کہلایا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب کو اگر آخری باب سے پڑھنا شروع کیا جائے تو یوں لگتا ہے مصنف نے بڑی بہادری سے اس ورچوئل دنیا کے ادب کا نوحہ لکھا ہے جس پر مصنف اور قاری کی آنکھ ضرور نم ہوتی ہے جہاں انسان، اور کتاب کنزیومر یا شاپنگ لسٹ کا حصہ بن گئے ہیں جہاں فلسفہ جیسی ماں بھی مر چکی ہے اور بن ماں کے گھر چل رہا ہے۔ لیکن مصنف کا حرف آخر جو ایک ون لائنر کی حیثیت میں امید دلاتا ہے کہ؛

ادب کے دور کی موت تو ممکن ہے لیکن انسانی تخیل کی موت نہیں ”“
اس موت کی وجہ ڈھونڈنے کے لئے قاری کو بے ساختہ پہلے نو ابواب کی طرف قصداً رجوع کرنا پڑتا ہے۔

اس کتاب کو مصنف غیر نصابی سوچ کر لکھتے ہیں لیکن میری بھرپور سفارش ہے کہ اس کتاب کو ادب اور فلسفہ کے کالج لیول کے نصاب میں لازمی شامل کیا جائے۔

کتاب حاصل کرنے کے لئے سانجھ پبلیکیشنز لاہور سے اس نمبر پر رابطہ کریں:
Ph # 92 333 405 1741
Email sanjhpk@gmail.com


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments