“چار آدمی” اور ڈاکٹر امجد ثاقب


میں نے چند کتابیں منگوائیں، ان میں یہ ایک کتاب کا عنوان تھا ”چار آدمی“ حقیقت تو یہی ہے کہ مجھے جن ناموں کا تذکرہ تھا اس کتاب کے سر ورق پر ان کی وجہ سے بہت معتبر کتاب محسوس ہوئی اور میں نے ازخود کشش محسوس کی۔ کتاب خریدنے کے بعد کئی دن یا ایک دو ماہ یہ کتاب کچھ مصروفیات کے باعث اور پہلے سے جاری شدہ زیر مطالعہ کتابوں کی وجہ سے یوں ہی کتابوں میں موجود رہی۔

پھر ایک دن میرے کچھ عجیب محسوسات تھے۔ جیسے میں کسی نئی کتاب کا مطالعہ کرنے کا سوچ رہا تھا، میرے سامنے کتابوں کا ڈھیر موجود تھا۔ ڈھیر اس لیے کہ ابھی تک میں شیلف میں ان ساری کتابوں کی ترتیب نہیں لگا سکا۔ اور میری نظر اس کتاب پر پڑی اور میں نے کتاب مطالعہ کرنے کے لیے اٹھائی۔ پھر میں نے تعارفی نوٹس اور چند صفحات کا مطالعہ کر کے رکھ دی کتاب۔ اور پھر ایک اور دن 6 اگست کی شام تھی۔ جب میں نے کتاب اٹھائی اور مطالعہ شروع کیا!
اور یہ مطالعہ چوبیس گھنٹے جاری رہا اور جاکر دوسری شام کتاب مکمل کر ڈالی۔ 336 صفحات پر مشتمل ایک کتاب جو اس تسلسل اور دل جمعی سے تحریر کی گئی ہے۔ جس میں دلچسپی کے حقیقی اور حقیقت پر مبنی واقعات اس قدر اور اس طرح ترتیب کے ساتھ رکھے گئے ہیں سجا کر کہ آپ کلی طور پر اس کتاب میں اتر کر کرداروں کے ساتھ ساتھ گھومنا پھرنا شروع کر دیتے ہیں۔

روانی، تسلسل، الفاظ کی سادگی، کا مظہر یہ کتاب دعووں اور آرائش سے دور یہ کتاب نہیں ایک چھوٹا سا جزیرہ محسوس ہونے لگتی ہے جس میں موجود چار لوگوں کی آپ بیتی نما باتیں ہیں کہ آپ حیران رہ جاتے ہیں، ششدر اور مبہوت کھڑے رہ جاتے ہیں۔

کیسے نقطہ نقطے سے کیسے ملتا ہے۔ بات سے بات بنتی ہے؟ کتنی صدیاں لگتی ہیں اس کاروبار میں جب ایک شخص کا بویا ہوا باغ ڈیڑھ دو سو برس بعد کوئی اور شخص اپنی نگہبانی اور نگرانی میں کیسے لے لیتا ہے۔ کڑی کڑی سے ملتی ہے۔ نقطہ نقطے سے جڑتا ہے۔ اور جیسے کرن کرن سے ملتی ہے تو سورج بنتا ہے۔ کسی کا نیکی کا جذبہ کس طرح سفر کرتا ہے بلا تفریق مذہب و مسلک یا رنگ و نسل کے۔

کس طرح معاشروں میں نیکی کے وجود اور بیج پروان چڑھانے جاتے ہیں اور پلتے رہتے ہیں۔

میں ایک دن میں روشنی کی مانند ہی سفر کرتا رہا۔ کیسی محویت تھی یہ میں اب بھی سوچ رہا ہوں۔ میرے ہاتھ میں کتاب تھی اور میں نے مکمل کردی۔ میں کتاب پڑھتا ہوں۔ سو صفحات تک میری نارمل روزانہ روٹین ہے۔ لیکن ایک دو نشستوں میں یوں کتاب مکمل کروں گا، اس پر ذہن تیار نہیں تھا۔ شیرینی جو الفاظ میں شامل ہے اور حلاوت، چاشنی اور اصل چیز بہترین الفاظ و اصطلاحات اور واقعات کا ایک پرخلوص اظہار جو سلسلہ وار، لہر در لہر جاری رہتا ہے۔ جس کے بعد قاری کسی صورت یہ کتاب مکمل کیے بنا نہیں رہ سکتا۔ سر گنگا رام سے لے کر ڈاکٹر محمد امجد ثاقب صاحب تک یہ سفر مجھے نئی معلومات، سوچنے کی نئی جہتوں اور نیکی کرنے کے جذبات اور ارادوں سے آگاہی دے گئی!

آپ نیکی کر دیں۔ نیکی کا اپنا سفر ہے۔ انسان کو سہولت دیں یہ سہولت ایک سفر مسلسل ہے جو آپ نے شروع کر دیا، یہ چلتا رہے گا، اس سفر کی کڑی کوئی اور تھامے گا، یہ سفر رکنے کا نہیں۔ کسی صورت، کسی وقت، کسی سمے، کسی جگہ، کسی بندے کے توسط سے پھر سے کونپلیں پھوٹیں گی۔

تو میں آپ کو اس کتاب کی چند جھلکیاں دکھانے کی جسارت کروں گا۔

پوری کتاب تو آپ خود پڑھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ داستان بھی کیا ہی خوب داستان ہے۔ ڈیڑھ سو سال کا قصہ جو 336 صفحات میں سمویا گیا ہے۔

جیسے ایک خوبصورت بات سے کتاب کا آغاز ہے کہ ” ہر بڑے آدمی کی کہانی ہر دوسرے بڑے آدمی کی داستان میں رچی بسی ہے“ ۔

بڑی خوبی کی بات کے ڈاکٹر رشید چوہدری کی آپ بیتی میں بہت سارے فلسفی، اسکالرز اور نفسیات دانوں کی باتوں کا یا اقوال زریں کا حوالہ موجود ہے۔

یہ تین روحوں سے ایک کچہری کا تذکرہ ہے۔ جن کے ساتھ ڈاکٹر محمد امجد ثاقب صاحب کی عید کے دن ایک دماغی امراض کی مشہور زمانہ ہسپتال جو ان کی ایڈمنسٹریشن کے تحت فعال ہے (فاؤنٹین ہاؤس لاہور) میں ملاقات ہو جاتی ہے۔ اور باتوں باتوں میں تاریخ کے دریچوں سے نکل آنے والی عظیم شخصیات اپنی داستان حیات سنانا شروع کر دیتی ہیں۔ جسے ڈاکٹر صاحب نے اپنی زبانی بیان کیا ہے لیکن یہ بیان بھی کیا بیان ہے؟ کیسے کہیں کہ تینوں شخصیات نے خود یہ سب بیان نہیں کیا! پڑھتے وقت محسوس ہو رہا تھا کہ ڈاکٹر رشید چوہدری صاحب بات کر رہے ہیں۔

پھر ملک معراج بات کر رہے ہیں جس طرح وہ ضیا کا تذکرہ کر رہے تھے۔ یا جو محبت اور چاشنی ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے لیے ان کی زبان و دل میں تھی اس کو کوئی اور بیان کرے۔ اور وہی چاشنی اور محبت بیان میں لے آئے تو یہ سحر ہے، جادو ہے، طلسم ہے۔

اس کتاب میں ہر داستان کے اندر پیچ لگے ہیں۔ خوبصورت باتوں کے جیسے یہ دیکھیے

”کچھ لوگ غم کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں، کچھ اسے اپنی طاقت بنتے ہیں۔ گنگا رام کا تعلق دوسرے قبیلے سے تھا“ ۔

دراصل یہ کتاب، اس نیکی کے چشمے سے شروع ہوتی ہے جو سر گنگا رام کی صورت میں اس دنیا میں ظہور پذیر ہوا۔ جنہوں نے بیوہ عورت کی دوسری شادی کے لیے آواز بلند کی جو ہندو سماج کے خلاف ایک زوردار آواز تھی جس نے ہندوستان میں موجود ہندو سماج کو لرزا دیا۔ بہت مخالفت ہوئی لیکن سر گنگا رام نے یہ کام کر دکھایا کہ جوان بیوہ عورتیں یا لڑکیاں کیوں زندگی جیسا قیمتی سرمایہ فرسودہ رسومات کی بھینٹ چڑھائیں۔ ان کی ایسوسی ایشن نے 1914 میں یہ کام شروع کیا اور ہندوستان میں 1932 تک چالیس ہزار شادیاں کروا دیں ان شادیوں کی کوئی فیس نہیں رکھی تھی۔

پھر سر گنگا رام نے 1921 میں ”ہندو بیوہ گھر“ کا سنگ بنیاد رکھا اور سنہ 1922 میں جب انہیں سر کا خطاب ملا تو انہوں نے کہا ”یہ اعزاز مجھے ان آنسوؤں کے طفیل ملا ہے“ جو ان ہزاروں عورتوں نے میرے لیے بہائے ہیں۔ کیا خوبصورت خیال اور اس کا عملی جامہ ہندو بیوہ گھر کی صورت نظر آیا کہ سماج میں تبدیلیاں رونما ہونی شروع ہو گئیں۔

آگے کتاب ایسے کتنے ہی خوبصورت واقعات اور چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھر جملوں سے محظوظ کرتی ہے۔ چلیں یہ دیکھیں!

”نیکی ضائع نہیں جاتی، فقط چہرہ بدلتی ہے“ ۔

یہ قصہ ہندو بیوہ گھر سے شروع ہوتا ہوا فاؤنٹین ہاؤس لاہور تک کیسے پہنچتا ہے۔ یہ نیکی کا سفر کس طرح ہندو بیوہ گھر سے شروع ہو کر فاؤنٹین ہاؤس لاہور اور اخوت فاؤنڈیشن تک آ پہنچتا ہے یہی اس کتاب کی خوبصورتی ہے۔

یہی چاروں مختلف ادوار کے مختلف المزاج لوگوں کی طرف سے نیکیوں کے سفر کی ایک connecting dots کی کہانی ہے نیکیوں کا حسین سنگم کہہ لیں یا امتزاج کہیں وہ بیان کیا گیا ہے۔ پنجاب کی پانچ ندیاں ایک جگہ اکٹھا ہو کر ملتی ہیں اور اس جگہ کو ”پنجند“ کہا جاتا ہے۔ پھر سر گنگا رام، ملک معراج خالد، ڈاکٹر رشید چوہدری اور ڈاکٹر محمد امجد ثاقب کی سوچ اور نیکیوں کا یہ جنکشن جس جگہ آ کر ملتا ہے اسے ”فاؤنٹین ہاؤس لاہور“ کہہ لیں یا ”ہندو بیوہ گھر“ یا ”اخوت فاؤنڈیشن“ ۔

ایک ہی بات ہے یا پھر اس کو پنوں اور کاغذات کا مجموعہ بنا کر ”چار آدمی“ کا نام دے دیں۔ جس جگہ ہندو بیواؤں کی داد رسی ہوئی انہیں حقوق ملے۔ جس جگہ پھر کوئی دردمند اٹھا اور نفسیاتی مریضوں کی داد رسی شروع کردی ان کا علاج کرنا شروع کر دیا پھر کسی نے اسی ”ہندؤ بیوہ گھر“ کی الاٹمنٹ جو سر گنگا رام کی ملکیت تھا بعد از آزادی ڈاکٹر رشید چوہدری کے ”فاؤنٹین ہاؤس“ کے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے کردی اور پھر یہ باگ ڈور کس طرح ڈاکٹر محمد امجد ثاقب کے ہاں پہنچی یہی اس داستان کا خوبصورت پہلو ہے۔ جہاں معلومات، احساس اور جذبے کے کئی سارے واقعات بہتے جا رہے ہیں۔ آپ شنان لے سکتے ہیں۔ بھیگ سکتے ہیں ان واقعات کو محسوس کر سکتے ہیں! با آسانی کر سکتے ہیں!

یہ جملہ دیکھیں

”ہاں، ماضی کبھی ختم نہیں ہوتا بلکہ وہ ماضی ہوتا ہی نہیں۔ وہ ہم میں گھل جاتا ہے اور مستقبل کی تشکیل کرتا ہے“ ۔

سگمنڈ فرائڈ کہتے ہیں، ”بہادری تو صرف محبت سے جنم لیتی ہے“ ۔
سگمنڈ فرائڈ ایک اور جگہ کہتے ہیں
“جسے ماں کی لازوال محبت مل جائے وہ عمر بھر فتح کا احساس کے کر زندہ رہتا ہے۔”
یہ فاؤنٹین ہاؤس کی تاریخ دیکھ لیں ذرا۔

”دنیا کا سب سے پہلا فاؤنٹین ہاؤس نیو یارک میں بنا، جب پانچ افراد نے جو ذہنی امراض کا شکار تھے، مل کر ایک چھوٹا سا مکان کرایہ پر حاصل کیا۔ پھر گھر خرید لیا، وہ اپنے آپ کو وانا ( : WE ARE NOT ALONE =WANA) کہنے لگے یعنی“ ہم اکیلے نہیں ”۔

اس گھر میں ایک چھوٹا سا فاؤنٹین بھی تھا۔ اس فوارے کی نسبت اس گھر کا نام فاؤنٹین ہاؤس رکھا۔

ڈاکٹر رشید چوہدری، پاگلوں اور نفسیات کے میدان میں ان کی کاوشوں اور پاکستان میں نفسیات کے موضوع اور میدان میں کی گئی ابتدائی اور انتہائی کاوشوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو ایک حقیقت پر مبنی جائزہ ہے۔ کہ کس طرح لوگوں پر عذاب ڈھائے گئے ہیں ہمارے ملک میں جب ان ذہنی۔ کناروں کو ملاؤں، پیروں، فقیروں اور ڈھونگی باباؤں کے آگے ڈال دیا گیا ہے جس کی وجہ سے کئی نسلیں اور قیمتی زندگیاں تاراج ہو کر رہ گئیں۔

آگے کسی موڑ پر ایک خوبصورت جملہ، ” لوگ بھوک سے نہیں، بے اعتنائی سے مرتے ہیں“ ۔
یا ”آدمی زمانے سے لڑ سکتا ہے خود سے لڑنا مشکل ہے“ ۔

ایک واقعہ اور نیکی کا تذکرہ کہ جب میڈم نور جہاں نے ”فاؤنٹین ہاؤس لاہور“ میں پروگرام کیا اور وہاں پانچ لاکھ کی خطیر آمدنی کی مکمل رقم عطیہ کردی۔ یہاں بہت ساری سیاسی، سماجی، شخصیات، عالمی شہرت یافتہ انسانی ہمدرد جیسے مدر ٹریسا تک آ چکی تھیں۔

میں بہت سارے واقعات جو بعد میں ملک معراج خالد اور سر گنگا رام نے بیان کیے ہیں جس میں لاہور کی تعمیر کے تذکرے ہیں جنہیں سر گنگا رام نے انجنیئرنگ کا کمال دکھا کر تعمیر کیا اور ملک معراج خالد کا سفر جب ایک دودھ بیچنے والا لڑکا ملک کا وزیر اعظم بنا جسے بینظیر بھٹو صاحبہ نے الیکشن کا ٹکٹ نہیں دیا تو ان کی بیوی ان کے پاس ذوالفقار علی بھٹو کا خط لے کر آئی کہ جس میں بھٹو صاحب نے لکھا تھا کہ معراج خالد تمہیں میرے علاوہ کوئی اور سمجھ ہی نہیں سکتا۔ جو آخر تک ایک فلیٹ میں ایک عام سے آدمی کی حیثیت سے زندگی بسر کرتا رہا۔

بہت سے واقعات میں من و عن بطور حوالہ یہاں پر رقم کروں دل تو یہی چاہ رہا ہے لیکن۔ پھر اس طرح آپ اس میں موجود لہروں، رازوں، تسلسل، چاشنی، روانی، توانائی، محبت، خلوص، نیکی اور دریا دلی کو محسوس نہیں کر پائیں گے۔ میری ایک جو رائے ہے کہ آپ کتاب خریدیں۔ اس کو پڑھیں۔ اور پھر بات کریں۔

دیکھیے یہ جو ڈیڑھ دو صدیاں پہلے بات نیکی کی نکلی تھی کسی ہمدرد دیرینہ دل سے انسانیت کے خیرخواہ دل سے وہ کس طرح سفر طے کر کے یہاں آج تک پہنچی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments