مقامی مسائل اور سیاسی ناکامی


بلاشبہ اللہ تعالی ’نے انسان کو اشرف المخلوق کا درج دے کر اس کی تعظیم و تکریم بڑھا دی ہے۔ جبکہ دوسری طرف ماہرین سماجیات انسان کو سماجی حیوان کہتے ہیں۔ انسان اور حیوان میں تمام جبلی تقاضے ایک جیسے ہی ہیں۔ اگر فرق یا برتری ہے تو صرف عقل اور شعوری بنیاد پر ہے۔ ایسی عقل ایسا شعور جو انفرادی اور اجتماعی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے ہمہ وقت مصرف عمل رہتی ہے۔

اور جہاں اجتماعیت کی کثرت ہوتی ہے۔ وہی معاشرہ جنت نظیر ہوتا ہے۔ اور جہاں اجتماعیت پر انفرادیت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ وہاں انسانوں میں ایسے ایسے منفی عادات و اطوار در آتے ہیں کہ معاشرہ کہ جہنم بن جاتا ہے۔

وہ اس طرح کہ ہر ایک ذاتی نفع کی طرف مائل رہتا ہے۔ اپنی ذمہ داری اور دوسرے کے حق کو اہمیت ہی نہیں دیتا۔

ہر معاشرے قومی سطح کے مسائل کے علاوہ مقامی سطح کے بھی مسائل ہوتے ہی۔ چونکہ کاروبار زندگی چلانا اکیلے فرد کے لیے ممکن نہیں اور نہ کوئی ایک بندہ ہی ایک کام یا کاروبار کرتا ہے۔ اس لیے ہم خیال، ہم پیشہ اور مشترک مفاد کے حامل لوگ یکا کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ اگرچہ معاشرے کے ہی افراد ہوتے ہیں لیکن ذاتی اور کاروباری مفاد دیگر لوگوں جدا ہوتے ہیں۔ اس طرح کے مختلف کاروبار، خدمات اور ملازمتیں ہوتی ہیں۔ جن سے مخصوص لوگ وابستہ ہوتے ہیں

بد قسمتی سے اکثریتی اشرف المخلوقات پر سماجی حیوان کی حیوانیت حاوی ہو جاتی ہے۔ اور وہ انسانی اقدار کی بجائے لالچ، خود غرضی کی راہ چلتے رہتے ہیں۔ اور دوسروں کے منہ سے نوالے چھیننے لگتے ہیں۔ یوں ایسے لوگ ظلم، زیادتی، حق تلفی، کم تول، گراں فروشی، ملاوٹ، کام چوری، اختیارات کا عدم استعمال، تجاوز اختیارات، دو نمبری اور دیگر منفی اور عوام دشمن سر انجام دینے لگتے ہیں۔ حرام کی کمائی سے تجوریاں بھرنے لگتے ہیں۔ اور پھر اپنے ضمیر کی اطمینان اور کچھ دکھاوے کی خاطر جنونیت کی حد تک مذہبی بن جاتے ہیں۔

جو بھی ہوں اور جیسے بھی ان کو اپنے ان منفی اعمال اور افعال کو روکنے اور ان کو ان سے منع کرنے کے لیے حکومتی، قانونی، انتظامی روک ٹوک اور عوامی رد عمل کا خطرہ ہر وقت سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔ تو اس کا حل سب یہ ڈھونڈ لیتے ہیں کہ اتفاق میں برکت کو مد نظر رکھ کے ہر گروپ اپنی اپنی یونین بنا دیتے۔

اگرچہ قانون میں تمام ایسی تنظیموں اور ٹریڈ یونینوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے وہ متعلقہ فریقین کے درمیان رابطہ کار بن کے حقوق اور بہتر کام کی سہولیات اور بہتر۔ خدمات یقینی بنائیں۔ مگر یہاں تو اوئے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔

یہ یونین اور اور اس طرح کے دوسرے یونینز متعلقہ اداروں، محکموں اور انتظامیہ کو دھونس، دھاندلی، بلیک میلنگ، جلسوں، جلوسوں اور احتجاجوں پر دبائے رکھ کے اور معذرت کے ساتھ کچھ لو کچھ اور مک مکا کے ذریعے بھی متعلقہ اداروں، ۔ محکموں اور انتظامیہ یا حرام خور افسران کو چپ کا روزہ رکھواتے ہیں اور دفاتر میں مراقبہ کراتے ہیں۔

جبکہ عوام قدم قدم پر بے شمار مشکلات کے شکار ہو رہے ہوتے ہیں۔ جیسے ٹریفک، بدامنی، گراں فروشی، ملاوٹ، کم تول، رشوت خوری اور نجانے کون کون سی بلکہ تمام تر اور ہر قسم کے مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے جان مال عزت وقار کا استحصال برداشت کرتے اور روتے چلے آرہے ہوتے ہیں۔

دنیا بھر میں عوام کی تنظیم اور ان کا یونین وہاں کی سیاسی جماعتیں ہی ہوتی ہیں۔ اسی طرح ہمارے ہاں بھی عوام مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ رہتے ہیں۔ اور ان ہی کو اپنے مسائل، مشکلات کے حل اور اپنے حقوق کے تحفظ کیے ان کی طرف دیکھتے ہیں۔ بلکہ مختلف اوقات میں دامے درمے سخنے ان کی حمایت اور اعانت بھی کرتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود بات پھر یہاں بگڑ جاتی ہے، کہ ہر ایک سیاسی پارٹی کے ان تمام طبقوں، اداروں اور محکموں میں اپنی اپنی تنظیمیں ہوتی ہیں۔ جن کی وجہ سے یہ سیاسی پارٹیاں خاموش تو کیا اکثر ان کی بھر پور حمایت کرتے ہیں۔ اس امر کا احساس کیے بغیر کہ ان کے مطالبات اور افعال و اعمال براہ راست عوام کے حقوق اور پارٹی پروگرام سے متصادم ہیں۔

کبھی کبھی تو ایسی سیاسی پارٹیاں یا ان کے بدمعاش ایسے عوام دشمن کاموں کی براہ راست امداد بھی کرتے ہیں۔

ہر سیاسی پارٹی متبادل حکومت ہوتی ہے اور جب یہ ایسے کام کرنے لگتے ہیں۔ تو عوام مایوس ہی ہو جاتے ہیں اور ان سے کنارہ کرنے لگتے ہیں۔ یہ مقامی مسائل ہر کہیں ہوتے ہیں سو ہر کہیں عوام کی مایوسی اور ان سیاسی پارٹیوں پر بد اعتمادی کی وجہ سے بڑی سیاسی پارٹیاں اور تحریکیں اپنی طبی موت نہیں بلکہ مقامی مسائل کے حل کرنے میں سیاسی پارٹیاں بری طرح ناکام ہیں۔ اور گراس روٹ کی ناکامی ہی تو اصل ناکامی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments