ہبہ ابو ندیٰ کی غزہ سے آخری نظم


کہا جاتا ہے کہ غزہ کی 32 سالہ شہید شاعرہ اور فکشن نگار ہِبہ کمال صالح ابو ندیٰ کی آخری نظم ”پناہ“ ہے۔ وہ 20 اکتوبر 2023 ء کو اپنے گھر میں موجود تھیں کہ اسرائیلی طیارے ان کے گھر پر بم برسا کر اور اسے ملبے کا ڈھیر کر کے ان کی قبر بنا گئے تھے۔ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا ہے۔ پوری دنیا سراپا احتجاج ہے مگر عالمی طاقتوں کی پشت پناہی اور سلامتی کونسل کی مجرمانہ چشم پوشی کے علاوہ ملت اسلامیہ کی بے حمیتی کے سبب اسرائیل نے ظلم کی آخری حدوں کو چھو لیا ہے اور ابھی یہ سلسلہ رکتے ہوئے نظر بھی نہیں آ رہا۔ رہائشی علاقے، تعلیمی ادارے حتیٰ کہ ہسپتال بھی بمباری سے ملبے کا ڈھیر ہو چکے ہیں۔

بیس اکتوبر کو جمعہ کا روز تھا اور وہ اپنے گھر ہی میں تھیں کہ ان کا گھر گولہ باری کی زد میں آ گیا۔ شہید ہونے سے پہلے وہ سوشل میڈیا پر غزہ کی مخدوش صورت حال کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھتی رہی تھیں۔ انہوں نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر اپنے نام کے ساتھ واوین میں سورہ الرعد کی ایک آیت سے یہ الفاظ بھی لکھ رکھے تھے :حَتَّى یُغَیِّرُواْ مَا بِاَنْفُسِھِم۔ اس روز انہوں نے اسی سوشل اکاؤنٹ کی وال پر لکھا تھا کہ اپنے وطن کی آزادی کی مہم میں ہم لوگ غزہ میں شہید ہوں گے یا پھر آزادی پا لیں گے۔ ہم سب آخری انجام کے انتظار میں ہیں۔ پھر یہ بھی لکھا:اے اللہ! ہم آپ کے سچے وعدے کے ایفا کے منتظر ہیں۔ ایک روز پہلے غالباً بدھ کو لکھا تھا : ’اگر ہمیں موت آ لے تو آگاہ رہیں کہ ہم راضی بہ رضا تھے۔ راہِ عزیمت پر ثابت قدم۔ اور ان لوگوں میں سے تھے جو حق پر ہیں۔

ہبہ نے انہی دنوں کے ایک اور نوٹ کے ساتھ ایک فلسطینی شاعر کی وڈیو بھی شیئر کی اور نوٹ میں لکھا:

’ غزہ میں مسلسل بمباری ہو رہی ہے اور ہم موت کے سائے میں ایسے شعرا کو سن رہے ہیں جو وہ سب کچھ کہہ رہے ہیں جو کہنا ضروری تھا۔‘

پھر اس پر بہت تلخ جملے ایزاد کیے :

’ اگر ہم مار دیے گئے تو ہماری جانب سے عرب اور عجم کے تمام مسلمان سیاست دانوں کے منھ پر تھوکنا یاد رکھا جائے۔ ‘

وہ لگ بھگ ہر پوسٹ میں اپنے دُکھ اور اذیت کا اظہار کر رہی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ غزہ کی سلامتی کے لیے دعا گو بھی تھیں۔ وہ موت کو اپنے سامنے دیکھ رہی تھیں ؛ اپنے طرف آتے ہوئے بھی اور اپنے لوگوں کو اس کا شکار ہوتے ہوئے بھی۔ 17 اکتوبر کی پوسٹ میں انہوں نے لکھا:

غزہ میں موت جس شدت اور رفتار سے جھپٹا مار رہی ہے ایسے میں تو ہسپتال جانے کا بھی کوئی گواہ نہیں ہے۔ حتی کہ شہید ہو جانے اور پھر قبر تک جانے کا بھی۔ ہسپتال اور قبر ایک جیسی جگہیں ہیں۔

Hiba Kamal Saleh Abu Nada

یوں لگتا ہے وہ اس روز بہت مضطرب اور اذیت میں تھیں۔ انہوں نے ایک اور نوٹ میں دنیا والوں کے ضمیر پر دستک دیتے ہوئے لکھا تھا :

ہم کہاں جا رہے ہیں؟ خدا کی قسم چاہے یہ ہم سب کو ایک ہی ہلے میں مار ڈالیں بہتر یہی ہو گا کہ ہم ہتھیار نہ ڈالیں۔ اور ہم ہتھیار ڈالیں گے بھی نہیں۔ وہ ہمیں ایک ساتھ مار ڈالیں اور بس۔ اے رب! ہم تو اس سانحہ پر رونے سے بھی قاصر ہیں۔ ،

17 اکتوبر ہی کو اپنا اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے ہوئے لکھا:

جب ہم اپنے رب کے پاس جائیں گے تو اسے اسرائیل سے بدلہ لینے کا نہیں کہیں گے، ہم اسے کہیں گے کہ پہلے عربوں اور اس وطن کے دوسرے حصے میں موجود بھائیوں سے (اس مجرمانہ خاموشی اور مصلحت کوشی پر ) جواب طلب کیا جائے۔

اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں ایک پل چین نہیں تھا۔ یوں لگتا ہے کہ وہ مر مر کر جی رہی تھیں اور جیتے جی مر رہی تھیں یہاں تک کہ اسرائیلی طیارے آئے اور بمباری کر کے انہیں اس اذیت سے بھی نجات دلا گئے تھے۔

ہبہ 1991 ء میں ایک ایسے فلسطینی خاندان میں پیدا ہوئیں جوان دنوں سعودی عرب میں پناہ گزیں تھا۔ ان کا خاندان فلسطین کے تباہ ہونے والے گاؤں بیت جرجا کا رہنے والا تھا۔ اسرائیل نے بیت جرجا کو 1948 ءمیں تباہ و برباد کر دیا تھا لہٰذا اس کے بزرگوں کو وہاں سے نکل جانا پڑا۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں مگر شاعری اور فکشن ان کی دلچسپی کے علاقے رہے۔ ان کی شاعری اور فکشن کی کتب شائع ہوئیں اور اس باب میں ان کی مستحکم شناخت بن چکی تھی۔ فلسطین کی آزادی ان کے فن کا مرکزی موضوع تھا۔ 2017 ء میں ان کا پہلا ناول ’آکسیجن مرے ہوؤں کے لیے نہیں ہے‘ نے خوب شہرت پائی۔ لیجیے اب وہ نظم ملاحظہ ہو جسے ہبہ کی آخری نظم کہا جاتا ہے :


میں تمہیں پناہ دیتی ہوں
اپنی عبادتوں اور دعاؤں میں
میں تمہیں راکٹوں سے حفاظت کے لیے
اپنے آس پاس اور میناروں کی برکت تلے پناہ میں لیتی ہوں
اس لمحے سے لے کر
کہ جب جنرل کا ایسا حکم آئے
اور اچانک ہلہ بول دیا جائے، تب تک
میں تمہیں اور چھوٹوں کو پناہ دیتی ہوں
ان چھوٹوں کو جو مسکراتے ہوئے
اپنے ہدف پر اترنے سے پہلے
راکٹ کا راستہ تبدیل کر دیتے ہیں

میں تمہیں اور چھوٹوں کو پناہ دیتی ہوں
چھوٹے بچے اب گھونسلے میں چوزوں کی طرح سو رہے ہیں
وہ سوتے ہوئے خوابوں کی طرف نہیں جاتے
وہ جانتے ہیں کہ موت گھر کے باہر گھات لگائے ہوئے ہے۔
ان کی ماؤں کے آنسو وہ کبوتر ہیں
جوہر تابوت کے عقب میں ہوتے ہیں
ان کا پیچھا کرتے ہوئے

میں باپ کو پناہ دیتی ہوں
معصوم بچوں کے باپ کو جو گھر سنبھالتا ہے۔
اس لمحے جب وہ بمباری سے زمین بوس ہو رہا ہوتا ہے
وہ موت کے ان لمحات میں التجا کرتا ہے
’رحم کیجئے۔ مجھے تھوڑی دیر کی مہلت دیجئے
کہ ان کی خاطر تو میں نے اپنی زندگی سے پیار کرنا سیکھا ہے
انہیں ایسی خوب صورت موت عطا فرما
جتنے وہ خود خوبصورت ہیں

میں تمہیں پناہ دیتی ہوں
زخمی ہونے سے اور موت سے،
اپنی بانہوں میں یوں پناہ
جیسے وہیل کے پیٹ میں کوئی پناہ لے
ہماری گلیوں سے ہر بم گرنے پر اللہ اکبر کی تسبیح بلند ہوتی ہے
مسجدوں اور گھروں کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں
اور جب بھی شمال میں بمباری آغاز ہوتی ہے
ہماری استدعائیں جنوب کا رُخ کر لیتی ہیں

میں تمہیں پناہ دیتی ہوں
دُکھ اور تکلیف سے
ِمقدس صحیفے کی آیات کے ساتھ
میں سنگتروں کو پیڑوں کو فاسفورس کے ڈسنے سے
اور سموگ کے سایہ کرتے بادلوں کے سائے سے بچانا چاہتی ہوں
میں تمہیں اس بشارت کی پناہ میں لیتی ہوں
کہ (ایک روز) غبار چھٹ جائے گا
اور وہ جنہیں ایک دوسرے سے محبت ہو گئی تھی
اور ایک ساتھ مر گئے
ایک دن ضرور مسکرائیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).