کیا سیاست ہمارے رویّے میں شدت پیدا کرتی ہے؟


اگر آپ برا نہ مانیں تو آج ایک ذاتی سا احساس شیئر کرنا چاہتا ہوں آپ کے ساتھ۔

بات یہ ہے کہ پاکستان میں مقیم اپنے بعض پرانے دوستوں سے جب کبھی فاصلاتی رابطہ ہو تو میں ان کی اور اپنے دوستوں کی خیریت جاننے کا متمنی ہوتا ہوں۔ پوچھتا ہوں:

”یار، فلاں دوست کیسا ہے؟ کافی روز سے بات نہیں ہوئی۔“
دوسری جانب سے ناگواری سے جواب ملتا ہے:
”ارے، کس بے ایمان کی بات کر رہے ہو۔ کراہت ہوتی ہے مجھے اس کے ذکر پر۔ وہ تو مخالف جماعت کا حامی ہے۔“
”سیاسی جماعت سے وابستگی کا ایمان سے کیا تعلق ہے بھائی اور پھر ایسا غصہ میری سمجھ سے باہر ہے۔“ میں ادب سے کہتا ہوں
اس پر وہ ملکی سیاسی صورت احوال اور اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت اور قائد کا قصیدہ اور مخالف سیاسی جماعت اور اس کے رہنما کی طویل ہجو میرے گوش گزار کرتے ہیں۔ یہ ثابت کرنے کی پرزور کوشش کرتے ہیں کہ ان کا سیاسی قائد تاریخی، اقتصادی، سیاسی، قانونی، علمی، سماجی، اخلاقی، مذہبی، خانگی، انفرادی۔ گویا ہر اعتبار و لحاظ سے زمانے کا منتخب فرد ہے اور بس قدرت کا ایک عطیہ ہے مملکت خداداد کے لیے اور یہ کہ اگر اس کی غیرمعمولی صلاحیتوں سے قوم نے فائدہ نہ اٹھایا تو سمجھو کہ۔۔۔ تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

اور پھر اتنی ہی توانائی مخالف سیاسی جماعت کی رہنما کو مذکورہ بالا اوصاف کی ضد اور انتہائی خطرناک اور گھناونی عالمی صہیونی اور سیاسی سازش کا نمائندہ قرار دیتے ہیں۔ یعنی ایک صد فی صد درست اور دوسرا صد فی صد غلط۔ ایک صد فی صد سچا اور دوسرا صد فی صد جھوٹا۔ یعنی لچک کی گنجائش ”نشتہ”۔

پھر یہ بھانپ کر کہ مخاطب ”گھونچو“ تو ملک سے ہزاروں کلو میٹر دور جہالت کے گھپ اندھیرے غاروں میں رہتا ہے اس لیے آگے سے کیا بولے گا۔ وہ مختلف مقامی واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے استفسار کرتے ہیں :

”فالو بھی کر رہے ہو ان اہم سٹوریز کو یا نہیں؟ سوشل میڈیا پر سب کچھ فاش کر دیا گیا ہے۔ اب سچ کو چھپایا نہیں جا سکتا۔“

میں جب ڈرتے ڈرتے اعتراف کرتا ہوں کہ پاکستان کے حالات و واقعات پر یوں لمحہ بہ لمحہ نظر رکھنے کا اور مطلوبہ گہرائی سے نظر رکھنے کا وقت نہیں ملتا تو پوچھتے ہیں :

”تو تم لوگ وہاں کرتے کیا ہو؟ دفتروں، گھروں اور چائے خانوں پر تبادلہ خیال کس موضوع پر کرتے ہو؟ ایک دوسرے سے بات بھی کرتے ہو یا بس۔“

میں جواب دیتا ہوں کہ بات تو ہم کرتے ہیں دفتروں میں بھی، گھروں میں بھی اور ریستورانوں میں بھی مگر سیاسی اختلافات پر نہیں بلکہ موسم پر، ماحولیات پر، کھیلوں پر، تہواروں پر، کتابوں پر، فلموں اور ڈراموں پر، انسانی مسائل پر، تازہ ترین قومی اور بین الاقوامی واقعات پر اور ایک دوسرے کی خیر خیریت پر۔

”مطلب یہ کہ سپاٹ اور بالکل پھیکی زندگی ہے وہاں کی۔“ آگے سے تبصرہ آتا ہے۔

”دراصل ہم اختلافات کے بجائے باہم مماثلات پر اپنی بات چیت استوار کرتے ہیں۔ جن موضوعات پر دونوں کو بات کرنا پسند ہو اس موضوع پر بات کرتے ہیں۔ اول تو سیاسی اختلاف کی بات کو چھیڑتے ہی نہیں کہ اس سے دوسرے کی دل آزاری ہو سکتی ہے۔ اور اگر کرتے بھی ہیں تو دوسرے کی بات مکمل طور پر اور توجہ سے سنتے ہیں اور احترام سے حرف اختلاف بھی کہہ دیتے ہیں مگر دوسرے کی رائے کو دل پر نہیں لیتے اور سیاسی جماعت سے وابستگی کو ذاتی دوستی یا پیشہ ورانہ تعلقات کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیتے۔“ میں جواب دیتا ہوں۔

”واہیات ہے بھئی یہ نام نہاد انسانی احترام کا رشتہ وشتہ۔ سیدھا سیدھا کیوں نہیں کہتے کہ تم ایک منافق معاشرے میں رہتے ہو۔ جہاں دل کی بات کھل کر کہہ نہیں سکتے۔ دوجے بندے کی جھوٹی باتوں پر بیٹھے سر ہلاتے رہتے ہو۔ اوئے بھائی، اگر منہ پر سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ نہ کہا تو منافقت ہی ہوئی نا یہ۔“ دوسری طرف سے رد عمل آتا ہے۔

”لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ جسے میں درست اور سچ سمجھ رہا ہوں وہ دوسرے کے لیے نا درست اور غیر حقیقی ہو۔ اس میں سمجھ کا فرق بھی ہو سکتا ہے اور رائے کا اختلاف بھی۔ جس کا حق ہر کسی کو حاصل ہونا چاہیے، مگر اپنی بات اور اپنا موقف منوانے کے پیچھے پڑ جانا تو دانش مندی نہیں۔ اس طرح تو نہ کوئی رشتہ نبھ سکتا ہے اور نہ کوئی تعلق۔“ میں کہتا ہوں۔

”بھائی جان، ہم تو ایسی گھٹی ہوئی زندگی نہیں گزار سکتے۔ اپنے دل کی بات کھل کر نہیں کر سکتے تو آزادی کہاں کی؟ ہم تو سچ کہتے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں اور کھل کھلا کر کہتے ہیں۔ ہمیں کسی کا ڈر نہیں۔ تم لوگ وہاں گوروں کے اور پتہ نہیں کس کس کے ساتھ رہتے ہو، اس لیے تم لوگوں کو ہر بات سوچ کر کہنا ہوتی ہے۔ ہم تو آزاد ہیں۔ یہی فرق ہوتا ہے اپنے وطن اور بیگانے ملک میں۔“ وہ کہتے چلے جاتے ہیں۔

لیکن یہ میرے لیے کوئی بیگانہ ملک نہیں۔ میں اس ملک یعنی کینیڈا کا شہری ہوں۔ اور صحیح معنوں میں باعزت شہری ہوں۔ جسے اپنے بنیادی حقوق کے لیے نہ کسی فرد کی خوشامد کرنا پڑتی ہے اور نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہونا پڑتا ہے۔ میں اپنی پسند اور قومی ترجیحات کے مطابق انتخابات میں ووٹ دیتا ہوں اور پولنگ سٹیشن میں دیکھتا ہوں کہ ملک کا سابقہ یا ہونے والا وزیراعظم بھی اسی قطار میں اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔ کوئی مجھے ٹیکس چوری کرنے پر نہیں اکساتا۔ بطور صارف مجھے کوئی غلط بل نہیں آتا۔ اس ملک نے مجھے اور میرے اہل خانہ کو اپنایا، وہ عزت دی جسے عزت نفس کہتے ہیں۔ وہ وقار دیا، جسے انسانی وقار کہتے ہیں۔ یہاں واقعی جمہوریت ہے۔ کم لوگ ملک کے فوجی سربراہ کا نام جانتے ہوں گے مگر ملک کے تخلیق کاروں کو سبھی جانتے ہیں۔ ادب کی نوبل انعام یافتہ ادیبہ ایلس منرو ہوں کہ جن کا حال ہی میں انتقال ہوا یا مارگریٹ ایٹ وڈ ان کی کتابیں بلاشبہ لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوتی ہیں۔

ملک کا قومی نشریاتی ادارہ نشریاتی ادارہ، کنیڈین براڈکاسٹنگ کارپوریشن (سی بی سی) خبروں، رپورٹوں اور تبصروں میں مکمل آزاد ہے۔ اس کے ریڈیو اور ٹی وی چینلز پر حکومت کے اقدامات پر بھی بلا روک ٹوک تنقید کی جاتی ہے اور حزب اختلاف کے موقف کو بھی مکمل طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ میں تفصیلی جواب دیتا ہوں تو ادھر سے سوال ہوتا ہے۔

”تو تم کہنا چاہتے ہو کہ تم کسی جنت میں رہتے ہو، کسی مثالی دنیا میں رہتے ہو جہاں کوئی مسئلے مسائل نہیں۔ سب اچھا ہی اچھا ہے؟“

”نہیں۔ میں ایسا نہیں کہہ رہا۔ دوسرے معاشروں کی طرح یہاں بھی مسائل ہیں اور کئی ایک ہیں۔ کچھ تاریخی جبر کی دین ہیں اور کچھ نسلی اور معاشی تفاوت کی۔ معیشت اور روزگار کی فراہمی سے جڑے معاملات، مہنگائی، قدرتی ماحول کی بدلتی ہوئی صورت حال۔ ہر اس مسئلے کا سامنا ہے یہاں بھی جو آج دنیا کے دوسرے ممالک کو متاثر کر رہا ہے مگر ایک نظام بہرحال موجود ہے۔ طریق کار ہے جس کی مدد سے ان مسائل کے حل کی جانب کسی نہ کسی رفتار سے پیش رفت ہو رہی ہے یا کم از کم کوششیں ہو رہی ہیں۔ میں بس یہ کہنا چاہ رہا ہوں۔ بنیادی انسانی حقوق کا احترام کیا جاتا ہے۔ طے شدہ اخلاقی ضوابط کی پاس داری کرتے ہوئے آزادی اظہار کا حق سب کو حاصل ہے۔ عوام کو بھی اور ذرائع ابلاغ کو بھی“ ۔

”چینلز تو ہمارے بھی آزاد ہیں۔“

”مادر پدر آزادی بھی اتنی ہی خطرناک ہے جتنی ناجائز پابندی۔ پاکستان کے اکثر ٹی وی اور یو ٹیوب چینلز پر جو زبان استعمال کی جاتی ہے اور جو انداز روا رکھا جاتا ہے اسے کون معقول کہے گا! سب اپنی سی ہانکے چلے جاتے ہیں۔“ میں کہتا ہوں۔

”یہی تو آزادی ہے۔ ہمارے تجزیہ نگار سفید کو سفید اور کالے کو کالا کہتے ہیں۔ آپ کی طرح نہیں کہ۔۔۔“

وہ جوش سے کہتے ہیں تو میں چپکے سے مسکرا دیتا ہوں۔ دراصل رنگوں کے ذکر سے میرا ذہن گورنمنٹ کالج لاہور کے دنوں کی جانب لوٹ جاتا ہے۔

سٹوڈنٹس یونین کے لیے زبردست انتخابی مہم چل رہی تھی۔ خواجہ سعد رفیق اور آغا نوید کی سیاسی تربیت بھی تو انھی انتخابات سے ہوئی تھی۔ تو بائیں بازو کی طلبہ تنظیم یا اتحاد کے حامی یہ نعرہ بلند کرتے ہوئے گزرتے :

”سرخ ہے، سرخ ہے۔ ایشیا سرخ ہے“
جب کہ دائیں بازو کی طلبہ تنظیم کچھ یوں نعرہ زن ہوتی:
”سبز ہے، سبز ہے، ایشیا سبز ہے۔“
ان دونوں نعروں کے فوری بعد کالج کینٹین میں بیٹھے ”ٹی پارٹی“ کے نوجوان مل کر کہتے :
”سرخ ہے نہ سبز ہے۔ ایشیا کو قبض ہے۔“
اور یوں فضا قہقہہ بار ہو جاتی۔

یہی بات سوچ کر میں مسکرا دیتا ہوں مگر اپنے دوست کو یہ نہیں سناتا۔ مبادا اس واقعے میں انھیں مزاح سے زیادہ طنز کا پہلو دکھائی دے اور وہ یہ خیال کریں کہ میں خدا نخواستہ پاکستان کو معدہ کے کسی مرض میں مبتلا بتا رہا ہوں۔ کہ پاکستان ہے تو ایشیا ہی میں۔

مجھے اپنے دوست کی دل آزاری مقصود نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments