کیا واقعی کالج میں پڑھنا ضروری ہے؟ (مکمل کالم)


برٹش کونسل کے مطابق امسال ایک لاکھ طلبا او لیول کا امتحان دے رہے ہیں، ان امتحانات میں آٹھ مضامین کی فیس کل ملا کر 211000 روپے ہے، گویا فقط او لیول کے امتحان سے برٹش کونسل پاکستان سے 21 ارب روپے اکٹھے کر کے لے جائے گا جبکہ وفاقی حکومت کا ہائر ایجوکیشن کا پورے سال کا بجٹ 65 ارب روپے ہے، سو ہماری اشرافیہ کے بچے ایک امتحان پر 21 ارب روپے خرچ کرتے ہیں جو کہ قائد اعظم یونیورسٹی کے سات برس کے بجٹ کے برابر ہے۔“ یہ کسی خاتون کی تحریر ہے جو مجھے ایک دوست نے بھیجی، اس میں دیے گئے اعداد و شمار میں نے سرسری طور پر دیکھے ہیں جو بادی النظر میں درست معلوم ہوتے ہیں، اگر ہم اے لیول اور او لیول کے کل طلبا اور ان دونوں امتحانات کی فیس کو مضامین کی تعداد سے ضرب دیں تو شاید یہ رقم 21 ارب سے بھی بڑھ جائے لیکن فی الحال ہم اسی کو ٹھیک مان لیتے ہیں۔

جس وقت ہم اسکول میں پڑھتے تھے اس وقت او لیول اے لیول کا رواج شروع ہو چکا تھا مگر اکا دکا بچے ہی یہ امتحان دیتے تھے۔ میں کریسنٹ ماڈل اسکول میں تھا اور مجھے یاد ہے کہ اس وقت میٹرک کے امتحان کی ساکھ پر کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا تھا، اسکولوں کے درمیان مقابلے کی سی فضا ہوتی تھی اور میٹرک کے نتائج کی خبر اخبارات میں نمایاں طور پر یوں لگتی تھی کہ کس اسکول نے سب سے زیادہ پوزیشنز حاصل کیں۔ حقیقی اشرافیہ کے بچے اس وقت بھی او لیول ہی کرتے تھے مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی اور چونکہ میٹرک کا معیار ابھی اتنا نہیں گرا تھا اس لیے او لیول کی جانب جھکاؤ بہت کم تھا۔ اب حال یہ ہے کہ کم و بیش تمام والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ او لیول اے لیول کرے، اس میں اشرافیہ کی کوئی تخصیص نہیں ہے، مسئلہ صرف فیس کا ہے، او لیول کے لیے نجی اسکول کی بھاری فیس ادا کرنی پڑتی ہے، جو لوگ یہ خرچہ برداشت نہیں کر سکتے وہ با امر مجبوری اپنے بچے کو میٹرک کرواتے ہیں ورنہ کسی کو شوق نہیں یہ امتحان دینے کا۔ ایک اور بات مجھے یاد ہے کہ اس وقت اسکولوں میں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں، یہ کتابیں اغلاط سے پاک ہوتی تھیں اور ان کی طباعت کا معیار بھی عمدہ تھا لیکن قیمت خاصی کم ہوتی تھی۔ اب ان کی جگہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے لے لی ہے، بالکل اسی طرح جیسے کیمبرج کے امتحان نے میٹرک کو پچھاڑ دیا ہے اور پی آئی اے کے فضائی راستوں پر غیر ملکی ائر لائنز نے قبضہ جما لیا ہے۔ کہاں سے چلے تھے، کہاں آ گئے! اس زوال کی بے شمار وجوہات ہیں جن کی بحث میں جانے کا فی الحال وقت نہیں، سوال فقط یہ ہے کہ اس ملک کا متوسط طبقہ اب کیا کرے۔ کیا ماں باپ پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو کیمبرج کا امتحان دلوائیں، اس کے بعد نجی کالجوں کی بھاری فیسیں ادا کریں اور پھر اس دن کا انتظار کریں جب ان کا بچہ یہ تمام قرض اتار کر انہیں حج یا عمرہ کروانے کے قابل ہو گا، پانچ مرلے کا گھر بنا لے گا اور بڑھاپے میں ان کی دواؤں کا خرچہ اٹھالیا کرے گا!

اس میں ہمیں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ وزارت تعلیم میں کسی کے ریڈار پر یہ بات نہیں ہو سکتی کہ ہمیں اپنا امتحانی نظام درست کرنا ہے تاکہ کیمبرج کو ادا کیے جانے والے 21 ارب روپے ہم اپنے بچوں پر خرچ کر سکیں، لہذا اس امید پر تو زندگی نہیں گزاری جا سکتی کہ یہ نظام ٹھیک ہو گا اور ہمارے دلدر دور ہوں گے۔ شاید اکثریت کو بھی یہ خوش فہمی نہیں ہے، اسی لیے ہم اپنے بچوں پر بے تحاشا ’سرمایہ کاری‘ کرتے ہیں، اور یہ خوش آئند بات ہے، دنیا میں بہت کم ممالک میں یہ رجحان پایا جاتا ہے اور ہم ان میں سے ایک ہیں۔ تاہم مجھے لگتا ہے کہ یہ سرمایہ کاری غلط جگہ کی جا رہی ہے کیونکہ والدین اپنی زندگی اجیرن کر کے بچوں کی اسکول کالج کی فیس ادا کرتے ہیں، اس امید پر کہ یہ سرمایہ کاری مستقبل میں دونا منافع دے گی مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ اس سرمایہ کاری پر منافع کی شرح گھٹتی جا رہی ہے۔ میں معافی چاہتا ہوں کہ اسے سرمایہ کاری کا نام دے کر یوں خشک اور غیر جذباتی انداز میں بیان کر رہا ہوں کہ اس میں محبت کا عنصر نظر ہی نہیں آ رہا، لیکن والدین اور اولاد کی محبت کا موضوع علیحدہ ہے، اس پر پھر کبھی بات ہوگی۔ میری رائے میں بارہ جماعتوں تک تعلیم کے بعد ، چاہے ایف اے ہو یا اے لیول، بچوں کو مہنگے کالجوں میں پڑھانا کوئی دانشمندانہ فعل نہیں ہے، ان پرائیویٹ کالجوں اور یونیورسٹیاں میں ایسی کوئی سوغات نہیں بانٹی جا رہی جس سے محروم رہ جانے پر بندے کو پچھتاوا ہو۔ میں ایسے ایسے سفید پوش اور متوسط طبقے کے لوگوں کو جانتا ہوں جن کی دو وقت کی روٹی بمشکل پوری ہوتی ہے مگر وہ اپنے بچوں کی لاکھوں روپوں کی فیسیں جمع کروا رہے ہیں، اچھے مستقبل کی امید پر۔ ہر سال لاکھوں بچے ان مہنگے کالجوں سے فارغ التحصیل ہو کر نکلتے ہیں، ان میں سے کتنے ایسے ہیں جنہیں ماہانہ دو لاکھ تو کیا ایک لاکھ کی نوکری بھی ملتی ہے؟ اپنے بچوں پر ہم فیسوں کی مد میں بیکار روپے خرچ کر دیتے ہیں مگر یہ روپے ہم انہیں کسی کاروبار کے لیے نہیں دے سکتے، کیوں؟ اس لیے کہ ہمارے دماغ میں زندگی کی ایک ترتیب بیٹھی ہوئی ہے جس کے مطابق بچے نے پہلی جماعت سے لے کر سولہ جماعتیں پڑھنی ہیں، نوکری تلاش کرنی ہے، شادی کرنی ہے، بچے پیدا کرنے ہیں اور پھر ان بچوں کی فیسیں ادا کرنی ہیں، جونہی ہمیں کوئی اس ترتیب سے ہٹ کر مشورہ دیتا ہے، ہم گھبرا جاتے ہیں، اور اس میں ہمارا کوئی قصور بھی نہیں ہے کیونکہ متوسط طبقہ بیچارہ ایسا ہی ڈرپوک ہوتا ہے، سرمایہ دار کی طرح وہ یہ رسک نہیں لے سکتا کہ اپنے بچے کو کالج میں پڑھانے کی بجائے کاروبار میں لگا دے۔ لیکن اب ہمیں یہ سوچ تبدیل کرنی ہوگی کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔

ایف اے /ایف ایس سی / اے لیول کے بعد ہمیں اپنے بچوں کو گھر سے باہر بھیجنا چاہیے تاکہ انہیں پتا چلے کہ یہ سفاک دنیا کیسے کام کرتی ہے، انہیں کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کروا دیں یا کسی کی دکان پر بٹھا دیں، آج کل تو آن لائن کا دور ہے، بہت سے نوجوان لڑکے لڑکیاں آن لائن کام کرتے ہیں، ساتھ تعلیم بھی جاری رکھتے ہیں۔ جس ڈگری کو حاصل کرنے میں چار سال اور لاکھوں روپے لگتے ہیں، اس سے زیادہ دنیا داری تو چار سال میں سیکھی جا سکتی ہے بشرطیکہ آپ بچے کو یہ موقع دیں۔ ذرا ایک لمحے کے لیے یوں تصور کریں کہ آپ کے بچے نے چار سالہ بی ایس میں داخلہ لیا ہے جس کی سالانہ فیس آٹھ لاکھ ہے، چار سال بعد اسے ایک ڈگری ملے گی اور ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ساتھ ہی نوکری بھی مل جائے گی۔ اس کے مقابلے میں تصور کریں کہ آپ نے اپنے بیٹے یا بیٹی کو چار سال کے ’کاروباری پروگرام‘ میں ’داخل‘ کروا دیا ہے، ساتھ میں ان کی پرائیویٹ تعلیم بھی جاری رہے گی جس کا خرچہ آٹھ لاکھ سالانہ سے کہیں کم ہے، تو چار سال بعد کیا وہ اس قابل بھی نہیں ہوں گے کہ اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر اس بچے سے بہتر مستقبل بنا لیں جس نے کاروبار کی الف ب بھی نہیں سیکھی اور جس کا مکمل دار و مدار نوکری پر ہے؟ اگر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے تو اپنے بچوں پر اعتماد کریں، اپنے تئیں جو روپے آپ ان پر خرچ کر رہے ہیں وہ دراصل پرائیویٹ کالجوں کے بینکوں میں جا رہے ہیں، سو ان کالجوں کو دینے کی بجائے یہ روپے براہ راست بچے پر خرچ کریں، نتیجہ کم از کم اس سے ضرور بہتر نکلے گا جو ان نام نہاد کالجوں کی ڈگریاں حاصل کرنے سے نکل رہا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 512 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments