یہ سب سازشیں کون کر رہا ہے؟


حمیرا ارشد کا یہ ’’ وَس وے ڈھولا توں انکھیاں سے کول کول‘‘ اُن کے گانوں میں شاہکار گانا ہے۔ جب یہ گانا مارکیٹ میں آیا تو پنجابی کیا سندھی، پٹھان اور بلوچ بھی گنگنائے بغیر نہ رہ سکے۔ کچھ لوگ مذاق سے یہ بھی کہتے رہے کہ حمیرا نے تو راوی کو آلودہ کر دیا۔ خیر یہ گانا واقعی لاجواب ہے۔ اس کی وڈیو بھی کمال ہے اور پھر حمیرا کا ہیر کٹ۔ اس کی تو بات ہی نہ کریں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ شاید میں اس گانے پر بات کرنے والی ہوں اور یہ بتانا چاہتی ہوں کہ ہم ٹیلنٹ میں انڈیا سے پیچھے نہیں ہیں، تو ایسا بالکل بھی نہیں۔

زمانہ طالب علمی تھا اور دوران سفر میری ملاقات دو بچیوں سے ہوئی جو اپنی والدہ کے ساتھ شمع سٹاپ سے میڑو بس پر سوار ہوئیں اور شاہدرہ (لاہور) ک طرف جا رہی تھیں۔ مختصر سے سفر میں میری بچیوں سے دوستی ہو گئی۔ وہ پہلی بار شاہدرہ میں مقبرہ جہانگیر دیکھنے جا رہی تھیں۔ جب دریائے راوی کے پل پر سے گزرے تو مَیں نے ان کو بتایا کہ یہ دریائے راوی ہے۔ بچیاں ذہین تھیں، جھٹ سے پنجاب کے باقی دریاؤں کے نام بھی بتا دیے۔ پھر ایک بچی نے حیرانی سے پوچھا کہ ” دریا ایسا ہوتا ہے؟ اس میں تو بہت سارا پانی ہوتا ہے نہ؟ مَیں نے اسے بتایا کہ اس میں بہت سا پانی ہوتا تھا اور یہ دریا سارا سال بہتا تھا، اس میں کشتیاں بھی چلتی تھیں، لوگ تیراکی کے لئے بھی آتے تھے اور اس دریا میں سیلاب بھی آتے تھے۔ بچی نے پوچھا کہ اب پانی کہاں گیا تو میرے بولنے سے پہلے ہی اس کی والدہ نے بتایا کہ اب سارا پانی انڈیا نے لے لیا ہے۔ جس پر دونوں بچیوں نے کچھ اس طرح منہ بنایا جیسے کہہ رہی ہوں ” انڈیا، مردہ باد‘‘۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ اگر ہمیں ریاستی سطح پر (خواہ اندرونی یا بیرونی) مسائل درپیش ہیں تو اس کی ذمے داری انڈیا یا امریکہ پر ڈال کر خود مظلوم بن جاتے ہیں۔ اور اگر مذہبی مسائل ہوں تو اس کا ذمے دار یہودی یا مسیحی ہیں۔ ارضِ پاک مختلف بحرانوں سے گری ہوئی ہے جن میں سے میرے مطابق قومی سطح پر بے روز گاری، غربت، صحت و صفائی، تعلیم، ذہنی پسماندگی، ناخواندگی جیسے دیگر مسائل ہمارے اپنے پیداکیے ہوئے ہیں۔ ایک دِن این ٹی ایس ٹیسٹ لینے والی تنظیم کی غنڈہ گردی پڑھی۔ کسی بھی یونیورسٹی یا سرکاری و غیر سرکاری نوکری حاصل کرنے کے لئے یہ ٹیسٹ پاس کرنا لازم قرار دیا گیا ہے۔ جس کا مقصد قابلیت کی جانچ پرکھ ہرگز نہیں بلکہ ہزار، پانچ سو کا فارم بیچنا ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ کئی اداروں نے ایسی آسامیوں کے لئے ٹیسٹ لیے جو سرے سے تھی ہی نہیں اور اِن اداروں میں تعلیمی پرائیویٹ ادارے زیادہ فعال ہیں۔ اب ایک طالب علم یا بے روز گار پاکستانی نوجوان ہزار، پانچ سو کا فارم اس امید پر خرید لیتا ہے کہ اسے یونیورسٹی میں داخلہ یا کسی ادارے میں نوکری مل جائے گی۔ اب کوئی مجھے یہ بتائے کہ یہ کس کی سازش ہے، را کی ہے، موساد کی ہے، سی آئی اے کی ہے یا کسی اَور غیر ملکی خفیہ ایجنسی کی؟

لاہور میں ایک عرصے سے گدھے کا گوشت کھلایا جا رہا ہے۔ مخترمہ عائشہ ممتاز نے جب پنجاب فوڈ اتھارٹی کے تحت چھاپے مارے تو ایم ایم عالم روڈ کے مہنگے ریسٹورنٹس بھی بند ہوئے۔ وہاں کے ریسٹورنٹس کے بلز کا تو آپ کو بحوبی اندازہ ہو گا۔ اب یہ کس کی سازش ٹھہری؟

چکن، دودھ، سبزیاں، پھل، پانی، پلاسٹک کے چاول اور بند گوبھی، غرض کھانے پینے کی ہر چیز میں ملاوٹ کس کی سازش ہے؟ پانی میں آرسینک جیسے مادے کا پایا جانا ہمارے تعلیم یافتہ شرفا کی بے حسی کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کے رئیس تو آسانی سے منرل واٹر پی سکتے ہیں لیکن اپنی غلاظت یعنی کہ اپنی فیکٹریوں کا آلودہ پانی پسماندہ غریب اعوام کے لئے۔ اب یہ کس کی سازش ہے؟

سبزی، پھل والا سبزی کو تازہ رکھنے کے لئے کمیکل استعمال کرتا ہے۔ ایک معمولی ٹھلے والا جب لیموں پانی یا آلو بحارے کا شربت بیچتا ہے تو وہ اس میں چینی کی بجائے مٹھاس کے لئے سکرین استعمال کرتا ہے جو چینی سے نہایت سستی اور صحت کے لئے نہایت خطرناک ہے۔ اس ٹھیلے والے سے کیا امریکہ بہادر رابطہ کرتا ہے؟

لوگ کسی خالی پلاٹ کو دیکھ کر یا سڑک کے کنارے کوڑا کچرا پھینکنا شروع کر دیتے ہیں اور آنے جانے کا راستہ کوڑے سے بلاک کر دیا جاتا ہے، اور جہالت یہ کہ گاہے بگاہے کوڑے کو آگ لگا دی جاتی ہے جس سے زمینی و فضائی آلودگی دونوں میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ کس کی ذمے داری ہے؟

ایک وقت تھا راوی میں پانی ہوتا تھا۔ 1960 میں کیے گئے معاہدہ سندھ طاس کے مطابق راوی سمیت دو دیگر دریاؤں کے پانی پر بھارت کا اختیار ہو گیا۔ جب تک بھارت نے راوی کے پانی پر ڈیم نہیں بنایا تھا تو برسات کے موسم میں وہ پانی کا رخ ہماری طرف کر دیتا اور اب جب اس نے ڈیم بنا لیا تو ہماری طرف کا راوی سوکھ گیا۔ بھئی اس کا پانی ہے جو چاہیے کریں۔ ایک ہم ہیں کہ سالوں سے کالا باغ ڈیم ہی نہ بنا سکے۔

حمیرا ارشد گا گانا لاہور کی لوک تاریخ کی یاد ہے جس درایائے راوی بہتا ہوا ہی اچھا لگتا ہے۔ لیکن اِس گانے کے بعد جیسے راوی سے پانی بتدریج کم ہوا، حمیرا ارشد کی ازدواجی زندگی بھی بحرانوں کا شکار رہی۔ میں خواہش کر سکتی ہوں کہ کسی طرح راوی کی رونق بحال ہو اور حمیرا ارشد کے اِس گانے کو remake کریں کہ ’’وَگ وے راوی توں کنڈیاں دے کول کول‘‘ (اے راوی تو کناروں تک بہہ)اور اُن کی ازدواجی زندگی میں بھی خوشی آئے، لیکن پاکستان کے باسی دائمی ذہنی پسماندگی کا شکار ہیں اور ہماری حالت اُس وقت تک بہتر نہیں ہونے والی جب تک ہم میں انفرادی کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).