اسلامی جمہوریہ میں اپنی بیٹیوں کو بچا کر رکھو


یہ تحریر، زینب امین کے نام ہے، جو سات برس کی عمر میں بابا بلھے شاہ کے شہر، قصور میں اغوا اور پھر زنا بالجبر کے بعد قتل کر کے کوڑے میں لاش بنا کر پھینک دی گئی۔ زینب کے والد، جناب امین صاحب اپنی زوجہ کے ہمراہ حجاز مقدس میں عمرہ ادا کر رہے تھے جب ان کی سات سالہ بیٹی، زینب انصاری کے ساتھ ایک یا شاید ایک سے زائد پاکستانی زنا بالجبر کرتے ہوئے اس کا گلا دبا کر اسے اس دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت کر رہے تھے۔

یہ سنہ 1998 کی بات ہے۔ میرے گھر میں پاکستانی مذہبی تشریحات کی سیڑھی رکھی جا چکی تھی اور اس پر پئیاں پئیاں سفر بھی شروع تھا، مگر شکر الحمدللہ، کہ یہ سفر میرا نہ تھا۔ تو اک دن اس دنیا کے فزکس کے اوپر چلنے کے میرے تیقن کے معاملہ پر گرما گرم بحث ہو گئی۔ میں ہر قسم کی سیاسی اور مذہبی بحث سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں کہ یہ دنیا کے فضول ترین کاموں میں سے اک کام ہے، مگر آج سے بیس سال قبل، جب میں 25 برس کا تھا تو اکیلے ہی زندگی کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے شعور، فہم اور ادراک کا معاملہ کسی گھاٹی میں پڑے ہوئے استعمال شدہ کسی ڈائپر کی طرح کا ہی تھا، تو کچھ جوابات دیے۔ باتوں باتوں میں اک فقرہ سننے کو ملا کہ اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے، اس میں خدا کی کوئی بہتری ہوتی ہے، جبکہ میں زمین پر جناب اعلیٰ حضرتِ انسان صاحب کی کرتوتوں کے معاملات کو اس بہتری کے تناظر میں دیکھنے سے قاصر تھا، تو ہر بار کی طرح تب، اور اب بھی، مجھ پر فتاویٰ نازل ہو گئے۔

اس گفتگو کے دو دن بعد، روزنامہ خبریں میں سانگلہ ہل میں ہونے والے اک واقعہ کی خبر پڑھی کہ جس میں اک مقامی حجام کی دس سالہ بچی کہ جو اغوا کی گئی تھی، کو مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا، اور پھر اپنے قتل کو چھپانے کے لیے اس بچی کے جسم کو کئی ٹکڑوں میں کاٹ کر شہر کی مختلف جگہوں پر پھینک دیا گیا۔ میں نے اپنے دفتر سے وہ اخبار اپنے ساتھ لیا اور گھر لے گیا۔ شام کو چائے کے بعد، اک روز قبل کی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا کہ جناب، اس واقعہ میں مجھے کوئی بہتری تلاش کر کے دکھائیے؟
جواب ندارد۔

یہ واقعہ پہلے بھی درج کر چکا ہوں۔ اک بار پھر سہی: میری بڑی بیٹی چھٹی جماعت میں تھیں اور ان کی عمر کوئی نو نہیں تو دس برس ہو گی۔ انہوں نے اک دم سے ہی نہایت ہی قریبی مارکیٹ میں، میرے ساتھ بھی جانا چھوڑ دیا۔ میں نے جب کریدا تو انہوں نے بتایا کہ ”ابو، مجھے مارکیٹ میں لوگ گھورتے ہیں۔ “ میں نے انہیں اور اپنی دوسری بیٹی کو ایسے معاملات میں Encouraged ہی رکھا ہے، تو ان کا حوصلہ بڑھائے رکھا۔ کچھ عرصہ بعد اک بار پھر یہ بات ہوئی، تو میں نے کہا کہ اس کا کوئی Intellectual Expression تو دیجیے۔ میری بڑی بیٹی نے کہا کہ ”ابو ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں آنکھوں سے بنی قبر میں اتر رہی ہوں، “ اور پھر انہوں نے، اگر میرا ذہن درست ساتھ دے رہا ہے تو، اک ایسی ہی تصویر بھی بنائی۔
یہ دس برس کی بیٹی کا اسلامی جمہوریہ کے معاشرے میں اک ردعمل تھا۔

عمومی پاکستانی معاشرے میں مذہبی تشریحات کا مسلسل اور بہت شدت کے ساتھ دور دورہ ہے۔ لوگ عقیدہ کی مضبوطی کے نہیں، عقیدت کی حدت کے قائل ہیں۔ عقیدہ کی مضبوطی کے قائل ہوتے تو پاکستانی شہر، نبی پاکﷺ کے سنت پر صاف ستھرے ہوتے، گندے، بدبودار اور تقریباً ہر طرح کی شہری ہڑبونگ اور بدنظمی کا شکار نہ ہوتے، اور یہ صرف اک مثال ہے۔ آپ کو اسلام کی ہر طرح کی تشریحات اپنے چاروں طرف، ہر وقت فضا میں تیرتی ہوئی مل جائیں گی، اسلام کے پیغام کی اصلیت اور اس کیاک عملی معاشرتی تفسیر ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے گی۔ مذہب کے مقدس لوگوں کے بارے میں ہم جنسیت اور قبضہ گروپس کا حصہ ہونے سے لے کر، ختم نبوتﷺ کے نام پر سٹیج پر بیٹھ کر سرِعام گندی گالیاں دینے کے واقعات موجود ہیں، ان پر بات کی جائے تو جذباتی الباکستانی اسے اسلام پر تنقید گردانتے ہوئے مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ حال ہی میں مولانا طارق جمیل صاحب کی لیموزین سے اترتے ہوئے اک تصویر پر اک فقرہ کسا، تو اس بات کا اک بار پھر اک ”عمدہ و سیرحاصل“ تجربہ ملا، الحمدللہ!

میری زندگی ایسے واقعات سے اٹی پڑی ہے کہ جہاں ایسے ایسے تضادات کا مشاہدہ ہے کہ تب غصہ آتا تھا، اب ہنسی آتی ہے۔ اک واقعہ آپ کی نذر کرتا ہوں، صاحبو: گجرات کچہری میں کوئی اٹھائیس برس قبل اپنا ڈومیسائل بنوانے گیا تو کلرک بادشاہ نے بیس روپے رشوت کا تقاضہ کیا۔ جیب میں سو روپے کا نوٹ تھا، تڑوانے باہر نکلا، واپس آیا تو کلرک بادشاہ سیٹ پر موجود نہ تھے۔ پوچھنے پر معلوم پڑا کہ ظہر کی نماز ادا کرنے گئے ہیں۔ سب بولو، سبحان اللہ!

بم دھماکے ہوتے رہے، یار لوگ اور ریاستی بادشاہ ایک ہی راگ الاپتے رہے کہ یہ کام کوئی مسلمان کر ہی نہیں سکتا اور یہ کہ دھشتگردی کرنے والوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ حقیقت یہی رہی اور ہے کہ بم دھماکے مسلمان ہی کرتے رہے اور دھشتگردی کرنے والوں کا مذہب بھی برآمد ہوا اور مسلک بھی۔ عمومی رجحان مگر یہی رہا کہ چہرہ دوسری جانب پھیر لیا جائے۔ یہی حال کچھ معاشرے میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی جیسے واقعات کا تھا، ہے اور رہے گا بھی، جبکہ حقیقت بھی یہی ہے کہ ایسے واقعات کرنے والے انسان ہوتے ہیں، مسلمان بھی اور وہ اسی اسلامی جمہوریہ کے شہری بھی ہوتے ہیں، مگر معاشرہ اور لوگ آنکھیں موندے خراٹے بھرنے کی نقل کرتے رہتے ہیں تاآنکہ کوئی ایسا ہی واقعہ ان کے گھر کے دروازے پر آن دستک نہیں دیتا۔

پاکستانی معاشرے اور لوگوں کو اس ”شتر مرغانہ“ گھمن گھیری میں سے نکلنے اور نکالنے کے لیے اک تسلسل سے، لمبے عرصے کے لیے بہت شدت کی کوشش کی ضرورت ہے، اور مجھے اس کا اپنی باقی ماندہ زندگی میں کوئی حل نظر سجھائی نہیں پڑتا۔ معاشرہ جب خود کو تھوڑا سا بہتر کرنے لگتا ہے تو دفاعِ پاکستان کونسل کے مہربان، اک کانفرنس کروا کر اس بات کا ثبوت دے ڈالتے ہیں کہ ”جناب بٹ صاحب، ایہہ لوو۔ اسی نئیں جے کُش وی ہون دینا ایتھے!“

وطن عزیز کی اس مسلسل ہڑبونگ میں زندگی گزارنے کے لیے میں نے اپنے واسطے دو بنیادی فلسفے تخلیق کیے ہیں جن کو میں Preventive Approach اور Bubble Theory کے نام دیتا ہوں۔ ان پر بات پھر کبھی سہی، مگر اے پڑھنے والے پیارے لوگو: اگلی تحریر تک، اسلامی جمہوریہ میں اپنی بیٹیوں (اور بیٹوں) کو بچا کر رکھو، خدارا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).