مذہبی مدارس کا چیلنج اور ہمارا دانشور طبقہ


یہ کہنا شاید مکمل طور پر درست نہ ہو کہ مدرسوں میں صرف یتیم، یسیر، غریب اور بے آسرا بچے ہی پرورش پاتے اور تعلیم حاصل کرتے ہیں کیونکہ بہت سے خوشحال اور درمیانے طبقے کے لوگ بھی حفظ قرآن کی سعادت کے حصول کے لیے با رضا و رغبت اپنے بچوں کو مدرسے بھیج دیتے ہیں۔ مگر یہ بچے حفظ مکمل کر کے دوبارہ سکول میں داخل ہو کر عمومی تعلیمی دھارے کا حصہ بن جاتے ہیں۔ البتہ غالب اکثریت کے لیے مدرسہ ہی پہلا اور آخری ٹھکانہ ہوتا ہے۔

ان طالبوں کو مدرسے اور مسجد سے باہر کی دنیا دیکھنے کا کم ہی موقع ملتا ہے۔ مدرسے سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کوشش یہ ہوتی ہے کوئی مسجد مل جائے۔ پہلے سے موجود مسجدیں ظاہر ہے خالی نہیں ملتیں اس لیے پیہم پھیلتی آبادیوں میں کہیں جگاڑ لڑا کر ایک نئی مسجد کی بنیاد ڈالنا ہی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مسند، جبہ اور دستار تو لوازم تھے ہی اب لاؤڈ اسپیکر چوتھا لازمہ قرار پایا ہے۔ یہ سب بآسانی مہیا ہو جاتا ہے۔ مسجد چل نکلتی ہے تو مدرسے کا ڈول ڈالا جاتا ہے اور جب آپ کچھ سال بعد وہاں سے گزرتے ہیں تو مسجد کی شان و شوکت دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔ مولانا صاحب بھی خوب کروفر میں عوام الناس سے ایک خاص فاصلے اور بلندی پر براجمان ملتے ہیں۔

اب ان کے مدرسے سے مزید کتنے طالب نکل کر روزی کمانے کے لیے نئی مسجدیں کھڑی کریں گے، مدرسوں کی بنیاد رکھیں گے اور پھر ان مدرسوں سے فارغ التحصیل ہونے والے مستقبل کے ائمہ کرام کی تعداد کیا ہو گی؟ آبادی میں اضافے کی بلند شرح اس سلسلے میں سب سے زیادہ معاون ثابت ہوتی ہے۔ آبادیاں تیزی سے پھیلتی ہیں مسالک بھی بے شمار ہیں لہٰذا نت نئی مساجد کے جواز تراشنے میں دقت پیش نہیں آتی۔

عوام تو مذہبی عقیدت کے مارے مسجد سے اٹھنے والی ہر آواز پر آمنا و صدقنا کہنے کے عادی ہیں ہی ”خواص“ کی کیفیت بھی کچھ مختلف نہیں۔ مذہب بیزاری نے انھیں مذہبی تعلیمات سے دور کر دیا ہے۔ مذہب سے متعلق ان کا مبلغ علم بھی صرف سنی سنائی حکایتوں تک محدود ہے اور اس سے زیادہ کی انھیں خواہش بھی نہیں۔ علم کی کمی انھیں بھی گھیر گھار کر ناگزیر مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے ان ہی محدود علم کے حامل ائمہ مساجد کی اقتداء میں لا کھڑا کرتی ہے۔

پھر بات مزید آگے بڑھ کر دیگر مذہبی معاملات اور مناقشات تک جا پہنچتی ہے۔ جب بھی کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہوتا ہے کیا عوام اور کیا ”خواص“ سب ایک ہی کشتی میں سوار ہو کر پتوار اسی مذکورہ بالا پس منظر کے حامل امام مسجد کے حوالے کر دیتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے ہر قسم کی منطق اور دلیل کا گلا گھونٹ کر اپنی رضامندی کا وزن اس کے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں۔ اگر ان لوگوں کی فیس سکریننگ کی جائے تو ان کے درمیان آپ کو بڑے بڑے دانشور دکھائی دیں گے جو یا تو اپنی مذہبی کوتاہ علمی کے ہاتھوں بے بس ہیں یا اس مذہبی ہئیت حاکمہ کے بر خلاف سچ بولنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔

خیر اس پر تو اعتراض نہیں بنتا کہ جان سب کو عزیز ہوتی ہے مگر لگتا یوں ہے کہ ہمارے اہل دانش کو اپنی فہم اور عقل بھی سخت عزیز ہے جسے وہ اس معاملے میں استعمال کرنے سے ہچکچاتے ہیں ورنہ مذہبی لبادے میں استعمال کیے جانے والے سیاسی ہتھکنڈوں سے متعلق کوئی تجریدی پیرایۂ اظہار ہی برت لیا جاتا۔ ہمارے یہ دانشور قوم پرستی پر تو جان چھڑکتے ہیں اور سارے ترقی پسند، روشن خیال، ماضی کے اشتراکی اور سول سوسائٹی قوم پرستوں کے جھرمٹ میں این جی اوز کے پہلو بہ پہلو رقص کر کر کے بے حال تو ہو جاتے ہیں مگر اتنے بے حال اور خود مست کہ کسی اور طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔

زمانہ جس تیزی سے بدل رہا ہے اس کا شعوری ادراک اگرچہ مذہبی اداروں میں نہ ہونے کے برابر ہے مگر عملی طور پر اس تبدیلی کے مختلف مظاہر ان کی زندگیوں کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ موبائل فون اور اس کی مختلف ایپس یہ لوگ بھی دھڑا دھڑ استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اب مدرسوں میں ایسے طالبوں کی تعداد بھی بڑھنے لگی ہے جو بظاہر کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک نفع بخش پیشہ سمجھ کر اس فیلڈ میں آ رہے ہیں۔

مگر اس سے کوئی خاص فرق اس انسٹی ٹیوشن پہ پڑتا دکھائی نہیں دیتا۔ سوال اٹھانے اور اس کا تسلی بخش جواب تلاش کرنے والا ماحول ابھی خواب و خیال کی باتیں ہیں۔ باقی نئی نسل اپنے طور پر تو سوال اٹھا رہی ہے۔ مگر گلی گلی پھیلے ان مذہبی اجارہ داروں کے پاس ان سوالوں کے جواب موجود نہیں۔ جن کے پاس جواب ہیں ان پر یہ زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ یہ سب اسی مذہبی مافیا کا کیا دھرا ہے۔ مگر ہمیں ان سے کوئی گلہ نہیں۔ ان کی روزی روٹی کا سوال ہے۔

ہمیں گلہ صرف اپنے ان معزز دانشوروں سے ہے جو پہلے بائیں بازو کی انقلابی سیاست کے علمبردار تھے، پھر لبرل کہلانے لگے اور آج کل سیکولر بھی کہلاتے ہیں۔ افسوس! انھیں بھی سچ بولنے کی توفیق ارزاں نہ ہوئی۔ وہ سیاسی بلنڈرز سے مسخ شدہ تاریخ کو درست کرنے پر تو اصرار کرتے ہیں مگر جب بات مذہبی بلنڈرز کی آتی ہے تو یہاں آ کر پانی مر جاتا ہے۔ اسے وہ بھڑوں کا چھتہ سمجھ کر دور ہٹ جاتے ہیں۔ جواز یہ ہوتا ہے کہ مذہبی مناقشتت میں نہیں پڑنا چاہتے۔ یا اسے فرقہ واریت کی ”نوک جھونک“ قرار دے کر پہلو بچا لیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مذہبی مافیا گلی گلی، نگر نگر اور ڈگر ڈگر اپنی جڑیں پھیلاتا چلا جا رہا ہے اور اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کی سکت اور صلاحیت نہ ارادوں میں ہے اور نہ اداروں میں۔ (پھر گرے لسٹ سے نہ نکلنے پر حیرانی) گھوم پھر کے بات پھر دانشوروں پہ آ جاتی ہے۔ کیا وہ ڈر اور خوف کی ان زنجیروں کو توڑ کر قوم کی اجتماعی دانش کو مستقبل کے مؤرخ کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچا پائیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments