ریاست کے وہی ہتھکنڈے، وہی اپنی جگ ہنسائی


پچھلے دو سال سے ہم خواب دیکھنے والے جس خبط میں مبتلا تھے اس کا ایک تاریک پہلو ابھی تک ہماری نظروں سے اوجھل تھا یا ہم خود ہی اس پر نظر ڈالنے سے ہچکچا رہے تھے۔ اس عرصے میں ہم نے سوشل میڈیا کے طفیل تیز رفتار پیغام رسانی کی مدد سے شعور کے اس درجے تک رسائی حاصل کی جس نے 8۔ فروری کے انتخابات کو یکسر ایک نیا رخ دے دیا۔ آلکس کے مارے، سست الوجود اور آرام طلب عوام کم از کم اتنا ہوا کہ چپ چاپ جا کر ووٹ ڈال آئے اور انسانی چابک دستی میں ان سے ذرا اونچے درجے پر فائز فعال کارکن پولنگ ختم ہونے کے بعد اپنے پولنگ اسٹیشن کی گنتی کا گوشوارہ لے کر ہی واپس پلٹے۔

ان ہر دو سرگرمیوں نے (جو جیل میں محبوس ایک قومی ہیرو کے دیے ہوئے شعور کی مرہون منت تھیں) ہمارے قومی احساس کمتری کے گھاؤ کے اندمال کا خاصا سامان فراہم کر دیا۔ اگرچہ ریاست اس میں آڑے آئی کہ یہ منظر نامہ اس کے طے کردہ منصوبے کے سراسر خلاف تھا مگر ہمارے لیے یہی خوشی بہت تھی کہ ہمارا ہیرو لوگوں کو اپنی بات سمجھانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ بعد کی رسہ کشی کھیل کا حصہ ہے کہ عوامی حقوق کی یہ تگ و دو نہ آسان ہے اور نہ مختصر، مگر دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں پاکستانی قوم کی تکریم میں جو اضافہ ہوا اس نے ہمارا سیروں خون بڑھا دیا۔

سوشل میڈیا کے دمکتے ستاروں کی بلائیں لینے کو جی چاہا جن کی ٹونٹی فور / سیون موجودگی نے بیانیے کی نہ صرف نوک پلک درست رکھی بلکہ چہار اطراف سے چڑھ آنے والے تیر و تفنگ کو بھی اپنی ڈھالوں پر لے کر ناکارہ بنایا۔ ”بد تمیز یوتھیے“ کا لقب پانے والے یہ رضا کار وقت کی دوڑ میں ہمیشہ آگے رہے اور جب جب جہاں جہاں ضرورت پڑی تاریخ کے محافظ خانے سے درست حوالہ ڈھونڈنے میں ذرا دیر نہ لگائی۔ بعض اوقات حیرت ہوتی کہ بظاہر یہ نئی نسل پاکستانی تاریخ کا کتنا گہرا اور حقیقی شعور رکھتی ہے۔

بالآخر یہ الیکشن بیانیے کا الیکشن بن گیا۔ ایک اور مثال سیٹ ہو گئی۔ جیل میں بیٹھے شخص نے ایک اور سنگ میل عبور کر لیا۔ نقل تو سب نے اسی کی کرنی ہے اسی کا مارا ہوا سب کھاتے ہیں۔ تو آئندہ کے لیے لکھ رکھیے کہ الیکشن اب اسی طور ہوا کریں گے۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔ اس الیکشن کے ساتھ جو سلوک ریاست نے کیا اس کے بعد الیکشن کا کیا اعتبار باقی رہے گا؟ ریاست سے تو کسی خوش فہمی کی توقع تھی ہی نہیں۔ مایوسی دراصل ان (بظاہر) خرد مند، پر جوش اور موثر سوشل میڈیا رضا کاران اور پی ٹی آئی کی دستیاب قیادت کے اس رویے پر ہوئی جو چیف جسٹس کے ایک مخصوص فیصلے کے رد عمل کے طور پر سامنے آیا۔

یہاں آ کر سارا شعور بھک سے اڑ گیا اور پیچھے رہ گئی وہی اندھی تقلید جو گلیوں محلوں میں لاؤڈ سپیکروں پر بآواز بلند بانٹے گئے شعور کی مرہون منت تھی۔ ہماری یہ خوش فہمی بھی نقش بر آب ثابت ہوئی کہ دو سال سے ریاستی جبر کا شکار جماعت دیگر مظلوم طبقات کا درد محسوس کرتے ہوئے کم از کم اپنی سوچ میں تبدیلی لائے گی۔ یہاں تو الٹا دوسروں سے بڑھ چڑھ کر آوازے کسنے کا سلسلہ چل نکلا۔ ہر دوسرے درجے کا ”لیڈر“ ( جسے اصل لیڈر کی قیدوبند کے طفیل لیڈر بننے کا موقع مل گیا ) پریس کانفرنس بعد میں شروع کرتا تبریٰ پہلے۔

سوشل میڈیا پر چھائے عالی دماغ بھی اپنی اور ساتھ بغیر پوچھے مانگے اپنے لیڈر کی صفائیاں دینے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں جت گئے اور بھول گئے کہ آہنی ہاتھوں اور آہنی خول میں بند دماغوں نے ہمیشہ ریاست کے بہی خواہوں کو رگید کر ہی اپنا الو سیدھا کیا ہے۔ اور سوسائٹی کے کسی عنصر کو تو اتنا رگیدا ہے کہ سیدھا سارا پنچنگ بیگ ہی بنا چھوڑا ہے۔ جہاں کسی کا غصہ نکلوانا ہوا یا غصے کا رخ پلٹنا ہوا، اس پنچنگ بیگ کو آگے کر دیا۔ ریاست کے بڑے قاضی سے کروایا گیا حالیہ فیصلہ بھی کچھ اسی قسم کا ٹوئسٹ تھا جسے ہمارے سوشل میڈیا کے مہا کلاکار نہ سمجھ سکے اور لگے پنچنگ بیگ پر مکے برسانے۔

کم بختوں نے ہم کم بختوں کا دل ہی توڑ دیا۔ قسم سے جیل والا بندہ نہ ہوتا تو ہم لعنت بھیجتے ان سب پہ اور سیاست کی پیروی چھوڑ کر اپنی سیاحت کرتے، ادب پڑھتے، شعر کہتے، فلمیں دیکھتے، موسموں کا مزا لیتے اور زندگی کا لطف اٹھاتے۔ یہ کیا کہ ہر وقت جان سولی پہ لٹکی ہوئی ہے۔ اپنا خون جلا رہے ہیں۔ کبھی فیس بک، کبھی ٹویٹر کبھی یو ٹیوب۔ آنکھوں کا بیڑا غرق کر لیا۔ آخر کس کے لیے؟ اس شاہ دولا ”شعور“ کے لیے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments