لیڈر شپ کا بحران ہو گا تو ڈکٹیٹر آئے گا


مملکت خداداد پاکستان میں ایک عجیب ٹرینڈ بنا ہوا ہے کہ سب کچھ یا تو امریکہ کروا رہا ہے یا فوج کروا رہی ہے۔ یا پھر اکثر سیاسی جماعتیں یہ کہتی ہوئی پائی جاتی ہیں کہ فوج کا ایک آئینی کردار ہے۔ اس سے آگے اسے نہیں بڑھنا چاہیے۔ فوج کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور نہ مارشل لاء یا ایمرجنسی لگا کے ملک کے آئین کو معطل کرنا چاہیے۔ بلکہ اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی پسماندگی کی ذمہ دار فوجی حکومتیں ہیں۔ ملٹری ڈکٹیٹروں نے ملک کو تباہ کردیا وغیرہ وغیرہ ۔

حیرت کی بات ہے کہ کیا پاکستان کی تاریخ 5000 سال پرانی ہے کہ لوگوں کو کچھ یاد نہیں یا لکھی ہوئی تاریخ نہیں ہے جس وجہ سے ہم کوئی بات یا واقعہ کے حتمی ہونے پہ ہمیں شک ہے۔ کل 70 سال کی ہماری تاریخ ہے جس کا ایک ایک واقعہ اور لمحہ لکھی ہوئی حالت اور لوگوں کی یادداشت میں محفوظ ہے۔ اس لیے ہم بخوبی جانتے ہیں کہ 1954 بننے والی محمد علی بوگرا کی کابینہ میں ایوب خان جو کہ حاضر سروس کمانڈر ان چیف تھا اس کو وزیر دفاع، سیاسی اور سول لوگوں نے بنایا۔ پھر سیاسی لوگوں نے اسکندر مرزا جو کہ میر جعفر کی اولاد میں سے تھا اور فوجی بندہ تھا اس کو صدر بنایا گیا۔ اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آئین توڑ کے مارشل لاء انہی دونوں بندوں نے لگایا۔ اور فوج اقتدار کے ایوانوں میں ایسی داخل ہوئی کہ اب حال اس شخص جیسا ہے جو دریا میں تیرتے ریچھ کو کمبل سمجھ کے ہاتھ لگا بیٹھا اور پھر چلاتا رہا کہ میں تو کمبل کو چھوڑتا تھا کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہا۔

یہی احوال سیاستدانوں کا ہے کہ اب وہ فوج کو طاقت و اقتدار کی غلام گردشوں سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن فوج نہیں نکل رہی۔ جب عظیم قائد نے فوج کا کردار اپنی تقاریر میں واضح کردیا تھا تو کیوں اسے اقتدار کا راستہ دیکھایا گیا۔ عظیم قائد کے فرمان کی خلاف ورزی کرنے کی کچھ تو سزا ملنی تھی اور یہی سزا ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ وجہ پھر وہی ہے۔ کہ ہمارے سول اور مقتدر سیاسی رہنما اب بھی قائد اعظم کے اقوال اور احکامات کو پس پشت پہ ڈال کر ذاتی مفاد کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ فوج کے پاس سیاست میں آنے کا صرف اور صرف ایک جواز ہے اور وہ ہے ارباب سیاست کی نا اہلی، جیسے جیسے منتخب حکومت بے وقوفیاں اور نا اہلیاں زیادہ سے زیادہ کرتی ہے عوام میں غیر مقبول ہوتی جاتی ہے۔ اور ایسے میں عوام ذہنی طور پہ مارشل لاء کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔ کیونکہ ان کی بنیادی ضروریات سیاست دان سے زیادہ فوجی پوری کرتا ہے۔ اور یوں عوام کی ہمدریوں اور حکمران کی نا اہلی مل کے مارشل لاء اور ایمرجینسی کی فضا بنادیتی ہے۔ اور ملک ایک بار پھر ڈکٹیٹر کے شکنجے میں جڑا جاتا ہے۔ اگر حکمران اپنی نا اہلی کا سدباب کرلیں تو پھر فوج اقتدار کی طرف دیکھ بھی نہیں سکتی۔ اس کے علاوہ تمام حکومتی ادارے تباہ حال ہیں۔ اکثر کو اپنی ڈیوٹی کا پتا ہی نہیں ہے۔ جب متعلقہ ادارہ ناکام ہوتا ہے۔ تو ہماری حکومتیں فوج کی طرف مدد کو آواز دیتے ہیں۔ اور جب ایسا بار بار ہو۔ تو پھر فوج یہ سمجھتی ہے کہ جب ملک کا ہر کام ہم نے ہی کرنا ہے۔ تو پھر ملک چلانے کا کام بھی ہمیں دے دیں۔ اور باقی سب گھر جائیں۔ کیا اس میں فوج کاکیا قصور ہے؟

آج بھی ہماری تمام کی تمام لیڈرشپ اور پارٹیاں فوجی ڈکٹیٹروں کی پیداوار ہے۔ اسی صورت حال میں بات سمجھ سے باہر ہے کہ کہ فوج کا پروردہ فوج کے خلاف کس بوتے پہ علم بغاوت بلند کرسکتا ہے۔ جبکہ ان کا نظریہ یہ ہے کہ ہم بنا سکتے ہیں تو ہم بگاڑ بھی سکتے ہیں۔ اس ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ جو گانڈھیں سول اور سیاست دانوں ہاتھوں سے باندھی ہیں ان کو اب منہ سے کھولنا پڑے گا۔ سیاستدانوں نے ہی فوج کو اقتدار کا راستہ دکھایا اب اس راستے کو روکنا بھی سیاستدانوں کا کام ہے۔ اس لیے انہیں چاہیے کہ وہ آگے بڑھیں اور اپنی نیک نیتی ثابت کریں۔ کہ وہ خلوص نیت سے اپنی کی گئی غلطی کو درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب سیاستدان خود ٹھیک ہوکے چلیں گے تو فوج کا اقتدار کا راستہ بند سمجھو۔ ورنہ لیڈرشپ کا خلا پر کرنے کے لیے تو وہ بوٹ پالش کرکے اور پہن کے بیٹھے ہوئے ہیں ۔

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya