میلانیوں اور رومیوں کی نوک جھونک کراچی اور لاہور والوں جیسی ہے


”دی لاسٹ سپر“ دیکھنے کے بعد اب باہر بینچ پر بیٹھی گھونٹ گھونٹ دودھ پیتے، کبھی لوگوں پر نگاہیں ڈالتے اور کبھی نقشے کو دیکھتے، سوچوں کی گھمن گھیریوں میں تھی کہ آگے کیا دیکھنا ہے؟ وہیں بیٹھے بیٹھے نقشے کو کھولا ضرور، مگراگلا آئٹم ”لیونارڈو کا گھوڑا“ دیکھنے سے انکاری ہوگئی۔ ’’بس بھئی بس! بہت خراج تحسین پیش کر دیا ہے، میں نے۔ وانچی کے علاوہ بہت کچھ اور بھی ہے میلان میں۔‘‘

’’میلان کے ڈاؤن ٹاؤن چلتی ہوں۔ میلان کا مرکز، حد درجہ حسین، اس کی تاریخ و تہذیب سے لدا پھندا۔ اس کی گلیوں میں نکلتی ہوں اور خوب خوب سیر سپاٹا کرتی ہوں۔‘‘
اورجب بس سے اُتری تو ڈومو کا وہ بھریا میلہ اپنی رعنائیوں سے گویا جگمگا سا رہا تھا۔ گلیریا Galleria کی سہ منزل عمارات کے رنگ و روپ اور حسن کو دیکھتے ہوئے خود سے کہتی ہوں۔
’’اف کتنی فن کاری کا غازہ ان کے منہ ماتھوں پر تھپا ہوا ہے۔“

اب چلتی جارہی ہوں اور آگے کھلے گلیارے سے باہر نکلتی ہوں، تو سانس رک جاتی ہے۔ اُف ایسا خوب صورت منظر؛ شان دار عمارتوں سے گھرا میدان۔ ایک جانب اونچے سے پیڈسٹل پرکھڑا یوروپ کی نشاۃ ثانیہ کا وہی محبوب جینئس لیونارڈو ڈا ونچی اپنی لمبی داڑھی، لمبے چوغے اور اپنا ہائیڈرو انجنئرنگ ہیٹ پہنے وجود میں اپنے علم کی بے پایاں وسعتوں کو حلم اور عاجزی سے سمیٹے، آنکھیں جھکائے، ہاتھ ناف پر باندھے، گویا اِس خوب صورت لاسکالا اوپیرا ہاؤس کو تعظیم دیتا ہو۔ کمال کی بات ہی تھی ناں، کہ اُس نے میلان کے نہری سسٹم کو لاکز Locks کے تحت کیا۔ اس سسٹم نے 1920ء تک بڑی کام یابی سے کام کیا۔

نیچے اس کے چار نوجوان شاگرد مختلف سمتوں میں کھڑے ہیں۔ مشتاقانِ دید کا ایک ہجوم اس کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے، تصویر کشی اور کہیں ایک دو پوڈیم کے نیچے لکھی گئی تحریروں کو پڑھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
اور جب دھوپ زیتونی رنگی ہوتے ہوتے بلند و بالا عمارتوں کے بنیروں پر ٹکنے لگی، تب تک میں نے چلتے چلتے میلان کے اس ڈاؤن ٹاؤن کی دائیں بائیں مڑتی گلیوں اور ان کے دہانوں سے پھوٹتے مختلف اسکوائرز دیکھ لیے تھے۔

اور اب میں پیازہ ڈل ڈومہ کے کھیتڈرل کی سیڑھیوں پر بیٹھی، ابھی ابھی میکڈونلڈ سے خریدی گئی آئس کریم چاٹتے ہوئے، کتنی مسرور سی ہوں۔ آنکھیں اوپر اٹھا کر نیلی چھت والے کا شکریہ بھی ادا کردیا ہے۔ بھلا زندگی کے ایسے خوش گوار ترین لمحات اُس کی عنایت ہی ہیں ناں، کہ جب آپ اپنی پسندیدہ جگہ پر بھی ہوں اور سکون و طمانیت موج زن ہوں۔

تو شام اب بنیروں پر بیٹھی ہے۔ سامنے فرش پر کبوتروں کی مست خرامیاں جاری ہیں۔ دل بروں کے رنگ ڈھنگ بھی شام کا حسن بڑھا رہے ہیں۔ ہمیں ایسی چاہتیں نصیب نہ ہوئیں، تو بھئی دوسروں کو دیکھ کر جلیں کڑھیں کیوں؟ خوش ہورہے ہیں۔

تبھی ایک خاندان میرے قریب آکر بیٹھ گیا ہے۔ پاکستانی نژاد اٹلی میں عرصہ پچیس سال سے مقیم۔ بیوی، بیٹا، بیٹی، شوہر عزیز احمد بڑا گالہڑی قسم کا بندہ۔ پل نہیں لگا تھا کہ یوں گھل مل کر باتیں کرنے لگا، جیسے میں تو اس کی سگی آپا، اُس کے ماں باپ کی پہلوٹھی کی اولاد ہوں۔ تاہم تھا تیز طرار۔ گرم سرد زمانے اور حالات کا چشیدہ، نظر میں وسعت تھی اور دماغی طور پر بہت تیز۔ میلان تو اس کے پوروں پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا کون سا گلی کوچہ تھا، جس سے وہ ناواقف تھا۔
اُس نے فوراً پوچھا۔
’’وایا دانتے Vaya Dante سٹریٹ نہیں گئیں۔‘‘ میرے انکار پر بولا۔ ’’تو یہاں بیٹھی کیا کررہی ہیں؟ وہاں جائیے۔‘‘
مجھے اس کے انداز تخاطب پر تھوڑا سا غصہ آیا۔ تنک کر بولی۔’’میں کھیر تتی تتی کھانے کی عادی نہیں۔ ٹھنڈی کرکے مزے مزے سے کھاتی ہوں۔ میلان کا مرکزی حصّہ ٹھوٹھی میں جمی کھیر جیسا ہے۔‘‘
بڑا ہنسا۔ ہشیار آدمی تھا، سمجھ گیا تھا کہ مجھے برا لگا ہے۔ فوراً وضاحت کرنے لگا۔
’’بھئی کیا بات ہے اُس کی۔ شام کے حسین لمحوں میں جب وہاں اکارڈین بجتا ہے۔ بائک کی گھوں گھوں فضاؤں میں گونجتی ہیں۔ قدیم کرداروں کے کاسٹیوم پہنے گھومتے پھرتے کردار آپ کے ساتھ تصویریں اترواتے ہیں۔ بہت مزہ آتا ہے سچی وہاں جاکر۔‘‘
’’ابھی تو میں بہت دن ہوں یہاں۔ کل روم کے لیے ٹکٹ لینا ہے، تو اِسے بھی دیکھنے جاؤں گی۔‘‘

بہرحال وہ ہے دلچسپ تھا۔ اُس نے تو میلانیوں اور رومیوں کے وہ پر لطف قصے سنائے۔ شمال اور جنوبی سمت کے علاقوں کے اپنے اپنے ورثے کی بڑائی اور تفاخر کی داستانیں۔ روم اور میلان کی آپس کی مقابلے بازیاں۔ بڑی ٹسل رہتی ہے میلان اور روم میں۔ ’’ارے بھئی! ویسی ہی ناں، جیسی ہمارے ملک میں کراچی اور لاہور والوں کی ہے۔“
ساتھ ساتھ اس کی رننگ کمنٹری نے گویا سماں باندھ دیا تھا۔
’’کراچی والوں کو لاہوری پینڈو اور لاہور پنڈ لگتا ہے۔ بس یہی احوال اِن میلانیوں کا ہے۔ روم والے تو انھیں نری سستی کی پنڈیں اور زمانے بھر کے کاہل نظرآتے ہیں۔ وہ تو منہ پھاڑ کر کہتے ہیں۔ کام کے نہ کاج کے، دشمن اناج کے۔ حکومتی نوکریاں کرتے ہیں اور مزے لوٹتے ہیں۔ ایک تو کام کے لیے مخصوص گھنٹے اس میں بھی ان کی ڈنڈیاں۔

ابھی دفتر میں آکر بیٹھے ہیں، کہ وقفہ آگیا ہے۔ بندہ پوچھتا ہے، بھئی کاہے کا؟ جی! کافی بریک ہے۔ اب کیا ہے؟یہ لنچ بریک ہے۔ اب ساتھیوں کے ساتھ گپ شپ ہورہی ہے۔ دوستوں، محبوباؤں، کبھی عزیزوں اور بیوی بچوں کے فون سننے بھی تو ضروری ہیں۔ ارے نرے چور اُچکّے ہیں یہ رومی۔ حکومت کے ٹیکسوں پر موجیں مارتے ہیں۔ یہ ہم میلانی ہیں جو خون پسینا ایک کرکے حکومت کا ٹیکسوں سے گھر بھرتے ہیں۔‘‘

میرا تو ہنستے ہنستے برا حال ہوگیا اور یقینا آپ کو نہیں پتا ہوگا کہ یہاں بڑی زوردار قسم کی جنوبی حصوں سے علاحدگی کی تحریکیں بھی چلتی رہتی ہیں۔ تو اب تصویر کا دوسرا رخ بھی سنیے۔ روم والے بھی دور کی کوڑی لاتے ہیں۔ نخوت سے نتھنے پھیلاتے اور تبصرہ کرتے ہیں۔
’’ارے ہٹاو اِن میلانیوں کو، ہم تو ویسے ہی اِن ہندسوں میں اُلجھے، ہمہ وقت دو اور دوچار کے چکروں میں پھنسے، ایک سے گیارہ یورو بنانے والوں کو رد کرتے ہیں۔ زندگی کا کوئی مزہ ہی نہیں، ان کے یہاں۔ کم بخت مارے خود بھی پیسے کے دھن چکر میں اُلجھے ہوئے اور شہر کو بھی دھند کے غبار میں ڈبوئے رکھتے ہیں۔ہاں! اتنا ضرور ہے، ہمیں بھی اس کا اعتراف ہے، کہ ملازمتوں کے مواقع زیادہ ہیں، اِس شہر میں۔ میرٹ کا بھی یہ میلانی بہت خیال رکھتے ہیں، مگر بھئی کاروبار جو کرتے ہیں، ذاتی۔ اور اپنے تو میرٹ کا خیال نہ رکھیں گے تو اور کیا کریں گے؟

دونوں کو ایک دوسرے سے ڈھیروں ڈھیر شکائتیں ہیں۔ کہیں غیر مہذب ہونے، کہیں روم کو ایک گندہ شہر سمجھنے اور کہیں میلانی خشک لوگ ہیں، وغیرہ؛ مگر اس کے باوجود ایک دوسرے کی خوبیوں کا بھی خوش دلی سے اعتراف کرتے ہیں۔

یہ سب سننا میرے لیے کتنی بڑی تقویت کا باعث تھا کہ میں جو ایسے ہی حالات کی زخم خوردہ تھی اور نہیں سوچتی تھی کہ ایسی صورت اٹلی جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی ہوسکتی ہے۔

اسکوائر روشنیوں سے جگمگانے لگا تھا، کیوں کہ دھوپ اپنا بوریا بستر سمیٹ چکی تھی۔ فیملی نے مجھے اپنا کارڈ دیا۔ گھر آنے کی دعوت دی۔ شام بہت خوش گوار رہی، کہ مجھے نہ صرف انھوں نے اپنے ساتھ رکھا بلکہ میڑو سے اُس گاڑی میں بھی سوار کرادیا، جس نے مجھے چیزاتے پہنچانا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).