تعلیم کی نج کاری، مستقبل کی تاریکی


آج ہمارا تعلیمی نظام صاف طور پر دو حصوں میں منقسم نظر آتا ہے، ایک جدید تعلیم کا نظام ہے جس کے تحت روزگارپر مشتمل نصاب ہے اور دوسری طرف روایتی تعلیمی نظام ہے جس کے ساتھ روزگار کے بہت کم مواقع ہیں۔ روزگار کے مواقع حاصل کرانے والی تعلیم کے لیے اقتصادی طور پر خوش حال طبقے میں دل چسپی دکھائی دیتی ہے، کیوں کہ وہ جانتے ہیں ان کے بچے اس تعلیم کو حاصل کر کے روزگار حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمارے دیہی نوجوانوں کے ماں باپ اتنے خوش حال نہیں ہوتے کہ وہ بچوں کو مہنگی تعلیم فراہم کر سکیں۔ ہمارے ملک ہندوستان میں تعلیم کے لیے ایسا ماحول تیار ہوتا جا رہا ہے، جس میں سبھی کو سب کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ ایسے ماحول کے لیے ہماری سرکاری پالیسی ہی ذمہ دار ہے۔
ملک کی آزادی کے وقت لارڈ میکالے کے ذریعے دیے گئے تعلیمی نظام ہی کو حرف آخر سمجھا گیا، جس سے آج تک ملک کا نقصان ہی ہوا ہے۔ آج بھی ہم تعلیم کے لیے دیہی سطح پر بنیادی ڈھانچا تیار نہیں کر سکے۔ اکثر گاوں میں آج بھی بنیادی درس گاہوں کی کمی ہے۔ طالب علم کئی کئی کلومیٹر پیدل چل کر اسکول جانے پر مجبور  ہیں۔ ایسے ماحول میں کم زور اقتصادی حالت والے خاندان اپنے بچوں کو مزید تعلیم کے لیے شہر بھیجنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ آج بھی تقریباً ساٹھ فی صد بچے پرائمری اسکول سے آگے تعلیم جاری رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ چالیس فی صد بچے ثانوی درجے کی تعلیم کے بعد اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ جب کہ بیس سے پچیس فی صد بچے ہائی اسکول تک کی تعلیم ہی حاصل کر پاتے ہیں، کہ اقتصادی اور معاشرتی مسائل انھیں آ گھیرتے ہیں۔ ایسے حالات میں اعلی تعلیم کے میدان میں دیہی نوجوانوں کی کس قدر نمایندگی ہوگی؟
روایتی تعلیم کے میدان میں کوئی دیہی نوجوان گریجوایشن تک کی تعلیم حاصل کرلینے کے باوجود، روزگار کے بازار میں اپنے آپ کو کسی مقام پر نہیں پاتا۔ سرکاری اداروں میں روزگار کی صورت احوال بہت ہی خستہ ہے۔ گزشتہ کئی سالوں کے تجزیوں کے مطابق روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ہمارے دیہی سماج کے صرف 12.0 فی صد نوجوان مینجمنٹ یا پروفیشنل کورس کرنے میں کام یاب ہو پاتے ہیں۔ ان میں سے صرف دو فی صد، کوئی بڑا روزگار حاصل کرنے میں کام یاب ہوتے ہیں۔ ہماری حکومت نے جس تیزی سے روزگار سے جڑے تعلیم کی نج کاری کی ہے، اس سے مفلس اور عام طبقے کو ایسی تعلیم سے محرومی ہی نصیب ہوئی ہے۔
اس نج کاری نے انجیئنرنگ، طب، مینجمنٹ، کمپیوٹر اور مختلف روزگار فراہم کرنے والے ڈپلوما اور سرٹفکیٹ کورسوں کے ذریعے، تعلیمی نظام پر غاصبانہ قبضہ کر لیا ہے۔ من مانے طریقے سے داخلہ جاتی عمل اور فیس کا ڈھانچا کھڑا کر لیا گیا ہے، جس کے ذریعے تعلیمی ادارے محض پیسا کمانے کے مراکز بن کر رہ گئے ہیں۔ جہاں متمول والدین کے بچوں کو داخلہ دے کر بھاری فیس وصول کی جاتی ہے، تا کہ ان کی اور ان کے ادارے کی صحت بنی رہے۔ تعلیم کے اصل مقصد سے منحرف یہ ادارے سرکاری ہدایات و احکامات پر کبھی عمل نہیں کرتے۔ انھوں  نے اپنے اصول، اپنے قانون اپنی سہولت کے مطابق گڑھ لیے ہیں۔
اس نج کاری کے ذریعے، غریب اور دیہی نوجوانوں کو اعلی تعلیم ہی سے محروم رکھنے کا ناٹک نہیں چل رہا، بلکہ انھیں اسکول کی تعلیم سے بھی محروم رکھنے کی سازش ہو رہی ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بڑے پبلک اسکولوں کے پاس بھی ان غریب کے بچوں کو مفت اور اچھی تعلیم دینے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ وہ ملکی مفاد میں سوچنے کے لیے مجبور نہیں۔ وہ صرف انھیں اپنے اسکولوں میں داخل کرتے ہیں، جو ان کے مقرر کردہ فیس کو بے تامل ادا کر سکیں۔ اس ناروا تقسیم کے نتیجے میں ابتدائی دور ہی سے معیار زندگی پستی کی راہ پر لگ جاتا ہے۔ بالآخر امیر، غریب دو متوازی سماج تشکیل پاتے ہیں۔ ان میں سے ہر دو کے درمیان اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر دوری پیدا ہوتی چلی جاتی ہے، ایک طبقہ احساس کم تری میں مبتلا ہو کر حسد کاشکار ہو جاتا ہے، تو دوسرا افراط زر اور وسائل کی فراوانی میں کوتاہ بیں اور غفلت شعار بن جاتا ہے۔
تعلیم کے عدم مساوات سے دیہی نوجوان تیزی سے بے روزگار ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی بے روزگاری ملک کو خطرناک مستقبل کی طرف لیے جارہی ہے۔ دیہی نوجوان چھوٹے موٹے کاموں کے لیے شہر کا رخ کر رہے ہیں، جس سے ملک کے بنیادی ذریعہ آمدنی زراعت کو بھی نقصان ہو رہا ہے۔ شہروں میں معیار زندگی میں بھاری فرق کو دیکھتے ہوئے کچھ نوجوان جلد امیر بننے کے چکر میں جرائم کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ گاوں میں رہ کر بھی وہ کھیتی میں کام یاب نہیں ہوتے، کیوں کہ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ آج کل کھیتی باڑی گھاٹے کا سودا بنتی جا رہی ہے۔ اس میں لگائے گئے سرمایے کی قیمت نکالنا ہی مشکل ہو گیا ہے۔
ایسے حالات میں تمام راستوں کو بند دیکھ کر دیہی نوجوان کشمکش کا شکار ہیں۔ ہند سرکار کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو سمجھے اور دیہی نوجوانوں کے لیے ایسا لائحہ عمل مرتب کرے، کہ وہ اپنی زندگی کو سماج کے مرکزی نکتے سے منسلک کرنے میں کام یاب ہو سکیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ دیہی نوجوانوں کو ایسے مواقع فراہم کرے، کہ وہ  ناچار محض نہ بن کے رہ جائیں، بلکہ ”تعلیم سب کے لیے“، ”اسکول جائیں ہم“ اور ”مڈ ڈے میل“ جیسی سرکاری کوششوں کو حقیقت کا روپ دیا جائے، تا کہ اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہو سکیں۔
محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 173 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah