شہر کراچی بھٹو کا اور مردم شماری


\"haiderکراچی میں سیاسی گرما گرمی کا آغاز ہو چکا ہے اور الیکشن 2018 سے پہلے ہی ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی فتوحات نے اُسے سندھ کی مقبول جماعت ثابت کر دیا۔ پی ایس 119 کے بعد اب این اے 258 میں ضمنی انتخاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے حکیم بلوچ نے کامیابی حاصل کر لی جس کے بعد سوشل میڈیا ٹاپ ٹرینڈ بنا ’شہر کراچی بھٹو کا‘۔ ضمنی انتخاب میں 78ہزار 338 ووٹ ڈالے گئے جن کا تناسب 19 فیصد رہا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کئے گئے نتیجے کے مطابق پیپلز پارٹی کے حکیم بلوچ نے 72 ہزار 400 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ جب کہ شاہ ولی اللہ کو ایک ہزار 999 ووٹ ملے۔ یہ نشست ضمنی انتخاب جیتنے والے حکیم بلوچ کے استعفے کے بعد خالی ہوئی تھی جو مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے اور انتخابات میں حصہ لیا، متحدہ قومی موومنٹ نے انتخابات میں حصہ نہ لینے کی وجہ سندھ حکومت کا وسائل کا ناجائز استعمال بتائی اس ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) نے حصہ نہیں لیا جب کہ پاکستان تحریک انصاف نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔

ضمنی الیکشن 2016 کراچی میں اور حلقہ این اے 258 سے ایک بلوچ سپوت جس کا انتظار لیاری والے اپنی مجلسوں میں کیا کرتے تھے جس کا تذکرہ ’’لیاری کا مقدمہ‘‘ کی تقریب رونمائی میں سُننے کو ملا جہاں کہا گیا کہ ہم پر دریا پار والے مسلط ہیں۔ اے حکیم بلوچ تم اپنے ہو ہماری کرائے کے قاتلوں سے جان چھڑاﺅ۔ یہ تو بلوچوں سے ہی پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا تمھیں وقت پر یاد کیا گیا یا نہیں، میں اس پر مزید بحث نہیں کر سکتا لیکن جب بلوچوں کی بات ہو تو لیاری کے دوست یاد آجاتے ہیں جو ہر سال زیارتِ قبورِ شہنشاہ سیاسیات و زندان کے لئے اندرونِ سندھ چکر لگاتے ہیں۔ میں نے ایک دن ہمت کر کے اُن سے پوچھ ہی لیا ارے یہ جو چکر ہیں کس چکر میں ہیں؟ تو میرے معصوم دوست بولے صاحب ایک ہی تو گھرانا ہے ہمارے لیاری والوں کا، ابھی کل ہی لیاری کے لئے ڈھائی کروڑ روپے پیکج کا اعلان کیا اور لیڈر محترم تو پوری تقریر میں لیاری کی حالت پر افسوس کرتے رہے اور جاتے جاتے ایک اہم بات کہی کہ ہمیں لیاری کے پسماندہ طبقات سے پیار ہے اور لیاری والوں کے ساتھ ہمارا دل دھڑکتا ہے۔ اس بات سے ہمیں اندازہ ہوا کہ صاحبِ اقتدار ہم لیاری والوں کی مصیبت سے کتنا آگاہ ہیں۔ میں انہیں مزید کچھ سمجھا نہ سکا کہ کون اس کا ذمہ دار ہے اور کون گذشتہ دو عشروں سے زائد فاتح سندھ ہے۔ یہ جو شکوے، شکایتیں لیڈر صاحب نے کیں، کس سے کیں؟ کس نے لیاری والوں کی خدمت سے صاحب اقتدار کو روکے رکھا؟ کون وفاق و اَکائی میں حکومت کرتے ہوئے بھی اپنے اور چہیتے لیاری میں امن نہیں لا سکا اور اب لیاری سے محبت کیسے جاگ گئی؟ بہت سے سوالات ہیں۔

 اب این اے 258 کو دیکھیں تو پی پی پی کے امیدوار 17 فیصد کے قریب ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ جس کا صحیح مفہوم ریاضی کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ یوں کہ مثلاً ایک حلقے میں ایک لاکھ ووٹ ہیں ان میں سے سترہ ہزار ووٹ سے ایک شخص منتخب ہوا۔ یہ گنتی یہیں رہنے دیں ذرا پاکستان میں ووٹوں کی گنتی دیکھ لیں۔ کیا شرح ہے، کل کتنے ووٹ ہیں۔ اس میں تحقیق جو کہ مختلف سرکاری دستاویزات سے حاصل کی ہے بتاتی ہے کہ پاکستان میں کل آٹھ کروڑ اکسٹھ لاکھ ووٹر ہیں جن میں سے خواتین کے تین کروڑ پینتیس لاکھ ووٹ ہیں اور مرد ووٹ چار کروڑ پچاسی لاکھ کے قریب ہیں۔ 2013 میں ٹرن آوٹ 55فیصد تھا اور اب ن لیگ جو اقتدار میں ہے وہ ایک کروڑ اڑتالیس لاکھ کے قریب ووٹ لے کر آئی۔ تحریک انصاف کا دوسرا نمبر آتا ہے۔ خیر یہ ایک سرسری جائزہ تھا اس کے ساتھ آبادی کا جائزہ لگائیں تو ایک نسل جوان ہونے کے قریب پہنچ گئی اور ابھی تک کہیں مردم شماری کا نام ونشان نظر نہیں آتا۔ کل آبادی کو میں تقریباً بیس کروڑ کہہ لیتا ہوں جو قابل یقین عدد ہے۔ اب اس میں سے رجسٹرڈ ووٹ کو چھوڑ دیں، منتخب نمائندوں کو دیکھ لیں جو کل ووٹ لے کر حکومت میں آئے ہیں۔ یہ تعداد آبادی کے تقریباً آٹھ فیصد کے قریب بنتی ہے۔

چند دن قبل مردم شماری کے لئے سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ مارچ 2017 سے پہلے مردم شماری کی جائے اب دیکھتے ہیں کہ 17سال سے قوم حکومت سے جس آئینی ذمہ داری کی توقع کر رہی ہے کیا حکومت اس کام کو پورا کرے گی یاپھر پاکستان قیاس پر ہی چلے گا۔ اس تعداد کے بعد اب عمران خان صاحب سے متوجہ ہو کر بتانا چاہتا ہوں کہ محترم آپ خیبر پختونخوا میں میں صرف اچھی کارکردگی دکھانے کی کوشش کریں۔ آپ سات نہیں بلکہ ساٹھ فیصد تک بھی جا سکتے ہیں۔ وہ یوں کہ آپ اشتہار کے لئے اچھا مال سامنے رکھیں گاہک خود کھنچے چلیں آئیں گے۔ اور یہ تو ویسے بھی بہترین بزنس ہے بس آپ ابھی سے انویسٹمنٹ شروع کر دیں۔ اور اگر عمران خان مردم شماری کے لئے دھرنا دیتے تو شاید عمران خان کی پاکستان کے مستقبل پر نظر رکھنے والے دانشوروں کی نظر میں اہمیت بڑھ جاتی اس میں دھرنے ناکام بھی ہوتے تو عمران خان داد کی مستحق ٹھہرتے لیکن افسوس۔ کیونکہ پاکستان کا مستقبل چاہے وہ سیاسی ہو یا معاشی آبادی کی تعداد سے جڑا ہے۔

خیر دوبارہ کراچی الیکشن پر آتے ہیں تو پہلے ضلع ملیر کے رہنے والے ساجد جوکھیو کے رویے سے مایوس تھے اور محترم سے دفتر میں جا کر ذلیل ہوتے رہتے تھے کبھی پی ایم ٹی کے لئے تو کبھی پانی کنکشن کے لئے۔ اب ایک اور حکیم کو آزما یا گیا۔ لازم ہے کہ ہم دیکھیں گے کیسے حکیم حکمت دکھاتے ہیں کہیں وہ حلقے کے لئے ویسے ہی ثابت نہ ہوں جیسے ن لیگ کے ساتھ رہتے ہوئے تھے۔ پہلے یہ بہانا کر لیا جاتا تھا وفاق سے کام کروا لوں لیکن صوبے والے بجٹ منظور نہیں کرتے، سائیں سرکار رکاوٹ بنی ہے۔ میں حکیم بلوچ سے ذرا سوال کرنے کی جسارت کرتا ہوں حکیم صاحب آپ نے بھینس کالونی میں دورانِ بلدیاتی الیکشن کہا تھا کہ پیپلزپارٹی سندھ نے ہمارے ساتھ سخت رویہ اپنا رکھا ہے وہ ملیر کی عوام کی بھلائی کے لئے کام نہیں کرنے دیتے۔ اب کیا ہوا جو انہی دشمنانِ ملیر کی گود میں جا بیٹھے یا یوں کہہ لوں کہ سیاست میں کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہاں مفاد کی بات الگ ہے۔ اختتام ایک شعر کے ساتھ

 دیکھیے پاتے ہیں کیا عشاق بتوں سے فیض

اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments