میاں صاحب! متبادل بیانیہ حاضر ہے


وزیراعظم پاکستان نے لاہور کے جامعہ نعیمیہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوے علماء سے دین کا متبادل بیانیہ تشکیل دینے کا تقاضا کیا چونکہ متبادل بیانیے کی ضرورت کی بات سب سے پہلے معروف مذہبی سکالر جناب جاوید احمدغامدی صاحب کے جانب سے سامنے آئی تھی تو وزیراعظم کے حالیہ بیان کے بعد روایتی مذہبی حلقوں کی نظریں وزیراعظم کے کچن کیبنٹ میں اس سپیچ رایٹر کی تلاش میں لگ گیئں جس کی وجہ سے وزیر اعظم کی تقریر میں ” غامدیت ” کی چھاپ محسوس کی گئی۔ جناب غامدی صاحب نے جو متبادل بیانیہ دیاتھا اس کا لب لباب یہ ہے کہ ریاست کی عملداری کا دائرہ کار وسیع کردیاجائے اور فتوی، جہاد وغیرہ کی پرائیوٹ تصور کو ختم کردیا جائے لیکن اس بیانیے سے متعلق ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں ان مسائل کی پیدا ہوجانے کی بنیادی وجہ ریاست کی اپنے آپ کو محدود کرکے رکھ دینا نہیں بلکہ ریاستی پالیسیوں کی تشکیل میں مقتدر پالیسی ساز اداروں کی جانب سے عوام اور ان کے منتخب اداروں کی اجازت اور شمولیت کی ضرورت سے مستقل انحراف کرنا ہے اوراسی تناظر میں یہ دعوہ بھی سامنے آتاہے کہ یہاں پر اور یہاں سے، جو بھی جہاد لانچ ہواہے وہ اپنے اصل اور پس منظر کے اعتبار سے پرائویٹ ہر گز نہیں رہے ہیں البتہ اس کی ظاہری شکل وصورت کی بات مختلف ہے۔

لہذا متبادل بیانیے کی ضرورت اور خدوخال پر بحث کرنے سے پہلے اس مسترد شدہ بیانیے کی خالق اور پروڈکشن کی پراسیس کا سرا تلاش کرنا ضروری ہے جس بیا نیے کو آج کل تمام زمینی مصیبتوں اور آفتوں کی ماں سمجھا جا رہا ہے۔

اور اس کے علاوہ دوسرا اہم اور اس سے بھی زیادہ توجہ طلب امر یہ ہے کہ کیا واقعی اس ملک کے اقتدار واختیار کے اصل مراکز بھی کسی نئے اور متبادل بیانیے کی ضرورت محسوس کررہے ہیں؟

اگر واقعی ایسا ہے تو وہ متبادل بیانیہ تو بہت ہی آسان اورانتہائی سادہ سا ہے اور وہ بیانیہ یہ ہے کہ تمام ریاستی ادارے خلوص دل سے ماضی کے ان گناہوں سے توبہ کرکے اس بیانیے کے سپورٹ سے عملا ہاتھ کھینچ لیں جس میں اسلام کو ماردھاڑ، بدمعاشی اور اندھی جذباتیت کا سمبل بنا کر رکھ دیا گیا ہے اوراپنے ان غیر مسلم اور غیر ملکی ” فرینڈز ناٹ ماسٹرز ” سے اسی سلسلے میں کرائے کی مد میں ملنے والی کولیشن سپورٹ فنڈز کی مزید وصولیوں سے بھی انکار کردیں جنہوں نے دہشت گردی اورانسداد دہشت گردی دونوں کاموں کی سرپرستی کا بیڑہ بہ یک وقت اٹھا رکھا ہے۔

فقہ، حدیث اور سیرت میں یہی کتاب الجہاد اور غزوات و سرایا پہلے بھی پڑھے اور پڑھائے جاتے تھے مگر معاشرے میں مولوی اور طالب سے بڑھ کر معصومیت، شرافت اور بے لوثی کا کوئی دوسرا نمونہ پیش کرنا بھی مشکل تھا۔ سوال یہ ہے کہ دین کی یہ تعبیر یا بیانیہ برآمد کہاں سے ہواہے؟ حال ہی میں شائع ہونے والی سلمان عابد کی کتاب ” دہشت گردی ایک فکری مطالعہ ” کے بعض مندرجات کو زیر بحث لایا جاسکتا ہے لیکن اس کتاب کے آخر میں چاروں متداول فقہ کے آئمہ اور ماضی کے دوسرے ممتاز اہل علم کے ریاست کے خلاف خروج کے بارے میں عدم جواز کی رائے خود ان کی الفاظ میں دیکھی جاسکتی ہے پھر بیانیے کی بحث میں دین کی فہم پر نظر ثانی کر کے متبادل بیانیے کی تیاری کا بار علماء کے دوش پر کیونکر رکھا جا رہا ہے؟ اسلام کی تعلیم کا بالکل یہی نصاب انڈیا میں بھی پڑھا اور پڑھایا جاتاہے وہاں کے بیس کروڑ مسلمانوں کے سامنے تو ” مشرکانہ طاغوتی نظام ”سے چھٹکارا پانے کا جواز بھی ہے اور اپنے اباء واجداد کی میراث ہندوستان کی تاریخی بادشاہت دوبارہ چھین لینے کے لئے اٹھ کھڑے ہونے کا بہانہ بھی، پھر کیوں پورے انڈیا میں تشدد کا علمبردار مسلمانوں کا کوئی چھوٹا سا جتھہ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا؟

ہمارے بزرگ فرماتے ہیں کہ پارسائی کا تقاضا ویسے یہ ہے کہ فلمیں نہیں دیکھنی چاہیے لیکن میرا مشورہ ہے کہ ”چارلی ولسن وار ”کے دو سین دیکھنے چاہئیں۔ ایک سین وہ کہ جب جنرل ضیاء الحق صاحب کسی کمرے میں بیٹھے ہوئے ہیں اور دیوار کے اوپر کلمہ طیبہ اویزاں ہے جس کے اوپر ہالی ووڈ کا ظالم کیمرہ مین خصوصی فوکس کرتا ہے اور اس کے نیچے ضیاء صاحب امریکی نمایندے کے ساتھ ” جہاد ”کے لئے بھاؤ تاؤ طے کرتے ہوے نظرآتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر ہر باضمیر انسان شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے اوردوسرا وہ سین کہ جب چارلی ولسن ضیاء صاحب سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اگرافغانستان میں جہاد کے لئے اسرائیلی اسلحہ بھی آجائے تو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا اورجنرل صاحب مسکراتے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ

“مسٹر چارلی! اسرائیل کے تعاون کا کہیں تذکرہ نہیں آنا چاہیے۔ نہ ہی کسی چھوٹے سے بم پر بھی ڈیوڈ سٹار کی مہر نظرآنا چاہیے۔ ہم دنیا کے سامنے دشمن ہیں اور یہی دنیا کو نظرآنا چاہیے“
عرب اور غرب کی قیادت میں قایم نظریے، پیسے اور اسلحے کے تکون نے اس خطے کی امن کو ہی نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی، سیاسی، تزویراتی اور یہاں تک کہ مذہبی اقدار کوبھی چیلنج اور بڑی حدتک تبدیل کر دیا اور بدقسمتی سے ہماری ریاست بھی یا تو غیروابستگی کا اختیار نہ رکھنے یا پھر ڈالر وریال کی بہتی گنگا میں اشنان کی لالچ سے غیر مقدس مقاصد کے لئے مقدس تصورات واصطلاحات کو بطور اوزار استعمال کرنے کی پالیسی میں بطور سہولت کار سامنے آئی۔ ورنہ جن دینی روایات کی طرح یہاں ڈالی گئی وہ بھی اس خطے کی تاریخ کے لئے ہی نہیں بلکہ کلاسیکل اسلام کے لئے بھی اجنبی تھے۔ بطور مثال کل ہی افغانستان کے شہر بامیان میں طالبان کے ہاتھوں بدھ مت کی مجسموں کی انہدام کے سولہ سال پورے ہوگیے ان مجسموں کو گرانے کی جواز کے لئے جو بیانیہ تشکیل دیا گیا تھا وہ اس خطے کے لئے بھی نیا تھا اور روایتی اسلام سے بھی یکسر مختلف۔

ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج انہی عربوں اور غربیوں کی استعماری مقاصد کے لئے ” تزویراتی اثاثے ”کی حیثیت سے جان چھڑانے کے لئے تیار ہونے کا بیانیہ ہے اور اس چیز کا انحصار بیانیے سے زیادہ ریاستی پالیسیوں کی تشکیل نو اور ان پر نظر ثانی کا ہے جس کے ابھی بظاہر آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے۔ عرب اور غرب کے درمیان تو بس صرف ایک نقطے کاہی فرق ہے۔ ان دونوں کی باقاعدہ معاہداتی اکٹھ کو ایک صدی سے دو سال کے اوپر کا عرصہ گزر چکا ہے یہ اکٹھ تزویراتی، سیاسی، اور یہاں تک کہ مذہبی لحاظ سے بھی ایک دوسرے کی سہولت کاری پر مبنی ہے ہماری حیثیت ان دونوں کی نظروں میں بھاڑے کے ان ٹٹووں کی ہے جن کی عوام کو صرف کھجور اور عیدالاضحی پر ہونے والی قربانی کے دنبوں اور خواص کی خدمات کو خالص ریال اور خالص عود کے بدلے کسی بھی وقت کسی بھی مقصد کے لئے کوئی بھی خرید سکتا ہے۔ ہمارا اصل مقام یہی تھا اور یہی رہے گا اس سے نہ کم نہ زیادہ۔ اس پوری ایک صدی میں ان دونوں میں سے کسی نے بھی ہمیں اپنے“ حقیقی قربت ” سے ہمکنار ہونے نہیں دیا اورستم بالائے ستم یہ کہ انہی کے مفادات اور کھینچی گئی نفرت کی لکیریں ہمیں خود آپس میں بھی ایک دوسرے سے ملنے نہیں دے رہیں نہ داخلی لحاظ سے معاشرتی سطح پر، نہ خارجی سطح پر مسلمان ہمسائیوں کے ساتھ مذہبی لحاظ سے اور نہ ہی غیر مسلم ہمسائیوں کے ساتھ شریف انسانوں کے طور پر!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).