مریم نواز کی لاٹری نکل آئی


ملک کی ایک بہت بڑی جماعت میں اس طرح ایکدم سے ابھر آنا اور چھا جانا ایک بہت بڑی لاٹری ہی تو ہے۔ مگر لاٹری نکلنے کے لئے پہلے لاٹری خریدنی پڑتی ہے اور یہ لاٹری خریدنے میں تحریک انصاف نے مریم کی مدد کی۔

ملک میں مسلم لیگ کے لئے ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں کہ مریم نواز کو ان کرائیسز میں ابھر کر آنے کا موقعہ ملا اور ایک زیرک سیاسی ورکر کی طرح انھوں نے موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے کہ بڑے بڑے سینئر لیڈران کو اپنی لیڈر ماننے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے بلکل صحیح کہا ہے کہ، مریم مسلم لیگ کو کونے سے باہر لے کر آئی ہے۔ سیاست میں خاموش رہنے سے بہتر ہے فیصلے کرنا اور مریم نے کافی فیصلے کیے ہیں۔ ہاں غلط یا صحیح یہ جدا بحث۔ فیصلے غلط بھی ہو جاتے ہیں، پھر ان کو ٹھیک کرنا بھی لیڈر کی ذمے داری ہوتی ہے۔

بحرحال مسلم لیگ نواز اور بل الخصوص میاں فیملی کے سامنے درپیش مشکل حالات نے مریم نواز کو سیاست میں ایک ایسی لیڈر کی طرح ابھارا ہے کہ مسلم لیگ کے بڑے بڑے لیڈر ان سے پیچھے کھڑے ہوتے ہوئے کم تری محسوس نہیں کرتے۔

سیاست میں کسی نئے لیڈر کی لانچنگ اگر مشکل حالات، مقدمات، جیل اور تکلیف والے وقت میں ہو اور وہ اس مشکل وقت پر ثابت قدم رہے تو کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔ بی نظیر بھٹو صاحبہ کے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا۔ ورنہ بھٹو صاحب کے بیٹے تو مرتضٰی اور شاھنواز تھے۔ ملکی سیاست میں ماضی قریب میں دو بڑے سیاسی خاندانوں نے اپنے اپنے جاں نشیں متعارف کروائے ہیں۔ مگر بلاول بھٹو کی لانچنگ اور مریم نواز کی لانچنگ میں حالات کا کافی فرق ہے۔

بلاول بھٹو کو تقریر لکھ کر دی جاتی ہے۔ جب کبھی ان کو بنا لکھے مائیک پر بولنا ہوتا ہے تو یہ ان کے مشیرِ تقریر کے لئے پریشان کن وقت ہوتا ہے کہ کہیں کوئی غلط جملہ نہ بول دیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے بلاول جب لکھ کردی گئی تقریر کے بغیر بولتے ہیں تو ان کا لہجہ انتہائی عاجزانہ، دوستانہ اور مٹھاس والا ہوتا ہے۔

بلاول کے بر عکس مریم مائیک پر خود بولتی ہیں، تھوڑا بولتی ہیں، اعتماد کے ساتھ بولتی ہیں، مضبوط بولتی ہیں اور بہادری سے بولتی ہیں۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو یا ان کی پارٹیوں پر الزامات میں بھی تھوڑا فرق ہے۔ مریم نواز اور ان کے خاندان پر اوپر لیول کی کرپشن، منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں، ساتھ ہی پنجاب میں کافی کچھ ڈلیور کرنے کا کریڈٹ ان کے کھاتے میں ہے۔

بلاول کے ساتھ، ان کی حکومت کی طرف سے اوپر لیول کی کرپشن کے ساتھ نچلی سطح پر انتہائی کرپشن اور بیڈ گورنس کے الزامات جُڑے ہوئے ہیں۔ جس کا اظہار پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اعتزاز احسن نے لاھور کے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی امیدوار کی ضمانت ضبط ہونے پر کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ میں کارکردگی دوسرے صوبوں میں ہماری ہر شکست کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔

بہرحال ملک کے سیاسی حالات آخر لے دی کر۔ مقدمات حتی کہ جیل تک کے بعد سدھر ہی جائیں گے۔ جس کو کہتے ہیں بُرا وقت گزر ہی جائے گا۔ پاکستان کی سیاست میں مرنے مارنے والے معاملات اب نہیں رہے۔ زیادہ سے زیادہ، جیل، نا اہلی، جائداد کی ضبطی، وہ بھی تب جب بات انتہا تک پہنچے۔ اس کے بعد قیادت اور اقتدار۔

مریم نواز کو اب ایک لیڈر کی طرح سیاست کرنی ہے اور ساتھ ہی یہ فیصلا بھی کرنا ہے کہ ان کو پنجاب کی لیڈر بننا ہے یا پاکستان کی۔ مسلم لیگ کو سندھ میں کافی پذیرائی ملی تھی۔ نواز شریف پہلے پنجابی لیڈر تھے جن کو سندھ میں پذیرائی ملی تھی۔ مگر اقتدار میں آنے کے بعد جس طرح انہوں نے سندھ مسلم لیگ کو بے یارو مددگار چھوڑا اس نے سندھ میں مسلم لیگ کی جڑیں اکھاڑ دیں۔

قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر الہی بخش سومرو، چار سابق وزیر اعلیٰ لیاقت جتوئی، غوث علی شاہ، ممتاز بھٹو، ڈاکٹر ارباب رحیم ، مورو کے جتوئی، ٹھٹہ کے سید، پیرصاحب پگارا سے اتحاد، جلال محمود شاہ کے ساتھ معاہدہ سب نواز شریف کے ساتھ تھے۔ مگر اقتدار میں آنے کے بعد میاں صاحب نے ان کی طرف مڑ کر بھی نھیں دیکھا۔

بظاہر اس کی یہ وجہ بتائی جاتی ہے کہ یہ سب لوگ الیکشن ہار گئے تھے۔ یہ بات صحیح ہے کہ یہ لوگ الیکشن ہار گئے تھے مگر انہوں نے مقابلہ خوب کیا تھا۔ الیکشن پیپلز پارٹی کی حامی نگراں حکومت میں ہونے کے باوجود ان سب نے لاکھوں ووٹ لئے تھے۔

مگر سندھ کے ان لیڈروں کا کہنا ہے کہ میاں صاحب نے زرداری سے کیے گئے معاہدے کے تحت کہ ”پیپلز پارٹی پنجاب میں سرگرم نہ ہو ہم سندھ میں کچھ نھیں کریں گے“ کے لئے ان سب کا سیاسی مستقبل تاریک کردیا۔

بحرحال اب مریم نواز کہ نئیں صف بندی کرنی ہو گی اور ملکی لیول کی سیاست کرنی ہے تو پیپلز پارٹی کے سیاسی جوڑ توڑ والے ہتھکنڈوں کے ساتھ کوئی لین دین رکھنے کے بجائے صاف اور اپنے ساتھ کھڑے ہونے والے ساتھیوں کو لے کر چلنے کی سیاست کرنی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).