‘بھاگ بھری‘ کا ساون آئے، ساون جائے


صفدر نوید زیدی

فکشن کے اب تک کے مطالعے کے بعدہ میں ایک سامنے کی بات یہ سمجھ میں آئی ہے کہ فنی اعتبار سے وہ کہانی مضبوط ہوتی ہے جو خود کو پڑھوانے کی مکمل اہلیت رکھتی ہو۔ اگر لذیذ کھانا میز پر لگنے کے بعد صرف ایک مزید صفحہ پڑھنے کی خواہش میں ٹھنڈا ہو جائے یا کلاس روم سے آپ اس لیے باہر نکالے جائیں کہ تنقید کے لیکچر میں پیچھے بیٹھے چپکے چپکے ‘گرگِ شب‘ یا ‘پیار کا پہلا شہر‘ پڑھ رہے ہوں تو سمجھ لیجیے کہ اس کہانی میں کچھ ایسا ضرور ہے جو آپ کو مسحور کیے ہوئے ہے۔ جس کہانی کا سحر نہ ٹوٹے، آپ کا دھیان بار بار کسی اور طرف نہ جائے یا پڑھتے ہوئے آپ کو روکے مت وہ یقیناً فنی اعتبار سے مضبوط کہانی ہوگی۔ ‘بھاگ بھری‘ نے مجھے کئی بار روکا۔ بہت سے کردار چونکہ اپنے ناموں کے تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ حقیقی کردار ہیں سو جب بھی ان کا ذکر آیا تو میں اپنے ذہن کو ان کی حقیقی زندگیوں کے کارہائے خاص کی طرف متوجہ ہونے سے روک نہیں پایا۔

مثال کے طور پر قاری سفیان کے کردار کو لیجیے جسے عامر حسینی صاحب نے اپنے تبصرے میں لال مسجد کے بانی مولوی عبداللہ کے چھوٹے بیٹے غازی عبد الرشید کا کردار بتایا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ ناول کا مرکزی کردار [بھاگ بھری کا بیٹا] ساون عرف خالد اپنے گاؤں گوٹھ نور محمد کے وڈیرے کے ظلم سے بھاگ کر جہاں پہنچتا ہے وہ راجن پور کا کوئی مدرسہ ہے اور اس کے مہتمم قاری سفیان ہیں جو اسے اپنی پناہ میں لے لیتے ہیں۔ اب چونکہ ایوب خان کے دور میں اسلام آباد میں بننے والی لال مسجد کے پہلے خطیب مولوی غازی عبداللہ اوران کے بیٹوں غازی عبدالعزیز او ر غازی عبدالرشید کا تعلق بنیادی طور پر راجن پور سے ہی ہے بلکہ غازی عبدالعزیز کی نگرانی میں توغالباً اب تک ایک مدرسہ راجن پور میں چل رہا ہے اس لیے ممکن ہے عامر حسینی صاحب نے قاری سفیان کے کردار میں لال مسجد والے غازی عبدالرشید کو دیکھا ہو۔ میں نے جب تک اس ناول میں یہ پڑھا تھا کہ ساون عرف خالد گھر سے بھاگ کر ایک مدرسے میں پہنچ گیا ہے اورمدرسے کا مقام یعنی راجن پور واضح نہیں ہوا تھا تب تک یہ سمجھتا رہا کہ وہ ضرور کراچی پہنچا اور ناول نگار کراچی کے مشہور مدرسے جامعہ علومِ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کا نقشہ کھینچ رہے ہیں۔ جتنا بڑا مدرسہ اور جیسا اس کا نظم و نسق دکھایا گیا ہے وہ ضرور کسی بڑے شہر میں ہی واقع ہو سکتا ہے۔ اِسی طرح ناول میں دکھائے گئے مدرسے کے مہتمم قاری سفیان پر مجھے حرکت المجاہدین کے بانی قاری سیف اللہ اختر کا شائبہ گزرنے لگا۔ قاری سفیان پر قاری سیف اللہ اختر کا شائبہ گزرنے کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ سفیان اور سیف اللہ اسی طرح ملتے جلتے نام ہیں جس طرح ناول میں دکھائے گئے وزیرِ داخلہ وزیراللہ خان جابر کے کردار میں دراصل نصیر اللہ خان بابر اور ملّا عمیر کے کردار میں دراصل طالبان کے پہلے امیر ملا عمر کو پیش کیا گیا ہے۔ بہر کیف کرداروں کے ناموں کی تشکیک میں ہی کئی دن کے لیے کہانی مجھ سے دورہو گئی اور کالعدم تنظیموں کے مختلف راہنماؤں کے حالاتِ زندگی جاننے کی جستجو نے گھیر لیا۔ اس سے پہلے کہ میں ‘بھاگ بھری‘ کے صفحہ نمبر190 کے اس مکالمے تک پہنچتا کہ جس میں ساون عرف خالد وڈیرے حیدر شاہ سے کہتا ہے کہ ‘میں ایک ہفتے کی مہلت دیتا ہوں میری ماں مرکزی دارالعلوم راجن پور میں پہنچ جانی چاہیے‘، میں یہی سمجھتا رہا کہ جامعہ علومِ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مناظر ہی پیش کیے جا رہے ہیں کیونکہ مجاہدین کی بہت سی تحریکوں اور تنظیموں کے لیڈران اس مدرسے کے سابقہ طالب علم رہے ہیں۔ بہر صورت میں ابھی بھی عامر حسینی کی اس بات سے اتفاق کرنے سے قاصر ہوں کہ صفدر زیدی نے ‘بھاگ بھری‘ میں جس مدرسے کا نقشہ کھینچا ہے وہ لال مسجد ہے کیونکہ ساون اپنے گاؤں سے کپاس کے بوروں سے لدے ہوئے جس ٹرک میں چھپ کر بھاگتا ہے وہ گوٹھ نور محمد سے راجن پور کی غلہ منڈی میں تو آسکتا ہے لیکن اسلام آباد نہیں جا سکتا۔ اسلام آباد کپاس کے بوروں کا نہیں البتہ کپاس کے بڑے بڑے کاشتکاروں کا طلب گار ضرور ہو سکتا ہے اور ان کاشتکاروں کے ساتھ ہی کسی چھوٹے موٹے مزارع کو بھی اگر راج دھانی دیکھنے کا موقع مل جائے تو یہ تعجب کی بات نہیں۔

کرداروں اور مقامات کے ناموں سے پیدا ہونے والے الجھاؤ سے نکلیں تو چند ایک اور چھوٹی چھوٹی رکاوٹیں اس ناول کی فنی پختگی پر سوالیہ نشان بنتی نظر آتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ بھاگ بھری اورساون سرائیکی خطے سے تعلق رکھنے والے کردار ہیں، ان کا گاؤں گوٹھ نور محمد بھی سرائیکی وسیب میں واقع ہے لیکن نہ تو اس گاؤں کے کسی منظر سے سرائیکی کلچر کی خوشبو آتی ہے اورنہ ہی بھاگ بھری، ساون یا ان پر ظلم ڈھانے والے وڈیرے حیدر شاہ میں سے کسی کی گفتگو سے سرائیکیت جھلکتی ہے۔ بے شک ناول نگار کا تعلق کراچی سے ہے اور ان کی مادری زبان اردو ہے لیکن وہ جس خطے کے کردار تخلیق کر رہے تھے وہاں کی زبان کا کچھ ذائقہ ضرور مکالموں میں اتارنا چاہیے تھا۔ ایسے میں ہمیں شوکت صدیقی ایسے اہلِ زبان یاد آتے ہیں جنھوں نے‘جانگلوس ‘ میں کرداروں کی مقامی زبان اور ثقافتی رنگ ڈھنگ کو مکمل طور پر ملحوظِ خاطر رکھا۔ صفدر زیدی پہاڑوں کے درمیان کھجوروں کا باغ اگائیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن ان کو اندازہ ہونا چاہیے کہ ہمارے دیہاتی میزبان اپنے مہمانوں کو کھانے کے بعد تو دودھ پیش کر دیتے ہیں لیکن پھر دودھ کے فوراً بعد ہی لسی پیش نہیں کرتے جیسے ناول میں اللہ وسایا بھاگ بھری اور اس کے بیٹے ساون کو پیش کرتا ہے۔ اس پہلو سے قطع نظر ‘بھاگ بھری‘ کے کچھ مکالموں میں اَن پڑھ کرداروں کی ذہنی اپج بھی اچانک بلند ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ساون اور اس کے سسر اللہ وسایا کے درمیان، خالد اور اس کی ماں بھاگ بھری کے درمیان، کمانڈر معاویہ اور بھاگ بھری کے درمیان اور صوبیدار کھڑک سنگھ اور بھاگ بھری کے درمیان چند مکالمے دیکھے جا سکتے ہیں۔

ہمیں صفدر زیدی کی نیت پر کوئی شک نہیں۔ اندازہ کریں کہ یہ ناول انھوں نے اس قدر ڈوب کر لکھا ہے کہ ایک جگہ مرکزی کردار ‘ساون ‘ کو ‘راج ‘ لکھ گئے ہیں جو دراصل ان کے اس سے پچھلے ناول‘چینی جو میٹھی نہ تھی ‘ کا مرکزی کردار ہے۔ چلیے! یہ توہوجاتا ہے۔ بڑے بڑے تخلیق کاروں سے بھی ہوتا ہے۔ ہمارے ایسے معصوم لوگ بھی اکثر اپنی زندگی کے مختلف نسوانی کرداروں کے نام گڈ مڈ کر جاتے ہیں۔ آخر کو وہ بھی انسان ہیں۔

 وہ پھر سے میرے سامنے کھڑا ہے۔

‘یار تمہیں شاید اندازہ نہیں کہ اس ناول کی اپنے تئیں جو خامیاں تم گنوا رہے ہیں ان کو ناول کی جدید تنقید کوئی گھاس نہیں ڈالتی۔۔۔ تم میرا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ ‘ میرا ہم زاد ناراض ہوتے ہوئے کہتا ہے۔

‘تمہیں اس ناول کے کرداروں سے کیا کنفیوژن ہوئی۔۔۔؟ اس کی فضا میں فطری پن کتنا ہے۔۔۔؟ یہ باتیں ثانوی ہیں۔ اور تم نے وہ جو مقامی ثقافت کی جھلک نظر نہ آنے والی بات کی ہے تو کیا مجھے یہ بتانا پسند کرو گے کہ تم بھی تو سرائیکی وسیب میں ہی رہتے ہو۔ تمہارے سرائیکی دوستوں کی زندگیوں میں کتنی سرائیکیت موجود ہے؟ ‘

‘دیکھو۔۔۔ میرے ساتھ پرسنل مت ہو تم۔ ‘

‘حضور۔۔۔ بات پرسنل ہونے کی نہیں ہے۔ تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ مقامی ثقافت کی جھلک کا تعلق اب انسانوں سے کم ہو کر ان کی محرومیوں اورضرورتوں سے زیادہ جڑ گیا ہے اور یہ صرف یہاں کا نہیں بلکہ ہر جگہ کی ثقافت کا حال ہے۔ دوسری بات وہ جو تم کہا ہے کہ کرداروں کے مکالمے جاندار نہیں تو یار تم نجانے کس دنیا میں جی رہے ہیں؟ مکالمے کیسے ہیں۔۔۔؟ اسلوب کیسا ہے۔۔۔؟ منظر نگاری کیسی ہے۔۔۔؟ پلاٹ کیسا ہے۔۔۔؟ مرقعے کیسے بنائے گئے ہیں۔۔۔؟ جزئیات نگاری کتنی ہے۔۔۔؟ اردو کی روایتی تنقید میں یہ سب پڑھ پڑھ اور سن سن کر میرے تو کان پک چکے ہیں۔ اب یہ نہیں سن سکتا۔ اگرتمہارے پاس یہی سب کچھ ہے تو ٹھیک ہے۔۔۔ صفدر زیدی کو کسی اچھی جگہ دعوت دو، اس کی پسند کےپرانز (Prawns) آرڈر کرو اور‘بھاگ بھری ‘ کے اِن سب پہلوؤں پر جتنی چاہے باتیں کرو۔ میں چلتا ہوں۔۔۔ مجھے تمہاری اس کلاس روم لیکچر ٹائپ گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ‘

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

خاور نوازش

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

خاور نوازش

ڈاکٹر خاور نوازش بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ اُردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ اُردو اور ہندی تنازع کی سیاسی، سماجی اور لسانی جہات پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ اُن کے پہلی کتاب‘ مشاہیرِ ادب: خارزارِ سیاست میں’ 2012ء میں مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد سے شائع ہوئی۔ ‘ادب زندگی اور سیاست: نظری مباحث’ کے عنوان سے اُن کی دوسری کتاب مثال پبلشرز فیصل آباد نےشائع کی۔ اُردو کی ادبی تحقیق و تنقید کے ساتھ ساتھ عصری سیاست اور سماجی موضوعات پر بھی لکھتے ہیں۔ اُن سے اس میل ایڈریس پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔[khawarnawazish@bzu.edu.pk]

khawar-nawazish has 5 posts and counting.See all posts by khawar-nawazish