ننھے پھول مزدوری کرنے پرمجبور


راہ چلتے اکثر ایسے بچوں پر نظر پڑتی ہے کہ جن کے ہاتھوں میں قلم ہونا چاہیے تھا آج اُن کے ہاتھوں میں اوزار دیکھائی دیتے ہیں،جن بچوں کے ہاتھوں میں کھلونے ہونے چاہیے تھے آج وہ حالات سے مجبور ہو کر مزدوری کرتے دیکھائی دیتے ہیں ۔۔پاکستان میں بچوں سے مزدوری لینے کا رحجان بڑھتا جا رہا ہے۔۔ایک اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت مزدور بچوں کی تعداد ایک کڑور کے قریب ہے جو عالمی سطح پر آبادی کے تناسب کے لحاظ سے ایک خطرناک اشارہ ہے۔۔چھوٹے چھوٹے بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا جاتا ہے۔۔اصل میں یہ چھوٹے ہی اپنے گھر کا سربراہ ہوتے ہیں۔۔۔آج کے دور میں امیر، امیر تر ہوتا جا رہا ہے اور غریب ،غریب تر۔۔بس اسٹاپ ہو یا کوئی دکان ،ہوٹل وغیرہ ہر جگہ یہ ننھے ننھے پھول دیکھائی دیں گے۔غریب گھرانوں میں غربت سے تنگ آکر چھوٹے چھوٹے بچوں کو مزدوری پر لگا دیا جاتا ہے بچپن سے ہی بچے دوسروں کے حساب سے زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔۔۔یقینا پاکستان کا مستقبل اس وقت تک محفوظ ہاتھوں میں نہیں ہے جب تک آپ کو یہ چھوٹے چھوٹے ننھے پھول مزدوری کرتے دکھائی دیں گے۔۔۔

ایک دن ایسے ہی ایک ننھے پھول سے ملاقات ہوئی جب میں بس اسٹاپ پر اپنی بس کا انتظار کر رہی تھی۔۔بچے کا نام ایان اور عمر بارہ سال تھی جو روز صبح آٹھ بجے گھر سے نکلتا،ہاتھوں میں ٹیشو کا ڈبہ اور پین پکڑے بس اسٹاپ پر آجاتا کھبی ایک بس پر چڑتا توکھبی دوسری پر۔۔۔کبھی کس کے پاس جاتا اور منتیں کرتا کہ کچھ خرید لوتو کبھی تھک ہار کر وہیں بس اسٹاپ پر بیٹھ جاتا آنکھوں میں ہزارہا خواب سجائے ایان کا کہنا تھا کہ وہ چھ بہن بھائی ہیں، والد بیمار ہیں اور وہ بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہے بڑا بھائی معذور ہے اور گھر چلانے کی ذمہ داری اُسی پرہے۔۔۔ سو دوسو روپے ایک دن کا کما لیتے ہیں جو ایک وقت کی روٹی کے لیے کافی ہوتا ہے پر کھبی کبھار یہ سو دو سو روپے بھی نہیں ملتے اور اُس دن بھوکا پیٹ ہی سونا پڑتا ہے۔۔حالات سے کھبی اتنا تنگ آجاتے ہیں کہ دل کرتا ہے کہ بھوکے رہ کر ہی مر جائیں شاید مرنے کے بعد ہی کوئی سکون نصیب ہو۔

اُس بچے کی دُکھ بھری داستان اتنی لمبی تھی کہ دل کر رہا تھا سب کچھ بیٹھ کے سنتی رہوں شاید اُس کے دل کا بوجھ کم ہو سکے لیکن کچھ وقت بعد بس آئی اور میں اُسے اللہ حافظ کہہ کر اپنی منزل کی جانب رواں ہوگئی۔۔بچپن میں ہی احساسات ،خواہشات،احساس خودمختاری اور ذہنی سکون اور شعور سب تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔۔ اصل میں یہ بچے اپنے گھروں میں لاچار،بیمار،ضعیف والدین یا پھر بہن بھائیوں کی کفالت کرتے ہیں اگر دیکھا جائے تو برطانیہ سمیت پورے یورپ ممالک میں یہ قانون رائج ہوتا ہے کہ مستحق طالبعلموں کو ہفتہ وار حکومت وظیفہ دیتی ہے ایسے بچوں کو تعلیم دلوانے کے لیے حکومت کئی اقدام اُٹھاتی ہے۔۔لیکن پاکستان میں بچوں سے مزدوری لینے کا رحجان دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے جس کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی جاتی۔۔

بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت اور صحت مندانہ ماحول کی فراہمی ریاست کا پہلا فریضہ ہے۔۔ لیکن ریاست کے ساتھ ساتھ یہ فرض مجھ سمیت آپ پر بھی عائد ہوتا کہ اگر ہماری اتنی استطاعت ہے کہ ہم فضول خرچیوں میں دن میں ہزار دو ہزار اُڑا دیتے ہیں تو اس سے اچھا ہے کہ ہم ایسے بچوں کے لیے کچھ کر دیں اُن کی تعلیم کے اخراجات اُٹھا لیں تاکہ وہ پڑھ لکھ کراپنے مستقبل کو روشن کر سکیں۔۔ یقینا اس مسلۓ کو حل کرنے کے لیے اور اسے جڑ سے ختم کرنے کے لیے حکومت کو سخت قوانین بنانے ہوں گے، بچوں سے مزدوری لینے کے خاتمے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہو گی اور عملی اقدامات کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ ننھے پھول مرجھانے سے بچ جائیں۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).