کیا پاکستان میں تعلیمی انقلاب ممکن ہے؟


اس بات پر تقریباً سب کا اتفاق ہے کہ پاکستان میں موجود تعلیمی نظام انحطاط کا شکار ہے۔ یہ صورت حال ویسے تو ہماری زندگیوں میں ہمیشہ سے موجود رہی ہے، لیکن اس وقت تو حالات انتہائی دگرگوں نظر آتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ پاکستان میں ایک تعلیمی انقلاب لا یا جا سکے، ایسا انقلاب جس میں ملک کے ہر ایک بچے کو ایسی تعلیم سے آراستہ کیا جائے جو اس وقت صرف بالائی طبقات سے وابستہ بچوں کو میسر ہے؟

کیا یہ انقلاب دو تین سال کی مختصر مدت میں لانا ممکن ہو گا؟ مجھے یوں لگتا ہے کہ تعلیمی دنیا میں ہم اتنے پیچھے رہ گئے ہیں کہ مزید وقت ضائع کرنے کی گنجائش نہیں۔

کیا یہ ممکن ہے کہ تعلیمی انقلاب ان مالی حالات میں لانا ممکن ہو جو اس وقت ملک کو درپیش ہیں؟

بظاہر تو یہ ناممکن نظر آتا ہے، لیکن اس مضمون کے ذریعے یہ واضح کرنا ہے، کہ ایسا یقینی طور پر ممکن ہے بشرطیکہ ملک اور معاشرہ اس کے لیے یکسو ہوں۔

جیسا کہ میں نے اپنے پچھلے مضامین میں ذکر کیا، اسلامی دنیا میں تعلیمی مسائل کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ ان کا حل تلاش کر نے کے لیے تعلیمی نظام کی بنیادوں کو کھنگالنا ہو گا اور ان عوامل کا ادراک کرنا ہو گا جن کی بدولت اسلامی دنیا پچھلی کئی صدیوں سے علمی میدان میں اپنا حصہ ڈالنے میں ناکام رہی ہے۔ اس موضوع پر اگلے مضمون میں بات ہو گی۔

یہاں میرا زور ان اقدامات پر ہو گا جو فوری طور پر ملکی وسائل کی بنیاد پر لینا ممکن ہے اور جن سے ہمارے اور ترقی یافتہ ممالک کے مابین فرق میں واضح تبدیلی لائی جا سکے۔ ان تجاویز کا محور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا انقلاب ہے جو ہماری زندگی میں وقوع ہونے والا سب سے اہم واقعہ ہے۔ یہ انقلاب ہمارے آنکھوں کے سامنے دیکھتے دیکھتے رُونما ہُوا۔

انٹرنیٹ سے میرا پہلا تعارف 1992 ء میں میرے ایک ساتھی طبیعات دان کے توسط سے ہُوا جو پولینڈ کے رہنے والے تھے اور جن سے امریکہ میں ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مجھے پہلی دفعہ دکھایا کہ کس طرح ایک بٹن دبانے سے ایک پورا تحقیقی مقالہ، برقی رو کے ذریعے پلک جھپکنے سے پہلے، امریکہ سے پولینڈ پہنچ گیا۔ اُس لمحے ملنے والی اپنی خوشگوار حیرت مجھے ابھی تک یاد ہے۔

اس کے دو تین سال بعد ہم نے دیکھا کہ کمپیوٹر معلومات کی فراہمی، تیز ترین رابطہ کرنے، معلومات کا تبادلہ کرنے اور علم حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ بننے لگا تھا۔ کمپیوٹر نے علم کے حصول میں ایک طرح کی جمہوریت بھی قائم کر دی۔ اب کوئی بھی انسان کہیں بھی بیٹھ کر انٹرنیٹ سے وہ تمام معلومات حاصل کر سکتا تھا، جو دنیا میں کسی اور کو میسر تھیں۔ یہ ایک فرحت آمیز احساس تھا۔ بالآخر کہیں تو جمہوریت اصل معنی میں نظر آئی۔

تیسری دنیا کے ایک پسماندہ دیہاتی، جس کی انٹرنیٹ تک رسائی ہو، وہ انٹرنیٹ کے ذریعے تقریباً وہی معلومات حاصل کر سکتا ہے، جو کسی ترقی یافتہ ملک کا باشندہ ایک اعلی یونیورسٹی میں بیٹھ کر کر سکتا ہے۔ یہ ایک دیرینہ انسانی خواب کی تعبیر بھی تھی اور ایک مثالی معاشرے کے قیام کی نوید بھی۔ اب پاکستان جیسے تیسری دنیا کے باشندے کی ہر قسم کی علمی معلومات تک رسائی کے ذرائع کے حوالے سے شکایات کے جواز کا خاتمہ ہو گیا۔

اب انٹرنیٹ زندگی کے کم و بیش تمام شعبوں میں اپنی افادیت ثابت کرنے لگا ہے۔ ایک کاروباری شخص یہاں بیٹھ کر دنیا کے دوسرے کونے میں بیٹھے شخص کے ساتھ براہ راست کاروبار کر سکتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بیٹھے ایک طالب علم کے لئے یہ مواقع پیدا ہو گئے کہ وہ دنیا کی اعلٰی ترین درسگاہوں میں دیے جانے والے لیکچر نہ صرف دیکھ سکے بلکہ آن لائن کورسز سے استفادہ بھی کر سکے۔ اب ہم اپنی آرا اور خیالات دنیا کے ہر حصے میں زیادہ آسانی اور سرعت کے ساتھ بھیج سکتے ہیں۔

اس حیرت انگیز دریافت سے ایسے امکانات پیدا ہو گئے اور امید کی جانے لگی کہ پہلی دنیا کے جدید معاشروں اور تیسری دنیا کے پسماندہ معاشروں کے درمیان علمی خلیج بہت کم وقت میں بھر جائے گی۔ اور یہ توقع بھی پیدا ہوئی کہ انسانوں کے مابین روابط تیز اور سہل ہونے سے مختلف ممالک، مذاہب اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان ایک صحت مندانہ مکالمہ ممکن ہو گا۔ جس سے، باہمی احترام اور بھائی چارے کی فضا قائم ہوگی اور جملہ مسائل پُر امن بات چیت کے ذریعے طے پائیں گے۔ بین الاقوامی سرحدوں کی حیثیت علامتی ہوگی اور یہ لکیریں ہماری قربت اور ایک دوسرے کو سمجھنے کے راستے میں حائل نہیں ہوں گی ۔

لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ایسا نہ ہوسکا۔ بلکہ حالات بد سے بد تر ہوتے گئے۔ علمی خلیج کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی گئی۔ ایک نسل گُزر جانے کے باوجود تعلیم کا نظام مُنہ کے بل گر چُکا ہے۔ مذہبی اور فرقہ ورانہ تعصب اپنے عروج پر ہے۔ معاشی عدمِ توازن بڑھتا جا رہا ہے اور ہمارا تعلیمی نظام، اہم مواقع گنوا دینے کے باعث، ناکامیوں کی ایک داستان کے سوا کچھ نہیں۔ معلومات کے ذرائع ارزاں، عام اور تیز ہونے کے باوجود تعلیمی خلیج کا بڑھ جانا ایک حیرانی کی بات ہے جس پر الگ سے تحقیق اور تجزیے کی ضرورت ہے۔ یہ آج کا سب سے ضروری سوال ہے جس کی اہمیت سے بہت سے لوگ واقف نہیں۔

تعلیمی شعبے سے وابستہ ہونے کی وجہ سے میرے لیے یہ سوال اہم رہا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نظام کو کس طرح بہتر بنایا جائے۔ ایسا کیونکر ممکن ہو کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب کی بدولت ہر سطح کے طلباء کا نہ صرف علمی معیار بلند ہو بلکہ ایک سائنسی ماحول بنے جو رفتہ رفتہ پاکستان میں ایک سائنسی کلچر کے فروغ کا باعث بنے۔

اس مضمون میں میں کچھ ایسی تجاویز پر بات کروں گا جن پر عملدرآمد سے پاکستانی نوجوان محدود وسائل کے ساتھ بہترین تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر اس سے پہلے کہ میں یہ تجاویز پیش کروں، مناسب ہو گا کہ پہلے پاکستان میں تعلیمی نظام کے مسائل پر روشنی ڈالی جائے۔

· سب سے پہلا مسئلہ پاکستان میں تعلیمی سہولتوں کا فقدان ہے۔ سکولوں اور کالجوں کی اتنی کمی ہے کہ سکول اور طلباء کی تعداد کا تناسب خطر ناک حد تک نیچے ہے۔ لہٰذا سب سے ضروری اور سب سے اہم کام تو یہ ہے کہ پہلے تو مزید سکول اور کالج بنائے جائیں۔ جہاں کم سے کم پہلی جماعت سے میٹرک تک، تعلیم مُفت اور لازمی ہو۔ لیکن اس کے لیے بہت بڑے وسائل درکار ہیں۔

· دوسرا مسئلہ اساتذہ کا معیار ہے۔ عمارات میسر آ جانے کے باوجود اگر استاد قابل نہیں تو پھر بھی تعلیم کا معیار بلند نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں ایک بڑے فیصلے کی ضرورت ہے۔ پہلی جماعت سے لے کر گریجویشن تک طلباء کو پڑھانے کے لئے تعلیم یافتہ، ہنر مند اور قابل اساتذہ کی ضرورت ہے۔ کُل آبادی کے لئے اس معاشرے سے پہلی جماعت سے گریجویشن تک کے طلباء کے لئے، اتنی بڑی تعداد میں ایک مختصر مدت میں قابل اور تجربہ کار اساتذہ پیدا کرنا، جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔

· اگلا مسئلہ تعلیمی نصاب کا ہے۔ ہمیں تمام جماعتوں کے لئے تمام مضامین پڑھانے کے لئے اعلٰی درجے کا نصاب چاہیے۔ اس وقت نصابی کُتب ہر صوبے کے متعلقہ ٹیکسٹ بُک بورڈ کی زیرِ نگرانی لکھی جا رہی ہیں۔ عمومی طور پر یہ کُتب جو عام گورنمنٹ سکول کے طلباء کو میسر ہیں، اعلٰی معیار کی نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کُتب ”او۔ لیول“ اور ”اے۔ لیول“ میں پڑھائی جانے والی کُتب کے مقابلے میں نہایت کم تر سطح پر ہیں۔ یہ ایک اور وجہ ہے جس سے ایک عام آدمی کے گورنمنٹ سکول میں پڑھنے والے اور اشرافیہ اور فیصلہ سازوں کے مخصوص اور مہنگے سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی علمی استعداد میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اور اس سے ایک معاشرتی تفاوت بھی پیدا ہو چکی ہے۔

اگلا سوال یہ ہے کہ ہماری تعلیمی پالیسی کے مقاصد کیا ہوں؟

سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ تعلیم کو ہر فرد کا بنیادی حق تسلیم کیا جائے۔ اس وقت پاکستان میں شرح خواندگی دنیا کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں خطرناک حد تک کم ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر بچے کو اعلی کوالٹی کی تعلیم کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ کسی بھی سیاسی مفاد سے بالاتر ایک قومی مقصد کا اعلان کیا جائے کہ جلد سے جلد، دو تین سالوں میں، یہ ٹارگٹ حاصل کیا جائے گا۔

ہماری تعلیمی پالیسی کی منزل یہ ہونی چاہیے کہ ایسے ذہن پیدا کریں جو شعور اور آزادی سے سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ہماری آنے والی نسل ایسے طلباء پر مشتمل ہو جو جدید علم سے آراستہ، تخلیقی صلاحیتوں سے مزین، فیصلہ سازی اور لیڈرشپ کی صلاحیتوں سے لبریز، کسی بھی خوشحال اور ترقی یافتہ ملک کے طلباء کے ہم پلہ ہو۔

اب اتنے بڑے بڑے مقاصد پر کام کا آغاز کہاں سے کیا جائے؟ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب سے کیسے مستفید ہُوا جائے؟ یہ کُچھ تجاویز ہیں جو یقیناً میرے علاوہ اور لوگ بھی سوچتے ہوں گے :

· ہماری تعلیمی پالیسی کا بنیادی نقطہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم پہیے کو دوبارہ سے ایجاد کرنے کی کوشش نہ کریں۔ مثال کے طور پر اوسط درجے کی نصابی کُتب بار بار لکھنے کی بجائے پہلے سے لکھی ہوئی وہ کتابیں اسکول کے نصابوں میں شامل کر لیں جو کامیاب تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ مثلاً، اشرافیہ کے لئے مختص تعلیمی ادارے جہاں پر ’او۔ لیول‘ اور ’اے۔ لیول‘ کا نصاب نافذ ہے، انھوں نے بہترین کتب اپنا رکھی ہیں۔ ان کتابوں کا معیار بین الاقوامی ہے۔ ایک گاؤں میں بیٹھا کسان کا بیٹا اس معیارِ تعلیم سے محروم کیوں رہے جو اس بچے کو حاصل ہے جو پالیسی ساز کا بچہ ہے؟ بہترین بات تو یہ ہوگی کہ ان کتابوں کے اردو اور علاقائی زبانوں میں ترجمے کیے جائیں جو ہر طالب علم کی دسترس میں ہوں۔

· اب رہا اساتذہ کا مسئلہ۔ یہاں پر انفارمیشن ٹیکنالوجی سے بہرہ مند ہوا جا سکتا ہے۔ یہاں میں دو تجاویز پیش کرتا ہوں۔ سب سے پہلے تو ایسے اساتذہ کی ٹیم تیار کی جائے، جو ہر سطح پر اپنے اپنے مضامین کے بہترین اساتذہ ہوں۔ مثال کے طور پر جماعت پنجم کو ریاضی، جماعت ہشتم کو تاریخ، انٹر میڈیٹ کو فزکس، گریجویشن کو کیمسٹری اور ماسٹرز کے طُلباء کو معاشیات پڑھا سکیں۔ بجائے اس کے کہ ہر اسکول اور کالج میں ہر مضمون کے پڑھانے کے لیے علیحدہ علیحدہ استاد ہوں، ان اساتذہ کے لیکچرز (اسباق) پورے مُلک میں ’انٹرنیٹ کی زُوم ٹیکنالوجی‘ کے ذریعے نشر اور میسر کر دیے جائیں۔

دُوسری تجویز یہ ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہُوئے بین الاقوامی سطح کے تسلیم شُدہ اساتذہ کے، ہر سطح کے ہر مضمون پر مشتمل آڈیو اور وڈیو لیکچرز تیار کیے جائیں۔ اس کے لئے دنیا کے بہترین تعلیمی منتظمین کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ یہ اسباق (لیکچرز) مخصوص ویب سائٹس پر دستیاب کر دیے جائیں۔ اچھے سکولوں میں شاید یہ طریقہ کارآمد نہ ہو کیونکہ وہاں پر تو پہلے ہی سے بہترین اساتذہ موجود ہیں۔ البتہ یہ تجاویز پاکستان میں کم سے کم اخراجات کے ساتھ ایک ایسے تعلیمی انقلاب کا باعث بن سکتے ہیں، جس کے ذریعے دُور دراز علاقوں میں موجود اُن سکولوں میں اچھی تعلیم کا انتظام ہو سکتا ہے جہاں عام طور پر یہ ممکن نہیں ہے۔ ان سکولوں میں اب استاد کا یہ کام ہو گا کہ زوم ٹیکنالوجی کے ذریعے یا انٹرنیٹ کے ذریعے لیکچرز کے دوران طلباء کو متوجہ رکھا جائے۔

· سب سے مشکل کام یہ ہے کہ کم سے کم وقت اور نہایت کم بجٹ میں تمام بچوں کے لئے سکول کیسے بنائے جائیں۔ اس کے لئے کسی نہ کسی طرح پہلے سے موجود عمارات استعمال کی جا سکتی ہیں۔ یہاں بھی کچھ تجاویز ہیں۔ پہلی بات وہی ہے جس کا نصف صدی سے پرچار ہے۔ اور وہ ہے مساجد کو تعلیم کے حصول کے لئے استعمال کرنا۔ یہ استعمال فجر کی نماز کے بعد اور ظہر کی نماز سے قبل تک ہو۔ عبادت کی جگہ کو علم کے حصول کے لئے استعمال کرنے سے بڑھ کر اور نیک کام کیا ہو گا۔ دوسری تجویز پر عمل درآمد کے لئے پورے مُلک کے خوشحال حضرات سے تعاون کی ضرورت ہے۔ تمام دیہات اور قصبات کے لوگوں سے التماس کیا جائے کہ وہ اپنے گھر کے ایک یا دو کمرے صبح سے سہ پہر تک تعلیم کے لئے مختص کر دیں۔ ان کمروں میں جدید برقی آلات ؛ کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور زوم وغیرہ کی سہولیات فراہم کی جائیں۔

یہ تو ایک ابتدائی سوچ ہے اور صرف خد و خال بیان کیے گئے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام تجاویز قابل عمل ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی سطح پران سوچوں کو عملی شکل دینے کے لیے منصوبہ سازی کی جائے۔ سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ ایسے منصوبے کو تعلیمی پالیسی کا حصہ کیسے بنایا جائے؟ ایسی غیر روایتی باتوں کی مختلف حلقوں سے مزاحمت ہونا ایک لازمی امر ہے۔ اس مضمون میں کئی دیگر مسائل کا احاطہ یہاں نہیں کیا جا سکا مثلاً امتحانات کا نظام کیسا ہو۔ ان پر سوچ بچار کی ضرورت ہے۔

مگر اہم بات یہ ہے کہ ان تجاویز پر عمل پیرا ہو کر کم خرچے سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جا سکتا ہے۔

 

ڈاکٹر سہیل زبیری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سہیل زبیری

ڈاکٹر سہیل زبیری ٹیکساس یونیورسٹی میں کوانٹم سائنس  کے Distinguished Professor ہیں اور اس ادارے میں کوانٹم آپٹکس کے شعبہ میں Munnerlyn-Heep Chair پر فائز ہیں۔

suhail-zubairy has 64 posts and counting.See all posts by suhail-zubairy

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments