جہیز کی کار اور بلیک میلر کی ایمبولنس


ایک ٹیکسی ڈرائیور اسلام آباد کی کشادہ سڑکوں پر اپنی ذات میں مگن آہستہ رفتار میں گاڑی چلا رہا تھا۔ اندر ہی اندر درجنوں خیالات اس کے ذہن میں آتے اور سگریٹ کے دھواں جیسے ہوا میں تحلیل ہو جاتے۔ سب سے زیادہ اس کی توجہ کا مرکز اس کی اکلوتی بیٹی تھی جو اپنی ماں کے ساتھ لیہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہائش پزیر تھی۔ ایک ماہ قبل اس کی ایم اے اردو میں ڈگری مکمل ہو چکی تھی اور اب آٹھ دس دنوں بعد اس کے من پسند لڑکے سے نکاح طے پا گیا تھا۔ دولہے صاحب کی چھوٹی موٹی فرمائشیں تو اس کا باپ پہلے ہی پوری کر چکا تھا لیکن ایک بڑی فرمائش ابھی تک ادھوری تھی جو اس کے لئے سر درد بنی ہوئی تھی جس کا وعدہ وہ پہلے ہی کر چکا تھا کہ نکاح والے دن گاڑی کی چابی داماد کو تھما دے گا لیکن اب یہی فکر اسے کھائے جا رہی تھی کہ گاڑی کے لیے پیسوں کا بندوبست کیسے کرے۔ ؟

گاڑی کے لیے کچھ پیسے تو اس نے دوستوں سے ادھار لے لئے باقی کچھ اس نے پہلے سے بچا رکھے تھے لیکن پھر بھی تین چار لاکھ روپے کم پڑ رہے تھے جن کا بندوبست نہ ہو پا رہا تھا اسی کشمکش میں اس نے سارا دن گزار دیا۔

اگلی صبح وہ افسردہ دل لئے کام کے لیے نکلا تو سڑک کنارے ایک خوبصورت لڑکے نے ہاتھ کے اشارہ سے گاڑی کو روکا اور اس میں بیٹھ گیا اپنی منزل پر پہنچ کر اس نے ڈرائیور کو مطلوبہ پیسے دیے اور اپنی راہ کو ہو لیا ڈرائیور نے گاڑی آگے کو بڑھا دی اور اگلے سیکٹر میں ایک فروٹ شاپ کے سامنے بریک مار کر حسبِ معمول اپنے محلہ کے ایک ضعیف آدمی کے لئے کچھ پھل خریدے جب گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کہ سامان رکھنے لگا تو اس کی نگاہ نیچے گرے ہوئے موبائل پر جا پڑی اس نے فوراً اٹھایا اور گاڑی پیچھے کو موڑ کر جہاں سواری کو اتارا تھا وہی پہنچ کر اس کی تلاش کرنے لگا مگر وہ کہیں دِکھائی نہ دیا کافی تگ دو کے بعد بلآخر اس نے موبائل کو گاڑی میں رکھا اور روانہ ہو گیا دوپہر کھانے کے وقت اس نے موبائل کو چلایا تو کیا دیکھتا ہے اس میں اُس لڑکے اور ایک خوبصورت لڑکی کی غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں جسے دیکھتے ہی وہ حیرانی کے عالم میں ڈوب گیا کافی دیر وہ تصاویر اور ویڈیوز دیکھتا رہا پھر نہ جانے کہاں سے بھٹکا ہوا خیال اس کے ذہن میں آ ٹھہرا کہ اس لڑکے کو بلیک میل کیا جائے تاکہ گاڑی کے باقی پیسے پورے کیے جا سکیں کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اور صورت اسے دکھائی نہ دے رہی تھی جو اس کی مطلوبہ ضرورت کو پوری کر سکتی۔

کافی سوچ بچار کے بعد بلآخر رات کو اُس لڑکے کو فون کر کے دھمکی دی کہ پرسوں تک مجھے چار لاکھ روپے دو ورنہ میں یہ موبائل پولیس اسٹیشن دے دوں گا وہ بیچارہ بہت خوفزدہ ہو گیا اور اگلے روز ہی چار لاکھ روپے اس کی بتائی ہوئی جگہ پر رکھ کر چلا گیا جب ڈرائیور نے دیکھا کہ آس پاس کوئی اور موجود نہیں تو اس نے وہ بیگ فوراً سے اٹھایا اور ایک سنسان سڑک پر روانہ ہو گیا راستے میں رُک کر سڑک کنارے اس نے وہ موبائل توڑ کر پھینک دیا جس میں وہ سارا غیر اخلاقی مواد تھا اور اگلے ہی روز ایک شو روم جا کر سارے پیسے دے کر دولہے کی من پسند کار بُک کروا دی جو ہفتہ بعد اس کے بتائے ہوئے پتہ پر پہنچا دی جانی تھی۔

دوسرے دن جہاں اس نے موبائل پھینکا تھا وہاں سے ایک کباڑی کا گزر ہوا تو اس کی نگاہ ٹوٹے ہوئے موبائل پر جا پڑی اس نے وہ اٹھا کر اپنے بورے میں ڈال لیا شام کو مختلف قابلِ استعمال چیزیں اس نے مارکیٹ میں بیچنا شروع کر دی جس میں وہ موبائل بھی تھا موبائل شاپ والے نے جب دیکھا کہ اس کی صرف سکرین ٹوٹی ہوئی ہے جسے باآسانی ٹھیک کر کے مہنگے داموں بیچا جا سکتا ہے تو اس نے ہنسی خوشی سات سو روپے کباڑیے کو تھما کر رخصت کر دیا۔

اگلے روز جب اس نے موبائل ٹھیک کر کے چلایا تو اس میں وہ غیر اخلاقی مواد ویسے کا ویسا موجود تھا جب دوکان دار نے غور سے ان تصاویر اور ویڈیوز کو دیکھا تو اس میں جو لڑکا تھا وہ ایک قومی وزیر کا بیٹا تھا اور وہ وزیر دوکان دار کی مخالف پارٹی سے تھا اس نے فوراً سے وہ سارا مواد سوشل میڈیا پہ پھیلا دیا جو کہ آگ کی طرح پھیلتا گیا۔

جب وہ تصاویر اور ویڈیوز اپوزیشن اور میڈیا کے ہاتھوں لگی تو ہر طرف شور مچ گیا حکومت کو مجبوراً اس وزیر کو وزارت سے ہٹانا پڑا وزیر صاحب پہ تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی بیٹھے بِٹھائے وزارت کی کُرسی چھن گئی اس نے بیٹے سے ساری تفصیلات طلب کی اور جس نمبر سے بلیک میلر کا فون آیا تھا اس کا ڈیٹا نکلوا کر ٹیکسی ڈرائیور تک رسائی حاصل کر کے اس کا قتل کروا دیا۔

وہاں گاؤں میں خوشی کا سماں تھا رات کو اُس کی بیٹی کا نکاح تھا شام کو شو روم والوں کے ساتھ ساتھ ایک ایمبولینس بھی گاؤں آ رُکی اور یوں ”جہیز“ والی کار اور ٹیکسی ڈرائیور کی لاش ان تک پہنچا دی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).