دیو گڑھ، سکندریہ، چچ اور اوچ: تجھے کس نام سے پکاروں


ازمنہ گزشتہ سے انسان بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس جنگ میں انسان کا سب سے موثر ہتھیار ماحول سے مطابقت ہے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ جس ذی روح نے ماحول سے بہتر تطبیق کی وہ باقی رہی۔ اسی طرح تعمیر اور تخریب بھی انسانی فطرت میں شامل ہے اور اس کا سلسلہ انسان کے زمین پر آنے کے بعد سے جاری ہے۔ وقت بہت سے حقائق پر پردے ڈالتا رہا اور جب کسی خطے میں جنگ ہوئی تو باقی صرف کھنڈرات بچے۔ انہی جنگ و جدل کے نتیجے میں دنیا کی بڑی بڑی تہذیبیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں اور کہیں کہیں ان کے آثار باقی رہ گئے۔

”مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے“۔ کچھ ایسی ہی صورت حال اوچ شریف کی بھی ہے۔ بہاول پور سے جنوب مغرب کی طرف 73 کلومیٹر کے فاصلے پر پانچ دریاؤں کے حسین سنگم پر واقع یہ شہر کسی زمانے میں سات بڑی آبادیوں میں تقسیم تھا۔ 36 میل لمبائی اور 24 میل چوڑائی پر محیط حدود اربعہ کی وسعتوں کے حامل اس شہر کی زوال پذیری کا آغاز اس وقت ہوا جب سن 400 عیسوی میں وسطی ایشیاء سے آنے والی ہن قوم اس پر حملہ آور ہوئی اور اس کو تباہ وبرباد کر ڈالا۔ امتدادِ زمانہ کے بے رحم ہاتھوں یہ شہر کئی بار اجڑا اور کئی بار آباد ہوا۔ اپنی قدامت اور تہذیبی خصوصیات کے سبب اس کے ڈانڈے ہڑپہ اور موہن جو ڈروسے جا ملتے ہیں۔

صدیوں پرانی تہذیب کے حامل اس شہر نے بہت سے عروج و زوال دیکھے۔ زمانے نے اس کو مختلف ادوار میں مختلف نام دیے۔ کبھی اسے سپیڈا کے نام سے پکارا گیا تو کبھی اسے اساش کہاگیا، کبھی اس کانام اوسا رہا تو کبھی دیو گڑھ، کبھی یہ سکلاندا کے نام سے مشہور ہوا تو کبھی اسے سکندریہ کہا گیا اور پھر یہ ہود بھی بنا اور چچ بھی۔ ناموں کا طویل سفر طے کرنے کے بعد بالآخر یہ شہر اوچ شریف بن گیا، اوچ کے ساتھ شریف کا لاحقہ اس کے تقدس اور احترام کی وجہ سے لگایا جاتا ہے۔

550 قبل ازمسیح میں آباد ہونے والا اوچ شہراپنی قدامت، امارت اور روحانیت کے باعث ہمیشہ سے ہی فاتحین اور علم و فضل کی بڑی شخصیات کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اپنی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت کے پیش نظر ہر دور میں علم وادب کے گیانی، سادھو اور بعدازاسلام اولیائے کرام نے اس شہر کا رخ کیا۔ جن کے اب یہاں محض تذکرے اور مقبرے ہی باقی رہ گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اوچ شہر دریائے ہاکڑاکے کنارے تعمیر اور آباد ہوا۔ اس دریا کی باقیات اب بھی نظر آتی ہیں۔ صحرائے چولستان میں تعمیر شدہ پرانے قلعے اور ان کی یادیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ کبھی یہاں دریا بہتا تھا اور خطے میں بہت زرخیزی اور خوشحالی تھی۔

برصغیر میں احیائے اسلام سے پہلے سندھ ہندو سلطنت کا حصہ تھا اور اوچ اس کے اہم شہروں میں سے ایک تھا۔ اس عرصے کے دوران علاقے میں بہت سے قلعے اور فصیلیں تعمیر ہوئیں۔ سلطان محمود غزنوی اور محمد بن قاسم کی آمد سے ہندو سلطنت تباہی سے ہمکنار ہوئی اور پھر اس کے بعد اوچ کو صحیح معنوں میں عروج اور ترقی حاصل ہوئی۔ اوچ شریف میں علوم اسلامی کی ابتدا 370 ہجری میں حضرت سیدصفی الدین گاذرونی ؒ کی آمد سے ہوئی۔ وہ پہلے صوفی بزرگ تھے جو برصغیر میں وارد ہوئے اور اوچ میں رہائش اختیار فرما کر محض سترہ سال کی عمر میں انہوں نے برصغیر کی پہلی اسلامی یونیورسٹی ”جامعہ فیروزیہ“ کی بنیاد رکھی، جس نے برصغیر میں اس وقت اسلامی تعلیم کے فروغ و ترویج کا فرض انجام دیا جب ہندوستان کی فضا مسلمانوں کے لئے پوری طرح سازگار بھی نہیں ہوئی تھی۔

سلطان ناصر الدین قباچہ کے عہد ( 607 ہجری تا 625 ہجری) میں اس ”جامعہ فیروزیہ“ کو بڑا عروج حاصل ہوا۔ مشہور ایرانی مورخ، قاضی وقت علامہ منہاج سراج جیسے جلیل القدر عالم ”جامعہ فیروزیہ“ کے صدر مدرس تھے۔ اس مدرسے میں بیک وقت اڑھائی ہزار طلبہ تعلیم حاصل کرتے تھے۔ سلطان ناصر الدین قباچہ کے دور میں اوچ کو سلطنت کے دارالحکومت کا درجہ ملا اور اس عرصہ کے دوران اوچ خوشحالی کے عروج پر پہنچا اور منگولوں کے حملوں کے باوجود اوچ نے اپنی اہمیت برقرار رکھی۔ التمش نے اوچ پر حملہ کیا اور مشہور زمانہ یونیورسٹی سمیت کئی مدرسوں اور کتب خانوں کو تباہ کر دیا۔ تباہی کے بعدجب وہ حاکم بنا تواس نے دہلی کو اپنا دارالحکومت بنادیا۔ اس کے بعد اوچ کو کبھی اپنی کھوئی حیثیت واپس نہ مل سکی اور یہاں صرف کھنڈرات اور روحانی عظمت کے آثارہی باقی رہ گئے۔

اوچ کے حالیہ نام کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ جب اس علاقے پر راجہ دیو سنگھ کی حکومت تھی تو حضرت سید جلال الدین سرخپوش نے یہ شہر اس سے حاصل کر لیا اور راجہ دیو سنگھ وہاں سے بھاگ نکلا۔ راجہ دیو سنگھ کی خوبرو لڑکی اوچاں رانی نے اسلام قبول کر لیا تو حضرت سید جلال الدین سرخپوش بخاری نے اس علاقے کا نام اس خاتون سے منسوب کرتے ہوئے اوچ رکھ دیا۔ اوچ شریف کو ہمیشہ صوفیا ء کرام اور بزرگان دین کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔

حضرت صفی الدین گاذرونی، حضرت سید جلال الدین سرخپوش بخاری، حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت، حضرت صدر الدین راجن قتال، حضرت فضل الدین لاڈلہ، حضرت جمال الدین خنداں رو، حضرت کبیر الدین حسن دریا، حضرت غوث بندگی اور حضرت بہاول حلیم جیسی عظیم ہستیاں خطہ پاک اوچ میں ہی آسودۂ خاک ہیں۔ اس علاقے میں بہت سی ایسی نوادرات اور تبرکات بھی موجود ہیں جو اس علاقے کے تقدس میں بے حد اضافے کا سبب ہیں۔

ہمایوں کے دور میں اوچ پر مرزا کامران کی حکومت تھی۔ جب مرزا کامران اور مغلوں کی سلطنت مجتمع ہوئی تو اوچ مغلیہ سلطنت کا حصہ بنا۔ مرزا کامران کے دور حکومت میں بہت سارے مقبروں اور مزارات کی تعمیر و مرمت کی گئی۔ جب بہاول پور میں عباسیہ سلطنت کی بنیاد رکھی گئی تو اوچ شریف اس نئی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ سکھوں کے دور حکومت میں اوچ پر دو مرتبہ حملے ہوئے اور شہر کو کافی نقصان پہنچا۔ 1817 ء میں آنے والے سیلاب نے اس شہر بے مثال کے قدیم آثار کو بری طرح متاثر کیا اور اپنے ساتھ بہت سی نشانیاں بہا کر لے گیا، تاہم چند ایک باقیات آج بھی معدومی سے پہلے آخری ہچکی کی صورت موجود ہیں۔

اس شہر کی تاریخی اہمیت کی بنیاد یہاں کے تین مشہور مقبرہ جات ہیں جو اپنی بوسیدگی اور خستہ حالی کے باعث کسی وقت بھی زمین بوس ہو سکتے ہیں۔ ان میں پہلا آدھ ادھورا مقبرہ حضرت بی بی جیوندی کا ہے جو حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کی پوتی اور ایک درویش خاتون تھیں۔ یہ مقبرہ پندرہویں صدی کے آخری عشرے میں خراسان کے حکمران محمد دلشاد نے بنوایا تھا۔ دوسرا مقبرہ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے استاد حضرت بہا الحلیم کا جبکہ تیسرا مقبرہ ان مقابر کے معمار استاد نوریا کا ہے جن کی خوبصورت کاریگری نے عہد گم گشتہ میں ان مقبروں کو شان وشوکت بخشی۔ یہ تینوں نادر و نایاب مقبرے آ ج اپنے درودیوار پہ حسرت کی نظر کو ترستے ہیں۔ مقبرہ بی بی جیوندی کا آدھا حصہ سیلاب کی نذر ہو گیا جبکہ باقی آدھے حصے کو محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے آہنی پائپوں کی سپورٹ دے کر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

اوچ شہر آریائی دور میں آباد ہوا، آریائی باہر سے آنے والی قوم تھی۔ خوبصورت اور سفید رنگت والی یہ نسل مقامی ہندو آبادی سے کافی ترقی یافتہ تھی۔ آریائی لوگوں کی آمد کے ساتھ ساتھ ہی اس علاقے میں ذات پات کا نظام بھی آیا جو اوچ شہر کی تعمیرات میں نمایاں ہے۔ اوچ میں آریائی لوگوں کے نقوش آج بھی موجود ہیں لیکن اس ورثہ کو بچانے والا کوئی نہیں۔ اوچ شریف کی تاریخی عمارتوں کو بچانے کے لئے اوچ مانومنٹ کمپلیکس بھی قائم کیا گیا۔ جس کا عملی کردار کہیں نظر نہیں آتا۔

1998 ء میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے ورلڈ ہیریٹیج سائٹ نے اوچ کے چار مقامات کو اپنی واچ لسٹ میں شامل کیاجبکہ فن تعمیر کے بے بدل شاہکار مقبرہ بی بی جیوندی کی وجہ سے امریکن ایکسپریس کمپنی نے اوچ شریف کو اولڈ بگ سٹی کا خطاب دیا۔ ملتانی فن تعمیر کا شاہکار یہ مقبرہ 2000 ء میں دنیا بھر کی سوقدیم تاریخی عمارات کی فہرست میں پہلے نمبر پر تھا۔ امریکی قونصلیٹ برائن ڈی ہنٹ نے 2006 ء میں جبکہ پیٹرسن نے 2008 ء میں اس شہر کا دورہ کیا اور اس کے عظیم تاریخی ورثے کو محفوظ کرنے کے لئے پچاس پچاس ہزار ڈالر عطیہ بھی کیا جس کا عشر عشیر بھی اوچ کے آثار قدیمہ پر لگا ہوتاتو آج ان کی یہ حالت نہ ہوتی۔

اوچ شہر آج بھی منتظر ہے کہ کوئی اس آثار قدیمہ کی حفاظت کرنے والا آئے جو بزرگوں کے اس عظیم ورثے کو آئندہ نسل تک بہتر حالت میں پہنچائے۔ اس علاقے میں ورثہ اس مقدار میں پھیلا ہوا ہے کہ اسے محفوظ کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر اور بھرپور وسائل سے مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).