عمران خان کو این آر او لینے کی سخت ضرورت ہے


وزیراعظم عمران خان صاحب نے ملکی سیاسی صورتحال میں بہتری، معاشی استحکام کے اقدامات کے بجائے ایک بار پھر این آر او نہیں دوں گا والی کیسٹ بجانی شروع کر دی۔ حالانکہ قرآئن بتاتے ہیں کہ خان صاحب اس وقت این آر او دینے کی نہیں بلکہ لینے کی پوزیشن میں ہیں۔ خان صاحب این آر او نہیں دوں گا کا راگ پچھلے پندرہ ماہ سے الاپتے آ رہے ہیں، مگر انہوں نے آج تک نہیں بتایا کہ ان سے آخر این آر او مانگ کون رہا ہے؟ وہ بیرونی دوروں پہ جاتے ہیں تب بھی فرماتے ہیں کہ اپوزیشن ان سے تین الفاظ کا تقاضا کرتی ہے این آر او، مگر کون سی اپوزیشن، کون سی جماعت، کون سا لیڈر؟ یہ بتانے سے وہ سوا سال سے قاصر ہیں۔

آج جب وہ این آر او نہ دینے کی بات کر رہے ہیں تو ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ این آر او کی زیادہ ضرورت کس کو ہے ان کو یا اپوزیشن کو؟ کیونکہ اپوزیشن کے پاس گنوانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے جبکہ ان کے پاس سب کچھ ہے۔ اپوزیشن بدترین سیاسی انتقام کا شکار ہے پھر بھی جرات سے سینہ تان کر کھڑی ہے ان کے ہر ظلم ہر زیادتی ہر نا انصافی کا مقابلہ کر رہی ہے نہ کہ ان سے رحم معافی کی طلبگار ہے۔ میاں نواز شریف زندگی اور موت کے دوراہے پہ کھڑے ہوکر بھی خان صاحب سے کسی رعایت، کسی مہربانی کے خواہشمند نہیں ہیں، جبکہ آصف علی زرداری تو ضمانت کی درخواست داخل کرنے کے بھی خلاف ہیں، انہوں نے اپنے وکلاء تک کو کہہ دیا ہے کہ وہ جیل میں رہنا قبول کریں گے مگر ظالم حکمرانوں سے رحم کی بھیک نہیں مانگیں گے۔

 پاکستان کا سیاسی بیانیہ اس وقت ملک کی سیاسی تاریخ کے انتہائی بدترین انتقام کے گرداب میں پھنس چکا ہے جس سے نکلنے کے لئے خان صاحب کو این آر او کی ضرورت ہے نہ کہ اپوزیشن کو۔ پاکستان کا معاشی میزانیہ تشویشناک صورتحال سے دوچار ہے، مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح عبور کر چکی ہے، بیروزگاری بھوک بدحالی کے بھیانک سائے ملک پہ منڈلا رہے ہیں۔ عوام کی قوت خرید خان صاحب کی تبدیلی کے پندرہ ماہ میں تاریخ کی سب سے کم تر سطح پہ پہنچ چکی ہے۔

 قرضوں میں گیارہ ہزار ارب روپے کے اضافے نے سارے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ ایسے میں این آر او کی ضرورت خان صاحب کو ہے، کسی اور کو نہیں۔ انہیں این آر او چاہیے اس اپوزیشن سے جسے وہ بدترین انتقام کا نشانہ بنا رہے ہیں تاکہ ملک میں سیاسی استحکام آ سکے جس سے معاشی بحران کو دور کرنے میں مدد مل سکے۔ خان صاحب بار بار این آر او کی رٹ لگا کر دراصل اپنی فرسٹریشن کا اظہار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس کوئی اختیار نہیں۔ وہ اپنے ووٹرز کو لبھانے کے لئے این آر او کی رٹ لگاتے ہیں تاکہ ان کے ووٹرز کو لگے کہ اپوزیشن خان صاحب کے پیروں میں لپٹی ہوئی ہے، معافیاں مانگ رہی ہے کہ خدارا ہم کو معاف کردیں، ہم سب کچھ واپس کرنے کو تیار ہیں، حالانکہ حالات بالکل اس سے الٹ ہیں۔ خان صاحب نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد ایوان میں جو لب و لہجہ اپنایا تھا آج بھی اسی پہ قائم ہیں۔ وہی ضد، وہی نفرت، وہی رعونت آج بھی ان کے انگ انگ سے ٹپکتی ہے بلکہ آج ان منفی سیاسی رویوں میں بوکھلاہٹ، سراسیمگی، سیاسی عدم تحفظ، مایوسی کا بھی اضافہ ہو چکا ہے۔

پی ٹی آئی حکومت کا سب سے بڑا سیٹ بیک یہ ہے کہ ان کے پاس ملک چلانے کے لئے کبھی اچھی ٹیم تھی ہی نہیں، وہ اسد عمر کو اپنی ٹیم کا سب سے اہم رکن قرار دیتے نہیں تھکتے تھے مگر قوم نے نظارہ کیا کہ اپنے سب سے ذہین و فطین رکن کو کس طرح بے توقیر کرکے کابینہ سے نکالا، آج ان کے پاس پچھتر فیصد سے زائد وہ لوگ ہیں جن کو وہ چور ڈاکو لٹیرے را کے ایجنٹ اور ضمیر فروش کہتے تھے۔ آج اگر ان کا ہوم ورک بہتر ہوتا ان میں قابلیت و صلاحیت ہوتی تو وہ اس طرح این آر او نہیں دوں گا کی آوازیں لگا کر اپنا مذاق نہ اڑوا رہے ہوتے، اگر ان کے پاس واقعی اہل ٹیم ہوتی تو اس طرح پچاس سے زائد وزراء، مشیران و معاونین کی فوج اپنے اردگرد اکٹھا نہ کی ہوتی، وہ آتے ہی کرپشن کے خلاف اینٹی کرپشن اداروں کو فری ہینڈ دیتے اور انہیں ہر کرپٹ کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کا کہتے اور خود پاکستان کے معاشی استحکام کے کام میں جُت جاتے، مگر ایسا پہلے دن سے ہی نہیں تھا۔ انہیں اندازہ تھا کہ انہیں کمپرومائزز کرنے پڑیں گے، اقتدار کے سنگھاسن پہ بیٹھنے کے لئے انہوں ضمیر فروش بھی خریدے تو پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکوؤں سے بھی ہاتھ ملایا، انہوں نے چھ سیٹوں کے لئے منافقت کا لقب بھی قبول کیا تو بھیک مانگنے کے لئے کشکول بھی اٹھایا۔

 اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی وہ بحیثیت وزیراعظم ابھی تک اپنی اتھارٹی منوا نہیں سکے کیونکہ بحیثیت وزیراعظم نجانے کتنے اہم معاملات اور فیصلے ہیں جو ان پندرہ ماہ میں خان صاحب کو یا تو ٹی وی سے پتا چلے یا پھر سوشل میڈیا یا دوسرے ذرائع سے۔ انہیں یہ نہیں معلوم کہ پیمرا نے ٹی وی اینکرز پر دوسرے پروگرامز میں جانے پہ پابندی کیوں لگائی؟ نہ ہی انہیں یہ معلوم تھا کہ مفتی کفایت اللہ کو کس نے اور کس جرم میں گرفتار کیا ہے؟ انہیں حافظ حمیداللہ کی شہریت منسوخی کا بھی علم نہیں تھا؟ اس کا مطلب ہے کہ ”کوئی تو ہے جو نظامِ وطن چلا رہا ہے“ اور وہ کوئی کم از کم خان صاحب تو نہیں ہیں۔ لہذا انہیں یہ اب جان لینا چاہیے کہ وہ نہ تو این آر او دے سکتے ہیں نہ ہی این آر او ان سے کوئی مانگ رہا ہے۔ کیونکہ اگر این آر او کسی کی خواہش بھی ہے تو وہ جانتے ہیں کہ خان صاحب انہیں این آر او دینے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں بلکہ خان صاحب تو خود این آر او لے کر برسرِ اقتدار آئے ہیں اور انہیں این آر او دینے والوں نے ان کے ساتھ وہ ہاتھ کر دیا ہے کہ پچھلے پندرہ ماہ سے وہ اوٹ پٹانگ باتوں کے سوا کوئی کارکردگی دکھانے سے قاصر رہے ہیں۔ خان صاحب کو چاہیے کہ اب بہت ہوگیا بہکی بہکی باتیں چھوڑیں اور قوم و ملک کی تباہ حال صورتحال کو درست کرنے پہ توجہ مرکوز کریں اور اب اس حقیقت کو بھی مان لیں کہ نہ ان سے کوئی این آر او مانگ رہا ہے نہ ہی ان کے پاس دینے کو کچھ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).