جسے میں چاند سمجھا تھا وہ جگنو بھی نہیں نکلا


سب سے بڑا خواب عام آدمیوں کی زندگی میں تبدیلی کا خواب ہے۔ ”اخوت “ بھی تبدیلی کا ایک خواب ہے۔ یہ خواب ڈاکٹر امجد ثاقب نے دیکھا تھا۔ شعیب بن عزیز شاعر ہیں۔ انہوں نے ایک خواب دیکھا۔سو دیکھ لیا۔ قصہ ختم۔
اب آنکھ لگے یا نہ لگے اپنی بلا سے
اک خواب ضروری تھا سو وہ دیکھ لیا ہے
لیکن ڈاکٹر امجد ثاقب شاعر نہیں تھے۔وہ سندھ ہاری رپورٹ لکھنے والے مسعود کھدر پوش کی طرح اک انقلابی بیورو کریٹ تھے۔ وہ پاکستان سول سروس کے DMGگروپ کی افسری چھوڑ کر خدمت کے میدان میں آگئے۔ 2013ءکی خبر ہے کہ ان کے ادارہ ”اخوت“ نے تینتیس ارب روپیہ مستحق افراد میں تقسیم کیا ہے۔ یہ خیرات نہیں، بلا سود قرضہ ہے۔ اس کی واپسی کی شرح نہ صرف 99.88 فیصد ہے بلکہ جب یہ لوگ اپنے روزگارمیں اس قرضہ کے استعمال سے اپنے پاﺅں پر کھڑے ہو جاتے ہیں تو تنظیم ”اخوت “کے ڈونر بھی بن جاتے ہیں۔
لوگوں کو روزگار کیلئے قرض لینے کا یہی مقدس کام بنگلہ دیش میں ڈاکٹر پروفیسر محمد یونس نے 1976ء میں گرامین بینک (گاﺅں کا بینک) کے نام سے شروع کیا۔ گرامین بینک نے اپنے ملک میں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے دیہاتیوں کو چھوٹے چھوٹے قرضے فراہم کر کے خود کیلئے روزگار آسان کرنے میں مصروف ہے۔
عام آدمی کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی لانے کی کوشش کا یہی عمل ”اخوت “نے 2001 سے شروع کیا ہے۔ ڈاکٹر پروفیسر محمد یونس کو ان کی خدمات پر 2006ءمیں نوبل امن پرائز کا مستحق گردانا گیا۔ ڈاکٹر یونس اور ڈاکٹر امجد ثاقب ایک ہی منزل کے دو مسافر ہیں۔ دونوں ہی غربت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ دونوں کا ہدف ایک ہونے کے باوجود ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ ”اخوت “کے قرضے بلا سود ہیں جبکہ گرامین بینک اپنے قرضوں پر سود وصول کرتا ہے۔
جناب مجیب الرحمان شامی نے اس فرق کو ایک خوبصورت انداز میں یوں بیان کیا ہے۔’اگر گرامین کی جدو جہد کو غربت کے خلاف جنگ کا نام دیا جائے تو ’اخوت ‘ کی کاوش جہاد کہلائے گی‘۔ شامی صاحب نے دونوں کی جدو جہد کو جنگ اور جہاد یوں قرار دیا کہ اسلام میں سود ہر صورت میں حرام ہے۔ اس سلسلہ میں نہایت سخت احکام موجود ہیں۔
بلا سود بینکاری کا یہ کامیاب نظام دنیا کیلئے بالکل چونکا دینے والا ثابت ہوا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کو امریکہ کی ہاورڈ یونیورسٹی سمیت دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں بلا سود بینکاری پر لیکچر دینے کیلئے بلایا گیا۔ وہاں ان سے سوال جواب بھی ہوئے۔ ہاورڈ یونیورسٹی شاید دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے۔ یہ 1636ء میں بنی اور اسے پروان چڑھانے میں عیسائی پادریوں کا کردار بہت اہم ہے۔ اس یونیورسٹی کا بجٹ دنیا کے بائیس ممالک کے بجٹ کے برابر ہے۔ جب بھی معاملات روپوں پیسوں کے چل پڑیں تو ہمیں اپنا ملکی قرضہ یاد آ جاتا ہے۔ توعرض ہے کہ یہ یونیورسٹی ہمارا سارا قرضہ اتار سکتی ہے۔ ہم بھی اک عجب قوم ہیں۔
ہماری ساری عمر معجزوں کے انتظار ، بابے ڈھونڈنے اور تراشنے میں گزر جاتی ہے۔ کالم نگار عطاءالحق قاسمی نے بھی ڈاکٹر امجد ثاقب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں ایک مستجاب الدعا بابا ہی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے لکھاکہ میں ان کے سامنے دوزانو بیٹھ جاتا ہوں اور کہتا ہوں۔ بابا جی !میرے لئے دعا کریں۔ ان کی یہ تحریر ”اخوت “کے زیراہتمام شائع شدہ ایک کتاب میں بڑے اہتمام سے موجود ہے۔ لیکن پچھلے دنوں ایک خبر نے کالم نگار کو پریشان کر کے رکھ دیا۔
کالم نگار سوچنے لگا کہ یاالٰہی !کیا ہمارے سارے ہیرو اسی طرح زیرو ثابت ہوتے رہیں گے؟ پنجاب گورنمنٹ کی درخواست پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے پنجاب سیلف ایمپلائمنٹ کا اسپیشل آڈٹ برائے مالی سال 2011-18 کیا ہے۔ اس آڈٹ رپورٹ میں بہت سے اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ پنجاب گورنمنٹ نے اپنے صوبہ میں غربت کے خاتمے اور غریب افراد کو روزگار کی فراہمی کیلئے 2011 میں بلا سود قرض دینے کیلئے وزیر اعلیٰ سیلف ایمپلائمنٹ اسکیم کا اجراء کیا۔ قرض کی فراہمی کیلئے پنجاب گورنمنٹ نے یہ فنڈز پنجاب سمال انڈسٹریز کارپوریشن کو دے دیئے۔ اس نے یہ ”اخوت “کے ذریعے 7 % سروس چارجز پر غریب ، ہنر مند افراد میں تقسیم کئے۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق پنجاب سمال انڈسٹریز کی صوبہ بھر میں اپنا نیٹ ورک ہونے کے باوجود اس مقامی این جی او کو سروس چارجز کی مد میں چار ارب بارہ کروڑ پینسٹھ لاکھ کی ادائیگی بے قاعدگی کے زمرے میں آتی ہے۔ پھر بارہ ارب کے فنڈز بھی پنجاب گورنمنٹ کی ہدایت کے برعکس ذاتی مفادات کی وجہ سے غیر شیڈولڈ بینک میں رکھ کر سرکاری خزانہ کو کروڑوں روپوں کا نقصان پہنچایا گیا۔ اس طرح کے اعتراضات کی ایک لمبی فہرست آڈٹ رپورٹ میں موجود ہے۔ یہ اعتراضات اتنے سنگین ہیں کہ آپ انہیں ’جو کچھ نہیں کرتا وہ کچھ غلط بھی نہیں کرتا‘ کہہ کر نظر انداز نہیں کر سکتے۔
2011 سے 2018 کے درمیان حکومت کی جانب سے ”اخوت “نے پچاس ہزار فی کس کے حساب سے بلا سود قرض بائیس لاکھ سات سو بیروزگار ہنر مند افراد میں تقسیم کئے۔ قرض کے چیک کی تقسیم میں سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کی تشہیر کیلئے گیارہ کروڑ اڑتالیس لاکھ روپے کے فنڈز استعمال میں لائے گئے۔ اب ان اعتراضات کے سلسلے میں سمال انڈسٹریز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس بلا لیا گیا ہے۔ کچھ نہ کچھ ہوگا ہی۔ تحقیقات، نیب، ایف آئی اے ، عدالتیں۔ لیکن برہمنی فطرت کا یہ بت پرست کالم نگار اپنے دل کے مندر میں سجائے اس ٹوٹتے بت کا کیا کرے گا؟
رُخِ روشن کا روشن ایک بھی پہلو نہیں نکلا
جسے میں چند سمجھا تھا وہ جگنو بھی نہیں نکلا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments