آنسوؤں کی سیاسی تاریخ – ناقابلِ اشاعت کالم


بڑے لوگوں کے آنسو وقت کی وہ دستاویز ہوتے ہیں جو تاریخ کے اوراق کو ان کی یاد میں نم رکھتے ہیں۔ اس ملک خداداد میں ہم نے بہت سے لوگوں کو اشک بار ہوتے دیکھا، بہت سی نم آنکھیں جھیلیں، بہت سے آنسوؤں کا سامنا کیا۔ یہ سب رونے والے عام لوگ تھے لیکن آج کی تحریر ان آنسوؤں کے نام ہے جن کی تاریخی حیثیت ہمارے نسب اور نصاب میں لکھ دی گئی ہے۔ آج ان آنسوؤں کو یاد کرتے ہیں جو کبھی تو قومی بیانیے کی بنیاد سمجھے گئے اور کبھی ہمارے لئے الم اور المیے کی دستاویز بنے۔

یاد میں محفوظ گریہ کنائی کا پہلا واقعہ حضرت ضیا الحق کے آنسوؤں کا ہے۔ یہ ان کے دور پر آشوب کے خاتمے سے کچھ عرصہ پہلے کا واقعہ ہے کہ امیر المومنین، مرد مومن, مرد حق، فاتح افغانستان، حاکم وقت، صدر پاکستان جناب جنرل ضیا الحق سفید شیروانی پہنے پی ٹی وی پر خطاب کر رہے تھے۔ اس خطاب میں مسلم امہ کے درد نے انہیں نڈھال کر دیا۔ مملکت میں فشار کا ذکر کرتے ان پر رقت طاری ہوگئی اور اپنے کاندھوں پر تمام تر امت کی ذمہ داری کا سوچ کر ان پرگریہ طاری ہو گیا۔ سفید شیروانی کی بائیں جیب سے تمام تر ٹی کیمروں اور چکا چوند روشنیوں کی موجودگی میں چمکتا براق رومال نکالا اور اپنی عینک کے پیچھے سے رواں آنسوؤں کے دریا کو تھامنے کی کوشش کی۔ اس گریہ کنائی سے پہلے وہ اس سماج، معیشت اور مملکت کو تباہ حال کر چکے تھے۔ جہاں تک یاد ہے ان آنسوؤں پر بہت بحث ہوئی کئی اخباروں نے شہ سرخیاں لگائیں، ٹی وی کے کئی خبرناموں میں خطاب کے اس دلدوز ٹکڑے کو سلو موشن تک کر کے دکھایا گیا۔ ہم آج تک ان آنسوؤں کی قیمت دہشت گردی کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔

ایک آنسو ہمارے عبوری وزیر اعظم جناب ملک معراج خالد کے بھی تھے۔ معراج خالد، ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وزیر زراعت کے منصب پر فائز تھے۔ مرنجاں مرنج درویش صفت اور شریف النفس انسان۔ روپے پیسے اور ہوس اقتدار سے منفور۔ بے نظیر شہید جب وطن واپس آئیں تو معراج خالد سپیکر بھی رہے مگر رفتہ رفتہ ان کی محترمہ سے دوری ہوتی چلی گئی۔ اسی دوری کے سبب ہی ان کو بے نظیر کے دوسرے دور کے بعد عبوری وزارت عظمی سونپی گئی۔

ملک معراج خالد اس حد تک شریف آدمی تھے کہ جب وہ اسلامک یونیورسٹی کے ریکٹر تھے تو مہمان زیادہ آجانے کی صورت میں بعض اوقات اپنے سیکرٹری سے ادھار لے کر مہمانوں کی تواضح کرتے تھے۔ جب انہیں وزارت عظمی ملی تو انہوں نے زیادہ تر وقت قوم کو اچھے کاموں پر اکسانے میں گزارا۔ ٹی وی سکرینز پر نیکی کی توفیق اور بدی سے بچاؤ کا ذکر اکثر ان کی تقریروں میں ہوتا تھا۔ اس گمراہ قوم کو نیک راہ دکھاتے دکھاتے بعض اوقات کیمروں کے سامنے معراج خالد آب دیدہ ہو جاتے تھے۔ جانے یہ آنسو اپنوں کی بے اعتنائی کے تھے یا پھر اپنوں سے بے وفائی کے۔ مگر یہ آنسو بھی ہماری تاریخ کی دستاویز کا حصہ ہیں۔

ٹی وی سکرین پر ایک آنسو بے نظیر بھٹو کے بھی تھے۔ مرتضی بھٹو کے قتل کے بعد جب اس وقت کی وزیر اعظم ننگے پاوں کراچی کے مڈایسٹ ہسپتال پہنچیں تو بھائی آخری سانسیں لے چکا تھا۔ ماں جایا اس دنیا سے جا چکا تھا۔ اس سے کچھ ماہ پہلے بے نظیر اور مرتضی کے درمیان رقابت کو بہت ہوا دی گئی۔ لیکن مرتضی کے قتل کے اگلے دن جب ملک کی وزیر اعظم ماتم کے گھر میں زمین پر بچھی چادر پر بیٹھی، ٹی وی کیمروں سے بے خبر، تلاوت قرآن پاک کرتے رو رہی تھیں تو دراصل وہ ان آنسوؤں سے اس اپنے خاندان کی المناک تاریخ کا گریہ کر رہی تھیں۔ اپنے ہی دور میں بھائی کے قتل کا ماتم کر رہی تھیں تو اس وقت میلی چادر پر ٹپ ٹپ گرتے یہ آنسو بھی ہماری تاریخ کا حصہ بن رہے تھے۔ ظلم کی تاریخ کے کلیجے کو چیر رہے تھے۔

ایک آنسو نواز شریف کے بھی تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ کے جلسے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ سارا ملک صدمے سے بھر گیا تھا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی اس وقت آنے والے انتخابات کی جنگ میں مصروف تھے۔ ان حالات میں جب بے نظیر بھٹو کو اچانک قتل کر دیا گیا تو نواز شریف جائے قتل پر پہنچ گئے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کہ رہنما بابر اعوان اور رحمان ملک عوامی ردعمل کے خدشے کی بنا پر جائے قتل سے کوسوں دور جا چکے تھے۔ حالات ایسے تھے کہ غم سے بھرے جیالے کچھ بھی کر سکتے تھے۔ مگر نواز شریف نے وہاں پہنچ کر نہ صرف پیپلز پارٹی کے کارکنوں کا حوصلہ دیا بلکہ اپنے ارد گرم موجود کیمروں سے ماورا ہو کر فرط غم سے رو پڑے تھے۔ ان کی زبان پر بار بار ایک ہی جملہ آتا تھا کہ ہمارا بہت بڑا نقصان ہو گیا ہے۔ ہمارا بہت بڑا نقصان ہو گیا ہے۔ یہ آنسو دکھ کے آنسو تھے، تاسف کے آنسو تھے، احساس زیاں کے آنسو تھے۔

مریم نواز کے آنسو بھی یاد میں تازہ ہیں۔ جب ان کی والدہ کا لندن میں انتقال ہو گیا تھا۔ اس وقت وہ اور ان کے والد ایک بے جا مقدمے میں قید جھیل رہے تھے۔ آخری وقت میں ظالموں نے دم توڑتی ماں سے بات نہیں کرنے دی۔ والدہ کی تدفین کی وجہ سے جیل سے عارضی رہائی نصیب ہوئی۔ تدفین کے اگلے دن وہ والدہ کی قبر پر پھول بکھیرے رو رہی تھیں۔ انہیں اس وقت نہ خود کی سدھ تھی نہ کمیروں کی خبر تھی۔ ضبط کا دامن ٹوٹ گیا تھا اور اپنی ماں کی یاد میں ایک بیٹی کے یہ آنسو بھی ہماری تاریخ کے اوراق کو نم ناک کر رہے تھے۔ یہ آنسو بے بسی کے آنسو تھے۔ نقصان عظیم پر افسوس کے آنسو تھے۔ ایک بیٹی کے ماں کے انتقال پر غم کے آنسو تھے۔

ایک آنسو مولانا بھاشانی کے بھی تھے۔ تقسیم سے پہلے جب بنگال کا قحط پڑا تو مولانا بھاشانی قائد اعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے بنگال کے مسلمانوں کی ابتری کا ذکر کرتے وہ آب دیدہ ہو گئے۔ لیکن اس موقع پر قائد اعظم نے ان کی ذرا بھر اشک شوئی نہیں کی۔ بلکہ سردمہری کا اظہار کیا۔ ان کے جانے بعد جب احباب نے اس سخت رویے کی غایت ہوچھی تو قائد گویا ہوئے۔ ”دور الم میں رہنماؤں کا کام آنسو بہانا نہیں بلکہ ہمت اور حوصلے سے عوام کی خدمت کرنا ہے۔ “

آنسوں کی ایک قبیل عمران خان کے آنسوں کی بھی ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک مختصر وڈیو میں خان صاحب جانے کس بات پر گریہ کناں ہیں۔ ایک غیر فطری زاویے سے بنائی گئی اس وڈیو میں خان صاحب مسلسل وڈیو بنانے والے کی جانب توجہ کیے ہوئے ہیں۔ ان آنسوں کی وجہ کوئی بتانے سے قاصر ہے لیکن خیال یہی ہے شاید خان صاحب کو اب تک بی آر ٹی مکمل نہ ہونے کا غم ہے۔ شوگر سیکنڈل میں اپنے وزرا کے پکڑے جانے کی خبر لیک ہونے کا غم ہے۔ آٹا سیکنڈل میں اپنے ساتھیوں پر انکوائری کھلنے کا غم ہے۔ ماسک سیکنڈل میں ڈالر کمانے والوں کا غم ہے۔ ادویات سیکنڈل میں فارغ کیے جانے والے کو دوبارہ وزارت کی پیشکش کا غم ہے۔ یا ”احساس پروگرام“ میں غبن کرنے والے کابینہ کے ساتھیوں سے متوقع جدائی کا غم ہے۔ یا پھر بزدار کے کسی نئے سکینڈل میں برطرف ہونے کا امکان ان کو غمزدہ کر رہا ہے۔ یا پھر اپنی پارٹی میں ان لوگوں کو وزارتیں دینے کا غم ہے جن کے خلاف انہوں نے بائیس سال جنگ کی ہے۔ یا پھر شاید وہ حکومت چلانے میں اپنی بے اثری کا ماتم کر رہے ہیں۔ اپنی بے وقعتی کو کوس رہے ہیں۔ جو بھی ہے گریہ کناں خان صاحب مسلسل اشک بار آنکھوں سے کیمرے کو دیکھ رہیں۔

آج بس یہی کہنا تھا تھا کہ یہ سب تاریخی آنسو ایک سے نہیں تھے۔ کچھ بہانے کے لئے تھے، کچھ دکھانے کے لئے تھے۔ کچھ مکروفریب سے آلودہ تھے، کچھ غم سے وابستہ تھے۔ کچھ امر ہو نے کے لئے تھے کچھ مٹ جانے کے لئے تھے۔
یاد رکھنے کی بات بس یہی ہے کہ سب آنسو سچے نہیں ہوتے، سب آنسو ایک سے نہیں ہوتے۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments