عمار علی جان: لاہور میں طلبہ یکجہتی مارچ کے بعد سماجی کارکن کو ’گرفتار کرنے کی کوشش‘


پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں سماجی کارکن عمار علی جان کے مطابق انھیں طلبہ یکجہتی مارچ کے بعد گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تاہم وہ اور ان کے دیگر ساتھی مزاحمت کے بعد اس سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔

نامہ نگار عمر دراز ننگیانہ کے مطابق جمعے کو ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) لاہور کے ایک حکم نامے کی روشنی میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے لاہور کے علاقے گلبرگ کے مین بولیوارڈ پر عمار علی جان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی۔

ڈی سی لاہور کے حکم نامے پر 26 نومبر کی تاریخ درج ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ وہ ڈی آئی جی آپریشنز کی جانب سے موصول ہونے والے خط اور دیگر ثبوت کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ عمار علی جان ‘نقصِ امن ‘ کا باعث بن سکتے ہیں اس لیے انھیں ایم پی او آرڈینینس کے تحت 30 روز کے لیے حراست میں لیا جائے۔

ڈی آئی جی آپریشنز کے خط میں عمار علی جان کو ‘عوام کو ہراساں کرنے کا عادی’ اور ‘خوف کی علامت’ بھی قرار دیا گیا۔

لاہور میں کئی یونیورسٹیوں کے ساتھ منسلک رہنے والے پروفیسر عمار علی جان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘آج اگر میں آزاد ہوں تو صرف اس لیے کیونکہ میرے ساتھیوں نے اس وقت مزاحمت کی ورنہ پتا نہیں کیا ہوتا۔’

دوسری جانب ڈی سی لاہور سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن تاحال ان کا جواب موصول نہیں ہوا۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ڈی سی لاہور کے نوٹیفیکیشن اور عمار علی جان کو 30 دن تک حراست میں رکھنے کے حکم نامے کی مذمت کی ہے۔

واقعہ کب پیش آیا؟

گذشتہ روز لاہور میں چیرنگ کراس پر منعقد ہونے والی طلبہ یکجہتی مارچ میں عمار علی جان سمیت دیگر سماجی کارکنان بھی شریک ہوئے۔

عمار علی جان کی گاڑی ڈرائیو کرنے والے صحافی و سماجی کارکن حیدر کلیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ مارچ کا پروگرام اختتام کے قریب تھا جب پولیس نے عمار کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کیا۔

‘ہمیں کچھ ہی دیر پہلے ڈپٹی کمشنر کا حکم نامہ ایک صحافی کے ذریعے موصول ہوا تھا اس لیے عمار سمیت ہم چار افراد گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے۔ لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کچھ لوگ ہمارا پیچھا کرتے رہے۔’

انھوں نے بتایا کہ گلبرگ مین بولیوارڈ پر جب رش کے باعث گاڑی کی رفتار کم ہوئی تو موٹر سائیکلوں پر سوار چار افراد نے ہمیں رکنے کا اشارہ کیا۔

انھوں نے کہا کہ اس دوران پولیس کی ایک وین آ گئی۔ ‘پہلے تو ہم نے کافی دیر گاڑی کے دروازے نہیں کھولے لیکن پھر زبردستی ایک شیشہ نیچے کر کے دروازہ کھول لیا گیا جس کے بعد مجھے بھی نیچے اترنا پڑا۔’

انھوں نے الزام عائد کیا کہ اس دوران عمار کی اہلیہ سمیت انھیں اور حیدر علی بٹ کو بھی ذد و کوب کیا گیا۔

عمار علی جان: ’یقین دہانی کروائی تھی کہ ریاست کے خلاف کوئی بات نہیں ہوگی‘

عمار علی جان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اہلیہ کے ساتھ بدتمیزی کی گئی۔ ’ایسا سلوک ہمارے اقدار میں ناقابلِ قبول سمجھا جاتا ہے۔’

عمار علی جان کے مطابق اس دوران ’پولیس کے ساتھ ہمارے مذاکرات ہوئے اور کیونکہ وہاں خاصا مجمع اکھٹا ہو گیا تھا، اس لیے انھوں نے ہمیں جانے کی اجازت دی اور دو گھنٹے بعد پولیس سٹیشن آنے کو کہا۔‘

عمار کے مطابق اب پیر کے روز ان کے وکلا عدالت سے رجوع کریں گے۔

عمار علی جان کا کہنا تھا کہ ڈپٹی کمشنر کی جانب سے جاری ہونے والا حکم نامہ ان کے لیے حیرانی کا باعث اس لیے بھی ہے کیونکہ انھوں نے اس مارچ سے قبل ضلع انتظامیہ اور پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات کر کے ’یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ ریاست کے خلاف کوئی بات نہیں ہوگی اور مارچ پُر امن ہو گا۔‘

انھوں نے کہا کہ مارچ کے دوران ’کوئی ایسی بات نہیں کی گئی اور ہم نے آئین میں لکھی ہوئی بات ہی کی ہے اور طبقاتی نظام تعلیم کو ختم کرنے کی بات کی ہے، یا تو آپ آئین کو ہی بدل دیں۔‘

انھوں نے کہا حزبِ مخالف کے جلسوں میں تو ہر طرح کی زبان جائز ہے صرف اس لیے کہ وہ بااثر ہیں اور ’ہم عام لوگ مظاہرہ کر رہے ہیں اس لیے یہ ہمارے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔’

یاد رہے کہ گذشتہ برس فروری میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن ارمان لونی کی ہلاکت کے بعد مظاہرے میں شرکت کرنے پر عمار علی جان کو ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد انھیں ضمانت پر رہائی مل گئی تھی۔

واقعے کے بعد کئی لوگوں نے اپنے ٹویٹس میں عمار کی حمایت کی۔

صحافی عاصمہ شیرازی نے لکھا کہ ’کیا ہم مارشل لا میں رہ رہے ہیں؟ یہ کیسی جہموریت ہے؟‘

متحدہ اپوزیشن (پی ڈی ایم) اور مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ’کیمبرج کے پی ایچ ڈی عمار علی جان کی گرفتاری قابل مذمت ہے۔۔۔ پی ٹی آئی کی جانب سے ایسے اقدامات سے پاکستان واپس آنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔‘

صحافی منیزے جہانگیر نے لکھا کہ ’آج ہی کے دن (حکمراں جماعت) پی ٹی آئی نے خود کو نوجوانوں کی جماعت قرار دیا تھا اور احتجاج کا حق استعمال کیا تھا۔‘

افشاں مصعب نے لکھا کہ ’عمار علی جان کو ’امن و امان کے لیے خطرہ‘ کی علامت لکھنے والے بھی جذبات‘ میں آگئے۔ انھوں نے مزید سوال کیا کہ ’کیا ریاستی نظام کو عمار علی جان جیسے اساتذہ سے خطرہ ہے؟‘

گذشتہ سال لاہور کی ایک عدالت نے طلبہ یکجہتی مارچ میں شرکت کرنے والے سماجی کارکن عمار علی جان کو عبوری ضمانت دی تھی۔ پر غداری کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32663 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp