”بائیڈن میں تمھیں نہیں چھوڑوں گا“ ہم کسی ناراض پھپھی سے کم تو نہیں


پاکستان میں جو شادیاں ہوتی ہیں ان میں جب تک کوئی پھپھی خالہ ماسی چاچی آنٹی روٹھ کر شادی کا بائیکاٹ نہ کرے شادی کی تقریبات مکمل نہیں ہوتیں۔ پنجاب میں اس کو رس جانا کہتے ہیں۔ رشتے داروں کی دوڑیں لگتی ہیں کہ فلاں پھو پھو یا تائی روٹھ کر شادی میں نہ آنے کا فیصلہ کر چکی ہے لہاذا اس کو منانا ہے۔ اس وقت ہمارے بین الاقوامی معاملات ہو بہو ایسا ہی نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ جناب معید یوسف ایک ناراض چاچی کا رول ادا کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

اور وہ روٹھے بھی کس سے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن سے اور امریکی حکومت و اسٹیبلشمنٹ سے۔ کہ جو بائیڈن صاحب نے ہمارے جیسے اہم ملک کے اہم وزیراعظم کو اب تک فون کیوں نہ کیا۔ انھوں نے فنانشل ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اتنی بار ہمیں یقین دہانی کرائی کہ ابھی فون آئے گا لیکن ہمیں اب تک فون نہیں آیا ہمیں بتائیں تو سہی کوئی تکنیکی خرابی ہے یا کیا وجہ ہے۔ اگر یہ ایک رعایت ہے تو ہمارے پاس اور بھی آپشن ہیں۔

دو بچے لڑائی کرتے ہوئے اسی طرح کٹی کرتے ہیں جیسے معید یوسف نے امریکی صدر کو کٹی کرنے کی دھمکی دی ہے۔ لیکن جس آپشن کی طرف ان کا اشارہ ہے اسی سے واپسی پر وہ امریکہ گئے ہیں۔ تو اگر وہ آپشن باقی ہوتا تو ان کو ایک فون کال کے لیے ترلے منتیں کرنے امریکہ نہ جانا پڑتا۔ جناب ولا جس طرف سے ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں وہاں سے اب گرم ہوا کے بھبکے آ رہے ہیں۔ داسو واقعہ کے بعد تو خاص کر ان میں گرمی کی شدت زیادہ پو چکی ہے۔ جھڑکیاں کوسنے سبھی کچھ کھانے کے بعد آخرکار ہم امریکہ کی طرف مراجعت کا سوچ رہے ہیں اور اس طرف بھی نو لفٹ کا بورڈ آویزاں ہے اب اس کے بعد معید یوسف صاحب کا ناراض پھوپھی بن جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔

امریکہ میں زندگی بسر کرنے کی وجہ سے معید کا رکھ رکھاؤ اس قسم کی ڈپلومیسی کی اجازت تو نہیں دیتا لیکن لگتا ہے ان کے اوپر پریشر تھا کہ اسی طرح بات کرنا ورنہ میں۔ ۔ ۔ میں تمھیں اور بائیڈن دونوں کو نہیں چھوڑوں گا۔

یہ شک اس لیے بھی گہرا ہو جاتا ہے کہ فضائی اڈوں والی بات پر معید یوسف نے برملا ٹی وی پروگرامز میں بیٹھ کر کہہ دیا تھا کہ ان سے کسی نے فضائی اڈوں کی فرمائش نہیں کی، کسی اور سے کی ہے تو مجھے پتہ نہیں۔ لیکن پھر دو دن کے بعد ان کو بھی بادل ناخواستہ کسی کے دباؤ پر کہنا پڑا کہ ہاں ایسا ایک تاثر تو ملا تھا۔ کیونکہ ان کو سمجھایا گیا ہو گا کہ بیٹا یہاں پر رہنا ہے تو معاملات کو داسو ڈیم والے واقعے یا افغان سفر کی بیٹی والے معاملے کی طرح ڈیل کرنا ہے کہ بس بچوں کی طرح سیدھا سیدھا جھوٹ بول دو کہ نہیں یہاں تو کچھ ہوا ہی نہیں۔

ہمارے خارجہ معاملات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہم بائیڈن سے ایک کال کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ ہم بضد ہیں کہ ہمیں کال کرو اور ہمیں ہمارے اہم ہونے کا یقین دلاؤ۔ نہیں تو بائیڈن تمھیں نہیں چھوڑوں گا میں۔

اور پھر بائیڈن ہمیں فون کریں بھی تو کیوں۔ وہ جمہوریت کے علمبردار اور یہاں جمہوری رویوں کا دور دور تک نام و نشاں نہیں۔ وہ ایک ڈکٹیٹر سے کیونکر بات کرنا چاہیں گے جبکہ وہ جانتے ہیں کہ اس فون فوں کے پیچھے اختیار نہیں بلکہ ایک پتلی تماشا ہے۔ تو جب اختیار ہی کسی اور کے پاس ہے پھر وقت پڑنے پر وہ کال بھی با اختیار لوگوں کو ہی کریں گے۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ کی طرف سے کال کرنے کی ڈیمانڈ کے جواب میں انتہائی سادہ اور سلجھا ہوا جواب دیا گیا کہ صدر صاحب نے تو ابھی بہت سے سربراہوں کو کال نہیں کی۔ وہ ان کو کال کریں گے تو یقیناً آپ کو بھی کال کریں گے۔

ان کا مطلب تھا کہ دھیرج رکھیے بائیڈن صاحب کو آپ کی سب چالاکیوں کا علم ہے۔ جمہوریت کے نام پر آپ نے فنڈز لے کر جمہوریت کی جو درگت بنائی ہے اس کا بھی ان کو علم ہے اور یہ بات بھی وہ بخوبی جانتے ہیں کہ جب ان کے اور صدر ٹرمپ کے بیچ معرکہ حق و باطل جاری تھا تو پاکستان میں سوشل میڈیا برگیڈ سے ٹرمپ کے حق میں ٹرینڈ چلوائے جا رہے تھے۔ جب عمران خان صدر ٹرمپ سے مل کر واپس تشریف لائے تھے تو ان کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے گئے تھے جیسے وہ کشمیر فتح کر کے آ رہے ہوں۔

یہ الگ بات کہ مودی سے دیکھا نہ گیا اور اس نے 370 لگا کر اس فتح کو شکست میں تبدیل کر دیا تھا۔ تو بائیڈن انتظامیہ بہت اچھے طریقے سے جانتی ہے کہ پاکستان کی حکومت نے ان کے اقتدار میں آنے کیے نہ تو مصلے پر بیٹھ کر دعائیں کی تھیں بلکہ ہماری خواہش تھی ٹرمپ ہی دوبارہ بر سر اقتدار آئے کیونکہ اس نے ہمیں کافی پذیرائی بخشی تھی۔

ایک طرف عمران خان ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے فضائی اڈوں کے لیے امریکہ کو منع کر دیا ہے۔ تو دوسری طرف ان کو اس بات کی بھی توقع ہے کہ بائیڈن ان کو فون کرے گا۔ تو بقول سہیل وڑائچ ”کیا یہ کھلا تضاد نہیں“۔ یہ بات تو اپنی جگہ اٹل ہے کہ پاکستان کی تزویراتی اہمیت سے امریکہ انکار نہیں کر سکتا اور اس کو پاکستان کی افغانستان کے معاملے میں خاص کر ضرورت پر سکتی ہے لیکن یہ بات بھی یاد رکھیے کہ دنیا کی ترجیحات بھی بدل رہی ہیں اور طریقہ کار بھی۔

ہم ابھی تک ایک فون کال نہ آنے پر ٹسوے بہا رہے ہیں لیکن دیگر ممالک کا اس خطے کے مسائل کو دیکھنے زاویہ تھری سکسٹی ڈگری تبدیل ہو چکا ہے۔ اب پاکستان کسی کی مجبوری نہیں ہے ہاں پاکستان کی بہت سی مجبوریاں ہیں۔ اب تو یہ ہے ہم کوئی منتر شنتر پھونک کر صدر بائیڈن کو کال ملانے پر مجبور کریں یا ہم ایک عمومی اور قومی رویے کے طور پر چودھراہٹ دکھا کر ان کو دھمکی لگائیں کہ دیکھو ہمیں فون نہ کیا تو ہمارے پاس اور بھی آپشن ہیں۔ اگر پھر بھی کال نہ آئے تو ہم آخر میں یہ بڑک تو لگا ہی سکتے ہیں کہ ”بائیڈن میں تمھیں نہیں چھوڑوں گا“۔

 

عالیہ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عالیہ شاہ

On Twitter Aliya Shah Can be Contacted at @AaliyaShah1

alia-shah has 45 posts and counting.See all posts by alia-shah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments