اپنی نوعیت کا عجیب و غریب مقدمہ


”پھر تمہیں کچھ خبر پہنچی ہے ان مقدمے والوں کی جو دیوار چڑھ کر اس کے بالا خانے میں گھس آئے تھے ؟ جب وہ داؤدؑ کے پاس پہنچے تو وہ انہیں دیکھ کر گھبرا گیا انہوں نے کہا۔“ ڈریے نہیں، ہم دو فریق مقدمہ ہیں جن میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے آپ ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ کر دیجیے ، بے انصافی نہ کیجیے اور ہمیں راہ راست بتائیے ۔ یہ میرا بھائی ہے ، اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہی دنبی ہے اس نے مجھ سے کہا کہ یہ ایک دنبی بھی میرے حوالے کر دے اور اس نے گفتگو میں مجھے دبا لیا ”داؤدؑ نے جواب دیا:“ اس شخص نے اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری دنبی ملا لینے کا مطالبہ کر کے یقیناً تجھ پر ظلم کیا، اور واقعہ یہ ہے کہ مل جل کر ساتھ رہنے والے لوگ اکثر ایک دوسرے پر زیادتیاں کرتے رہتے ہیں، بس وہی لوگ اس سے بچے ہوئے ہیں جو ایمان رکھتے اور عمل صالح کرتے ہیں، اور ایسے لوگ کم ہی ہیں ”(یہ بات کہتے کہتے ) داؤدؑ سمجھ گیا کہ یہ تو ہم نے دراصل اس کی آزمائش کی ہے ، چنانچہ اس نے اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدے میں گر گیا اور رجوع کر لیا۔“ (سورۂ ص : 21 تا 23 )

مذکورہ آیات میں (یہاں جن کا صرف ترجمہ دیا گیا ہے ) ایک بہت ہی مختصر سا واقعہ مذکور ہوا ہے ، جو حضرت داؤد علیہ السلام پر پیش کیے جانے والے اپنی نوعیت کے انوکھے مقدمے کی تفصیلات پر مشتمل ہے ۔ یہ واقعہ جو غالباً ہزار بارہ سو سال قبل مسیح میں وقوع پذیر ہوا۔ قرآن کے اس واقعہ کو جو درحقیقت ایک مقدمہ پر مبنی ہے قرآن کے دوسرے واقعات سے جو بات یا حیثیت ممتاز کرتی ہے یہ بھی ہے کہ یہ مقدمہ انسان کی فطرت اور نفسیات کے گہرے راز سے پردہ اٹھاتا ہے ۔ پہلے اس مقدمے کے چار اہم پہلو دیکھیں :

1۔ یہ دو فریق کا یا دو بھائیوں کا معاملہ ہے جس میں ایک نے دوسرے پر زیادتی کی۔ اور اسے سبق آموذی کے لیے قرآن میں جگہ دی گئی ہے ،

2۔ اس مقدمے سے خود حضرت داؤد علیہ السلام کو متنبہ کرنا مقصود تھا۔ آگے کی آیات میں ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کو فوراً اپنی کسی غلطی کا احساس ہو گیا اور وہ رب تعالیٰ کے حضور رونے گڑگڑانے لگے ۔

3۔ اس واقعے سے حضور ﷺ کو متنبہ کرنا بھی مقصود ہے ۔ ”اتاک“ میں کاف خطابی آپ ﷺ سے خطاب کی نسبت کو بتاتا ہے ۔

4۔ پھر نبیﷺ کے توسط سے امت مسلمہ کے ہر فرد کو بلکہ ساری انسانیت کو یہ درس دینا مقصود ہے کہ کوئی بھی مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ زیادتی کرنے کی جرات نہ کرے ۔

یہ واقعہ کوئی عام سا واقعہ نہیں ہے ، بلکہ ایک خاص پہلو پر فوکس کرنے کی وجہ سے یہ بڑا ہی خاص اور موثر واقعہ بن جاتا ہے ۔ وہ پہلو یہ ہے کہ فقیر اور تہی دست آدمی اگر کسی کے مال کو لالچ کی نگاہ سے دیکھے تو یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے ۔ لیکن اگر کسی کے پاس ایک چیز بہتات کے ساتھ موجود ہو اور پھر بھی وہ دوسرے کی پاس موجود تھوڑی سی اسی چیز کے لالچ میں مبتلا ہو جائے ، تو یہ عام معمولی بات نہیں رہ جاتی۔ یہ لالچ افتاد طبع سے آگے بڑھ کر ظالمانہ رویہ بن جاتا ہے ۔

حضرت داؤد علیہ السلام جن کو اللہ نے علم و حکمت اور بادشاہت سے نوازا تھا، ان کے پاس دو بھائی / شریک کار اپنا مقدمہ لے کر آئے ۔ قرآن میں گرچہ دو آدمیوں کا تذکرہ ہے مگر مقدمہ فی الحقیقت ایک ہی آدمی جو مظلوم ہے درج کروا رہا ہے ۔ اسے شکایت ہے کہ اس کے بھائی/ شریک کار کے پاس 99 بکریاں (بھیڑیں ) ہیں اور اس بیچارے کے پاس صرف ایک ہی بکری ہے ۔ تو انسانی اور اسلامی اخلاقیات کا تقاضا تو یہ تھا کہ جس کے پاس زیادہ تھیں وہ اپنی بکریوں میں سے کچھ بکریاں اپنے اس بھائی کو دیتا جس کے پاس صرف ایک ہی بکری تھی، مگر اس کے برعکس اس نے اس کی ایک بکری بھی چھیننے کی کوشش کی۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے ٹھیک ٹھیک فیصلہ سنایا اور جس کے پاس ننانوے بکریاں تھیں اس کے عمل کو ظالمانہ قرار دیا۔ قرآن کے الفاظ واضح ہیں :

”اس شخص نے اپنی بکریوں کے ساتھ تیری ایک بکری بھی ملا لینے کا مطالبہ کر کے یقیناً تجھ پر ظلم کیا۔“
اس سے بعد کی جو آیت ہے :

” اور واقعہ یہ ہے کہ مل جل کر ساتھ رہنے والے لوگ اکثر ایک دوسرے پر زیادتیاں کرتے رہتے ہیں، بس وہی لوگ اس سے بچے ہوئے ہیں جو ایمان رکھتے اور عمل صالح کرتے ہیں، اور ایسے لوگ کم ہی ہیں۔“

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنے زمانے کا معاشرتی رویہ اور لوگوں کی عام اخلاقیات کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ انہوں نے فرمایا کہ صرف اہل ایمان اور نیک لوگ ہی اس طرح کی ظالمانہ روش سے بچ پاتے ہیں اور وہ بہت تھوڑے سے ہیں، باقی تو بیشتر لوگوں کا مزاج، نفسیات اور عمل یہی ہے کہ جب بھی، جہاں بھی اور جس طرح بھی موقع ملتا ہے کمزوروں اور مظلوموں کو ستانے ، ان پر رعب جمانے اور ان کا مال ہڑپنے سے گریز نہیں کرتے ۔

غور کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ اس واقعے کے ظہور پذیر ہونے کے پس پردہ جو محرکات اور عوامل رہے ہوں گے ، ان میں کس طرح کی انسانی نفسیات اپنا کام کر رہی ہوں گی؟ جس کے پاس ننانوے بکریاں تھیں، اس نے جب اپنے بھائی کی اکلوتی بکری بھی لینے یا چھیننے کی کوشش کی ہوگی تو اس کے ذہن میں یہی بات تو رہی ہوگی کہ اس طرح اس کی پوری سو ( 100 ) ہوجائیں گی۔ اور وہ اپنے علاقے اور بستی میں نامور آدمی کہلائے گا۔ اسے سو بکریوں والا امیر کہا جائے گا۔ امیر اور زمینداروں کا یہ ایک بڑا ہی تاریک نفسیاتی پہلو ہے ۔

ننانوے کو سو بنانے کی فکر و نفسیات پر مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی اشارہ فرمایا ہے :

”حضرت داؤد علیہ السلام نے مقدمہ کی روداد سنتے ہی اندازہ فرما لیا کہ زیادتی دولت مند کی ہے اور پھر بے رو رعایت یہ فیصلہ سنا دیا کہ اس شخص نے تمہاری دنبی کو اپنی دنبیوں میں ملا لینے کا مطالبہ کر کے تمہارے اوپر ظلم کیا ہے اور ساتھ ہی یہ ریمارک بھی دے دیا کہ اکثر شرکائے معاملہ اپنے ننانوے کو سو بنانے کی فکر میں اسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ زیادتیاں کرتے رہتے ہیں۔ “

[تدبر قرآن تفسیر سورۂ ص، آیت: 24 ]

خود ہمارے ملک بھارت میں ابھی ماقبل کی تاریخ میں یعنی یہی کوئی سو سال پہلے تک جن زمینداروں کے کھیتوں میں ایک ساتھ 100 ہل چلتے تھے وہ اس حوالے سے بڑی ناموری رکھتے تھے ۔ بعض زمینداروں کے کھیتوں میں دس بعضوں کے بیس اور بعض دیگر زمینداروں کے کھیتوں میں کم یا زیادہ ہل چلتے تھے اور وہ سب اس حوالے سے بڑی ناموری اور شہرت رکھتے تھے ۔

اس ضمن میں اگر ہم کالونیل اور پوسٹ کالونیل دور کے زمینداروں اور ساہوکاروں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ان کا رات دن کا یہی مشغلہ تھا کہ کس طرح کاشتکاروں کا سارا مال لے لیا جائے ۔ ان کی اس حرکت کے پیچھے یہی سبب تو کارفرما تھا کہ وہ بستی میں دوسرے مالدار لوگوں سے آگے بڑھنا چاہتے تھے ۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے پاس علاقے میں سب سے زیادہ دولت ہو جائے اب چاہے وہ جیسے بھی ہو۔

آج بھی اگر ہم دیکھیں گے تو ہماری بستی کے دبنگ لوگ، سیاسی افراد اور پارٹیاں یہی سب تو کر رہی ہیں۔ ان سب افراد نے اور پارٹیوں نے بھی آپس میں ہوڑ اور دوڑ لگا رکھی ہے ، انہوں نے آپس میں مقابلہ آرائی کی نفسیات پیدا کرلی ہیں اور اب ان میں سے ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے بڑھنا چاہتا ہے ۔ ناموری کے اعتبار سے بھی اور دولت کے اعتبار سے بھی۔ ان کی تمام تر توجہ اور ذہن اسی ہوڑ اور دوڑ پر لگا ہوا ہے ، اب انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا، اس ہوڑ اور دوڑ میں آگے بڑھنے کے لیے یہ کچھ بھی کرنے اور کر گزرنے کو تیار ہیں، یہاں تک کہ یہ غریبوں اور مزدوروں کا ذہنی و جسمانی استحصال بھی کرتے ہیں۔

اس ہوڑ اور دوڑ میں ریس لگانے والے سیاسی گھوڑے کیا کچھ نہیں کرتے ، یہ لوگوں کو مار بھی دیتے ہیں اور مروا بھی دیتے ہیں، بستیوں میں آگ بھی لگوا دیتے ہیں حتیٰ کہ خود اپنے ہی لوگوں کی بلی چڑھانے سے بھی نہیں ہچکچاتے ۔ اور پھر تکلیف دہ بات یہ بھی ہے کہ انہیں اس سے کچھ فرق بھی نہیں پڑتا۔ آپ افراد کی اور قوموں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، سب جگہ آپ کو یہی دکھائی دے گا۔ حتیٰ کہ غلاموں کی تجارت کے زمانے میں بھی انسان کی یہی سب نفسیات کام کر رہیں تھیں۔ اقبال نے اسی ذہنیت پر چوٹ کی ہے :

دہ خدایا یہ زمیں تیری نہیں تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں تیری نہیں میری نہیں

اگر ہم اس نظر سے قرآن کے اس مقدمے کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ مقدمہ انسان کی نفسیات کا بہت ہی گہرا تجزیہ کر رہا ہے ۔

اور پھر طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ بہت سارے اہل علم بھی اسی نفسیات کا شکار ہو جاتے ہیں، وہ بھی ہوڑ اور دوڑ کے چکر میں وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو انہیں نہیں کرنا چاہیے ، مزید تماشا یہ ہے کہ ممبر و محراب اور مسند علم دین سے وابستہ افراد بھی اس ہوڑ اور دوڑ سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ فرق ضرور ہو سکتا ہے ، ہوڑ اور دوڑ کے مزاج اور اعمال میں تفاوت ضرور ہے ، مگر مکمل استثنا کسی کا ممکن نہیں، انفرادی سطح پر بعض افراد کا استثنا الگ بات ہے ۔

اس ہوڑ اور دوڑ کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ایک شخص جو پہلے نمبر پر ہے اس کی دن رات کی فکر یہی ہے کہ وہ پہلی پوزیشن پر بنا ر ہے ، جبکہ دوسری اور تیسری پوزیشن والا، پہلی اور دوسری پوزیشن پر قدم جمانا چاہتا ہے ۔ اگر یہ سب تمام تر نیک نیتی، اپنی خدا داد صلاحیت اور ذہنی و جسمانی کاوشوں کے ساتھ ہو رہا ہے تو کچھ ایسا غلط بھی نہیں، لیکن اگر اس میں حلال و حرام کی تمیز اٹھ گئی ہے اور دوسروں کی جان و مال کو نقصان پہنچا کر کوئی پوزیشن حاصل کی جا رہی ہے تو یہ سراسر غلط ہے ۔

آج کی موجودہ دنیا میں تو اس کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جا رہا ہے کہ کس کے پاس زیادہ دولت ہے اور سال بہ سال کئی اداروں کی طرف سے ڈاٹا جاری کیا جاتا ہے کہ پچھلے سال جو شخص پہلے نمبر پر تھا اب وہ دوسرے نمبر پر آ گیا ہے اور جو تیسرے پر تھا اس نے پہلی پوزیشن حاصل کرلی ہے ۔ پھر کیٹگرائز کر کے اعداد و شمار کی روشنی میں بتایا جاتا ہے کہ کس کے پاس کتنے ریکارڈز ہیں، کس کے پاس کتنے عہدے ہیں، سیاسی قوت میں کون بڑھا ہوا ہے اور سماج میں کس کا رتبہ زیادہ اعلیٰ ہے ۔

پھر ممالک کے درمیان مقابلہ آرائی چلتی ہے اور پھر قوموں اور خطوں کے درمیان۔ اگر یہ سب بھی پروگریسو ذہن کے ساتھ ہو اور اس سے مقصود انسانیت کے قافلے کو اس کی منزل تک لے جانا ہو تب تک کچھ مضائقہ نہیں لیکن اگر اس کے پیچھے منفی سوچ کارفرما ہے ، پراپیگنڈے ہیں اور بعض ملکوں اور حکمرانوں کا دبدبہ قائم رکھنا اور بعض دوسروں کو ذلیل و رسوا کرنا مقصود ہے تو یہ ہر طرح سے غلط ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments