اُردُو زبان ……دیارِ غیر میں


  اُردُو زبان دُنیا بھر میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں سے تیسری بڑی زبان ہے۔دُنیا بھرمیں بالخصوص برصغیر پاک و ہند میں اُردُو زبان بولنے اور سمجھنے والوں کی اکثریت پائی جاتی ہے۔ اگر اس زبان کو بین الاثقافتی زبان کہا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔اسے لشکری زبان بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ زبان فارسی، عربی،  ہندی،سنسکرت جیسی متعدد زبانوں سے مل کر بنی ہے۔ جس طرح مختلف زبانوں کے اثرات اُردُو زبان میں دیکھے جاسکتے ہیں اُسی طرح یہ زبان مختلف روایتوں کا سنگم بھی ہے۔  اگرچہ ہندوستان میں بعض حلقے اُردُو کو مسلمانوں سے موسوم کرتے ہوئے اسے”مسلمانوں کی زبان” کہتے ہیں۔  پاکستان میں اُردُو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ انگریزی اور علاقائی زبانوں کے کئی الفاظ اور لہجے اُردُو زبان میں شامل ہو کر اسے اور وسعت دے رہے ہیں۔ پاکستان کے 20  کروڑ  سے زائد عوام اُردُو بول اور سمجھ سکتے ہیں۔

 اُردُو زبان کے فروغ کے لئے پاکستان میں سرکاری اور نجی سطح پراقدامات کیے گیے ہیں اور کئے جاتے رہیں گے۔ اس کے علاوہ دُنیا بھر میں جہاں جہاں اُردُو زبان بولنے اورسجھنے والے آباد ہیں وہاں پر اُردُو زبان کے ترویج و ترقی اور فروغ کے لیے مختلف ادبی تنظیمیں سر گرم ِ عمل ہیں۔مختلف عالمی یونیورسٹیوں میں اُردُو زبان کو ایک مضمون کے طور پر رکھا گیا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق3  ملین اُردُو بولنے والے افراد یورپی کمیونٹی میں ہیں۔جن میں سے نصف برطانیہ میں آباد ہیں۔اس لئے برطانیہ میں اُردو  قومی نصاب میں بحیثیت اختیاری مضمون شامل ہے اور جب سے برطانیہ یورپ کی مشترکہ منڈی میں شامل ہوا ہے وہاں مختلف اسکولوں میں اُردو کی تدریس میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی مشترکہ منڈی کی شرائط کے تحت منڈی میں شریک ہرمُلک کے لئے اپنے بچوں کو ان کی مادری زبان پڑھانا اوراس سلسلے میں مناسب اقدامات کرنا لازم قرار دیا گیا ہے۔

اٹلی میں اُردو زبان و ادب کا آغاز انیسویں صدی میں ہوا۔ علوم شرقیہ کی تعلیم کے لئے اورینٹل یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ نیپلز یورپ کا قدیم ترین ادارہ ہے۔اطالوی زبان میں لکھی گئی کتاب”اُردو کی گرامر” 1892ء میں روم میں شائع ہوئی۔ علامہ اقبال کے دورہ اطالیہ کی یادگار دو نظمیں بہت مشہور ہیں، ایک “مسولینی” اوردوسری “صقلیہ”۔  1933ء میں روم میں “مشرق ِوسطی و بعید” کا اطالوی ادارہ قائم ہوا۔ یہاں بھی اُردو زبان و ادب کی تدریس ہوتی ہے۔

1990ء میں ناروے کی آبادی 41 لاکھ تھی اور مُلک کی زبان نارویجن ہے۔ ناروے میں اُردو پاکستانیوں کے ساتھ پہنچی۔ ناروے کے دارالخلافہ اوسلو سے پمفلٹ نما اُردو اخبار “صدائے پاکستان،اخبارِ پاکستان، نوائے پاک،  ندائے پاکستان،جہاد  اور آواز”، شائع ہوتے ہیں۔ایک ہفت روزہ اخبار ناروے کے شہر ستوانگر سے شائع ہوا۔ 1979ء میں ایک پندرہ روزہ “سفیر” شائع ہوا۔۔ اس کے علاوہ اُردو ماہوار رسائل بھی چھپتے ہیں۔1978ء میں “پردیس” ماہنامے کا اجراء ہوا۔ جنوری 1980ء ماہنامہ “انٹر نیشنلسٹ” شائع ہوا اور ایشن کلچرل کونسل، رسالہ “بازگشت” شائع کر تی ہے۔

اسکاٹ لینڈ کے اسکولوں میں اُردو زبان کی تدریس کو 1994ء میں قانونی حیثیت ملی۔ جس کے بعد اُردو زبان اس مُلک میں باقاعدگی سے پڑھائی جانے لگی۔اس سے قبل متعلقہ حلقوں میں ایک سروے کے نتیجہ میں 15فیصد نے اُردو کے حق میں اور صرف 2 فیصد نے ہندی زبان کے حق میں رائے دی تھی۔

پیرس یونیورسٹی (فرانس) میں “مدرسہ السنہ شرقیہ” 1669ء میں قائم ہوا۔ وہاں 60 سے زائد زبانیں پڑھائی جاتی ہیں۔ اُردو ادب سے بھی فرانسیسی زبان میں بہت تراجم ہوئے۔ ان میں اقبال اور فیض کا کلام بھی شامل ہے۔ اقبال کی “بالِ جبرائیل”کے علاوہ بہت سی نظموں کا فرانسیسی میں ترجمہ ہوا۔

مغربی جرمنی میں پاکستانیوں کی تعداد تقریباً ستر ہزار ہے۔ بھارتیوں کی تعداد تقریباً دو لاکھ ہے۔ اُردو بولنے اور لکھنے والوں کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ ہے۔ علامہ اقبال کیمرج (برطانیہ) سے جب گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے جرمنی آئے اور میونخ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر گئے۔پہلی جنگ ِ عظیم کے دوران مُٹھی بھر ہندوستانی نوجوان برلن میں جمع ہوچکے تھے۔ جن کی مدد سے برلن یونیورسٹی میں اُردوپڑھانے کا کام لیا گیا۔1960ء سے برلن کے علاوہ ہیمبرگ اور ہائیڈل برگ یونیورسٹیوں میں بھی اُردو تدریس کا انتظام ہے۔ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے ساؤتھ ایشاء انسٹی ٹیوٹ میں اُردو کی کل وقتی لیکچر شپ ایک لمبے عرصے سے قائم ہے۔اس انسٹی ٹیوٹ میں حکومتِ پاکستان نے “اقبال چئیر” قائم کر رکھا ہے۔اُردو زبان کی پہلی گرائمر لکھنے کا شرف ایک جرمن بنجمن شلز کو حاصل ہوا۔

ڈنمارک کی آبادی پانچ لاکھ سے زائد ہے، دارلخلافہ کوپن ہیگن اور قومی زبان ڈینش(ولندیزی) ہے۔جان جوتسو کیٹلر نے اُردو صرف و نحو اور لغت تحریر کی، جو کہ ابھی تک ہیگ کے کُتب خانہ میں محفوظ ہے۔

بر صغیر میں سب سے پہلے اہلِ پرتگال آئے۔ 1498ء میں دہلی کے اندر سکندر لودھی کے دورِ حکومت میں ایک پرتگالی سیاح واسکوڈے گاما ہندوستان کے مغربی ساحل کالی کٹ میں آیا۔رفتہ رفتہ پرتگالی تاجروں نے یہاں ڈیرے ڈال لئے۔اور ساتھ ہی پرتگالی اوراُردو زبان کا ملاپ شروع ہوا۔آج پانچ صدیوں کے بعد بھی پرتگالی زبان کے الفاظ مثلاًالماری، بالٹی، صابن، تولیہ، اچار، بسکٹ، پستول، تمباکو وغیرہ اُردو میں مستعمل ہیں۔

سوئیڈن کے دارلحکومت اسٹاک ہوم میں سب سے زیادہ پاکستانی آبادہیں جن کی چند دُکانیں،ہوٹل اور ایک مسجد ہے۔ جہاں باقائدہ اُردو  میں اسلامی تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری ہے۔سوئیڈن میں تقریباً نوے مختلف زبانیں پڑھائی جاتی ہیں۔ جن میں سے ایک اُردو زبان بھی ہے۔یہاں پاکستانی سفارت خانے کے تحت کوئی اسکول وغیرہ نہیں ہے۔

ہالینڈ میں 1991ء تک تقریباً  بارہ ہزار پاکستانی رہتے تھے۔ لائے دن یونیورسٹی اور ایمسٹرڈم یونیورسٹی میں اُردو ایک اضافی مضمون کی حیثیت سے پڑھایا جاتا ہے۔ایمسٹرڈم میں اُردو ایک “سیلف اسٹڈی کورس” ہے جو صرف وہی افراد لے سکتے ہیں جنہیں کسی تحقیق یا منصوبے پر کام کرنے کے لئے پاکستان جانا ہو۔ 1971ء میں پریم چند اورمنٹو کے افسانوں کا پولش میں ترجمہ ہوا۔وارسا یونیورسٹی میں اُردو زبان ایک اختیاری مضمون کے طور پر پڑھائی جا تی ہے۔

مشرقی افریقہ کا مُلک کینیا دسمبر 1963ء تک انگریزوں کے قبضہ میں تھا۔جب تک یہاں انگریز حکومت رہی یہاں اسکولوں میں اُردو زبان پڑھائی جاتی رہی۔لیکن بعدا زاں دوسری ایشائی زبانوں کی طرح اُردو زبان کوبھی اسکولوں سے خارج کردیا گیا۔ کینیا کے دارلحکومت  نیروبی میں اُردو زبان 1941ء سے قبل پہنچ چکی تھی۔نیرو بی ریڈیو سے اُردو  زبان میں پروگرام نشر ہوتا ہے اور ماہانہ مشاعرہ بھی ریڈیو سے نشر ہوتا ہے۔

جوہنس برگ (جنوبی افریقہ) کی آبادی تقریباً تین کروڑ ہے۔ مسلمان آبادی تقریباً 5 لاکھ ہے۔ اُردو بولنے والوں کی تعداد تقریباً 1  لاکھ ہے۔ہرمسجد کے ساتھ ایک مکتب یا مدرسہ موجود ہے جہاں دینی تعلیم اُردو زبان میں دی جاتی ہے۔

مذکور اعداد وشمار اور احوال سے اُردوزبان کی اہمیت اور مستقبل کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اُردو زبان بولنے والے افراد کی تنظیموں کی دیارِ غیر میں اس زبان کو زندہ رکھنے اور اس کے فروغ کے لئے کوششیں اور مثبت سرگرمیاں واقعی قابلِ تحسین ہے۔

(اس تحریر کی تیاری میں “پاکستان قومی زبان تحریک” کی رپورٹ سے مدد لی گئی۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments